انسانی دماغ: ایک عضو یا مشین

رستم علی خان

انسانی دماغ میں تقریباَ سو ارب خلیات ہوتے ہیں جبکہ ایک دماغی خلیے کے دیگر دماغی خلیات کے ساتھ ایک ہزار سے دس ہزار تک رابطے ہوتے ہیں اور ان خلیات کے درمیان پیغامات کی منتقلی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے ہو جاتی ہے۔

پیدائش کے وقت انسانی دماغ کا وزن تقریباََ ایک پونڈ (آدھے کلو سے بھی کم) ہوتا ہے لیکن جب انسان چھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو دماغ کا وزن تین پونڈ تک ہوجاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق جب ہم کھڑا ہونا ،باتیں کرنا اور چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس دوران ہمارےدماغ میں رابطوں کا ایک جال بچھنے لگتا ہے اور یوں دماغ کا وزن بڑھ جاتا ہے۔

ہمارے دماغ میں تقریباََ سو ارب خلیات ہوتے ہیں۔ ایک دماغی خلیے کے دیگر دماغی خلیات کے ساتھ ایک ہزار سے دس ہزار تک رابطے ہوتے ہیں اور ان خلیات کے درمیان پیغامات کی منتقلی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے ہو جاتی ہے۔

ہمارے دماغ کا دایاں حصہ جسم کے بائیں حصے کو قابو میں کرتا ہے جبکہ دماغ کا بایاں حصہ جسم کے دائیں حصے کو کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔

دماغ کا وزن کُل جسمانی وزن کا تقریباََ دو فیصد ہوتا ہے لیکن یہ دماغ پورے جسم کو فراہم کی جانے والی اوکسیجن کا بیس فیصد اور پوری جسمانی توانائی کا بیس سے تیس فیصد استعمال کرتا ہے۔

دماغ سے ہمارے پٹھوں تک کوئی عمل کرنے کا پیغام چار سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پہنچتا ہے۔

ایک دماغی اعصابی خلیے کا موٹا پن چار مائکرون ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے تیس ہزار خلیات ایک پِن (PIN) کے سرے پر سما سکتے ہیں۔

ایک بالغ ڈولفن کے دماغ کا وزن بالغ انسان کے دماغ جتنا ہوتا ہے تاہم ہاتھی کا دماغ ہمارے دماغ کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا بڑا ہوتا ہے۔

اگر دماغ کو صرف پانچ سے دس منٹ تک کسی وجہ سے اوکسی جن فراہم نہ ہو سکے تو اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

انسانی دماغ میں خون کی نالیوں کا جو جال سا بچھا ہوا ہے اس کی مجموعی لمبائی تقریباََ سات سو کلو میٹر ہے۔

ہر بار جب کوئی نیا خیال آپ کے ذہن میں اُبھرتا ہے یا کوئی نئی چیز یاد آتی ہے تو آپ کے دماغ میں دو یا دو سے زیادہ خلیات کے درمیان نئے رابطے وجود میں آجاتے ہیں۔

جب آپ جاگ رہے ہوتے ہیں اس وقت آپ کا دماغ پچیس واٹ طاقت کی بجلی پیدا کر رہا ہوتا ہے جو کہ ایک بلب روشن کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

ایک نئی طبّی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ 25 برس کی عمر کے بعد انسانی دماغ پر "بڑھاپے” کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق مذکورہ عمر کے بعد دماغ میں موجود cerebrospinal fluid کی حرکت کی رفتار تبدیل ہو جاتی ہے۔

مذکورہ سیال کی حرکت کی تبدیلی سانس لینے اور دل کی دھڑکنوں جیسی سرگرمیوں کے ساتھ مربوط ہوتی ہے۔

اس طبی تحقیق کو تیار کرنے والی برطانیہ کی لینکسٹر یونی ورسٹی کی خاتون پروفیسر انیتا اسٹیفینوفیسکا کے مطابق "اس بات کے دلائل موجود ہیں کہ تحقیق میں شریک 25 برس سے زائد عمر والے افراد میں cerebrospinal fluid کی حرکت کمزور پائی گئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ انسانی دماغ کا بڑھاپا ممکنہ طور پر متوقع وقت سے پہلے شروع ہو جاتا ہے”۔

یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا cerebrospinal fluid کی حرکت کی رفتار میں تبدیلی دماغ کو درپیش عارضوں کے ساتھ مربوط ہے جن سے عمومی طور پر عمر رسیدہ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ مثلا الزائمر اور دماغی خلل وغیرہ !

سابقہ طبی تحقیقوں میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ انسان کے 40 سال کی عمر کو پہنچنے پر دماغ کے حجم اور وزن کا ایک دہائی میں تقریبا 5% تک کم ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے۔

پروفیسر انیتا کے مطابق حالیہ طبّی تحقیق سے سامنے آنے والے نتائج کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس طرح مختلف اعصابی امراض کی تشخیص میں بہتری لائی جا سکے گی۔

تبصرے بند ہیں۔