دیکھ رہے ہیں!
سالک ادؔیب بونتی
ہاتھوں پہ دھرے ہاتھ کدِھر دیکھ رہے ہیں
چپ چاپ کھڑے جلتا نگر دیکھ رہے ہیں
۔
منظر لہو لہو ہے مسلماں کی ذات کا
ہم لوگ چائے پیتے خبر دیکھ رہے ہیں
۔
چھائی ہوئی ہے بدلی بلاؤں کی ہر طرف
اور اہلِ نظر صرف نظر دیکھ رہے ہیں
۔
کچھ لو گ ظالموں کی حمایت میں کھڑےہیں
انسان پہ ہم موت کا ڈر دیکھ رہے ہیں
۔
جاتی نہیں ہے اپنی صدا آسمان تک
سب اپنے گناہوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
۔
جذبےہیں سرد منھ پہ ہیں تالے لگے ہوئے
جلتا ہُوا ہم اپنا ہی گھر دیکھ رہے ہیں
۔
حد ہو گئی ادؔیب ستم جھیلتے ہیں سب
کیوں بولتے نہیں ہیں اگر دیکھ رہے ہیں
تبصرے بند ہیں۔