انسانی فطرت اورقرآن (آخری قسط)

ندرت کار

 بارہویں صفت : کاوِش و محنت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلىٰ رَ‌بِّكَ كَدحًا فَمُلـٰقيهِ ٦ ﴾… سورة الانشقاق

"اے انسان! بے شک تو مشقت اٹھائے اپنے ربّ کی طرف جارہا ہے اور اس سے جاملے گا”
نیز اس کا ارشاد ہے:

﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى كَبَدٍ ٤ ﴾… سورة البلد "ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا "

انسان اس دنیا میں مشقتیں برداشت کرتے ہوئے اور روزی کی طلب میں کوشش کرتے ہوئے سفر حیات طے کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ تک رسائی کے لئے اپنا رستہ بناتا ہے کیونکہ اسے محنت و کاوش اور تکان کے بعد اسی کی طرف لوٹنا اور اسی کے پاس ٹھکانہ بنانا ہے
اس دنیا میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے انسان اپنے بدن یا ذہن یا دونوں کو تھکا دیتا ہے۔ اگر اسے مال مل گیا تو اس کی تکان اور بڑھ جاتی ہے اور اگر جاہ و منصب مل گیا تو اس کی فکر اور غم اور بڑھ جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے *

کلما ازداد الفتیٰ علما بها
کلما يدخل في عيش أمر

"جیسے جیسے کسی نوجوان کو اس کا زیادہ علم ہوتا ہے، زیادہ کڑوی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے”
یہ مشقت و تکان کی زندگی ہے جس میں آرام و سکون نہیں، یہ مشقت و تکلیف اور حسرت و آزردگی کی زندگی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے٭

وما السعادة في الدنيا سویٰ أمل
يرجی، فإن صار حقا مله البشر

"دنیا کی سعادت آس و امید کے سوا کچھ نہیں اور اگر پوری ہوجائے تو خوشی اسے آزردہ کردیتی ہے”

لہٰذا انسان طلب ِدنیا میں جو مشقت اٹھاتا ہے اگر وہ اپنے ربّ کی عبادت میں اُٹھاتا رہے تو اللہ اس کے بدلے میں اسے قلبی سعادت اور آخرت کا اجر دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ دنیا کی مشقت اٹھائے تو اس کی فکر اور غم و بدبختی اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَمَن أَعرَ‌ضَ عَن ذِكر‌ى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُ‌هُ يَومَ القِيـٰمَةِ أَعمىٰ ١٢٤ قالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَر‌تَنى أَعمىٰ وَقَد كُنتُ بَصيرً‌ا ١٢٥قالَ كَذ‌ٰلِكَ أَتَتكَ ءايـٰتُنا فَنَسيتَها ۖ وَكَذ‌ٰلِكَ اليَومَ تُنسىٰ ١٢٦ ﴾… سورة طه

” اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑ لیا اس کے لئے تنگ زندگی ہے اورہم اسے قیامت کے روز اندھا بنا کر اٹھائیں گے، وہ کہے گا کہ "میرے ربّ! مجھے اندھا کیوں اٹھایا جبکہ میں بینا تھا” تو اللہ فرمائے گا کہ : "ایسے ہی تمہارے پاس میری آیتیں آئیں تو تم نے انہیں فراموش کردیا اسی طرح تم آج اس دن فراموش کردیئے جاؤ گے”

لوگ محنت و مشقت کے معاملے میں بھی مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ بعض لوگ علم کی جستجو میں محنت کرتے ہیں اور بعض دنیا سمیٹنے میں محنت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ساری کوشش دوسروں کو اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے صرف ہوتی ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جوجنت کی طلب اور ربّ کی رضا کے لئے محنت کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نوع بہ نوع معاصی کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اے انسان! تو راہِ جنت کواختیار کر نہ کہ دوزخ کو۔ باقی محنت و مشقت، رنج و غم تو اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کے لئے، دنیا و آخرت دونوں میں لکھ دیا ہے۔

جبکہ طالبین جنت کو سکون و قرار اور راحت و اطمینان دنیا و آخرت دونوں جگہ ملتا رہے گا کیونکہ جب اسے ثواب و بہترین اجر کا علم ہوا تو اس نے اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے نوع بہ نوع محنت و مشقت کرنا شروع کردی۔ اس محنت و ریاضت میں بھی اسے وہ سکون اور اطمینان ملتا ہے جو دنیا کی ہر آسائش پالینے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔

تیرہویں صفت:سرکشی و ناشکری

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿كَلّا إِنَّ الإِنسـٰنَ لَيَطغىٰ ٦ أَن رَ‌ءاهُ استَغنىٰ ٧ ﴾… سورة العلق

"یقینا انسان سرکشی کرتا ہے، اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے”

نیز اس نے فرمایا: ﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لِرَ‌بِّهِ لَكَنودٌ ٦ ﴾… سورة العاديات

"بیشک انسان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے” (یعنی وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے)

عام طور پر انسان اپنے ربّ کا شکریہ ادا نہیں کرتا اور نہ اس کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہے۔ وہ سرکشی و برائی کرتا اور مالداری کے وقت اِتراتا ہے۔ اپنے رب کی گوناگوں نعمتوں کے باوجود اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور دور ہوجاتا ہے۔بے شک انسان کا ایسا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور ان کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح وہ خود اپنی اس ناشکری کا شاہد ہے :
﴿وَإِنَّهُ عَلىٰ ذ‌ٰلِكَ لَشَهيدٌ ٧ ﴾… سورة العاديات "بے شک وہ اس پر گواہ ہے”

اور اس کا معاملہ اسی وقت درست ہوتا ہے جب وہ زمین کی زندگیسے آسمان کی زندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف بلند ہوتا ہے اور دنیا کی حقیر فکروں کو چھوڑ کر اس سے بڑی اور کشادہ چیز کو اہمیت دیتا ہے۔ شاعر نے کہا *

علی قدر أهل العزم تأتي العزائم
وتأتي علی قدر الکرام المکارم
وتکبر في عين الصغير صغارها
وتصغر في عين العظيم العظائم

"اہل ہمت کے لحاظ سے ہمتیں ہوتی ہیں، اور شرفاء کے لحاظ سے شرافتیں ہوتی ہیں۔ چھوٹے کی نگاہ میں چھوٹی چیزیں بڑی ہوتی ہیں اور بڑوں کی نگاہ میں بڑی چیزیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں "

چودہویں صفت: غفلت و لاپروائی

اللہ تعالیٰ اور اس کے ذکر سے غفلت انسان کی عام صفت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿اقتَرَ‌بَ لِلنّاسِ حِسابُهُم وَهُم فى غَفلَةٍ مُعرِ‌ضونَ ١ ﴾… سورة الأنبياء

"لوگوں کا حساب نزدیک آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیر رہے ہیں ”
اور اس کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذا أَنعَمنا عَلَى الإِنسـٰنِ أَعرَ‌ضَ وَنَـٔا بِجانِبِهِ…٨٣ ﴾… سورة الاسراء

"اور جب ہم انسان پرانعام کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا اور پہلو تہی کرلیتا ہے” … اور فرمایا:

﴿وَإِنَّ كَثيرً‌ا مِنَ النّاسِ عَن ءايـٰتِنا لَغـٰفِلونَ ٩٢ ﴾… سورة يونس

"اور بے شک بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں "

بے شک بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں اوران پر توجہ نہیں دیتے۔ نہ اسے یاد کرتے، نہ اس کی آیات پر غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مزے لوٹتے ہیں اور باقی سب کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ اس کی جنت و جہنم اورحساب و عذاب کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں لیکن اس کی نافرمانی کرتے اور اس کے ذکر و اطاعت سے اعراض کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کی عمر سی غفلت میں گزر جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَأَنذِر‌هُم يَومَ الحَسرَ‌ةِ إِذ قُضِىَ الأَمرُ‌ وَهُم فى غَفلَةٍ وَهُم لا يُؤمِنونَ ٣٩ ﴾… سورة مريم

"اور انہیں حسرت کے دن سے ڈراؤ جب معاملے کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں "

وہ کتنابیوقوف اور حقیر ہے جس کی یہ صفت ہو۔ کیا وہ ان ہولناکیوں کو یاد نہیں کرتا جن کا اسے سامنا کرنا ہے؟ کیا وہ اپنے متعلق ڈرتا نہیں کہ اسے عذاب آنے سے پہلے نیک اعمال کرلینے چاہئیں، اس لئے کہ عمر بہت جلد گزر جائے گی اور موت اچانک آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿أَن تَقولَ نَفسٌ يـٰحَسرَ‌تىٰ عَلىٰ ما فَرَّ‌طتُ فى جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السّـٰخِر‌ينَ ٥٦ ﴾… سورة الزمر "ایسا نہ ہو کہ کوئی نفس کہے: ہائے

افسوس، میں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی کی اور میں مذاق اڑاتا رہ گیا”

پندرہویں صفت: گھاٹا و خسارہ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَالعَصرِ‌ ١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾… سورة العصر

"زمانے کے قسم! یقینا انسان گھاٹے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور آپس میں سچائی کی تلقین کی اور صبر کی تلقین کی”

بے شک اس زندگی میں ایک راستے کے سوا کوئی سیدھا راستہ نہیں ہے۔ اس کے سوا گمراہی اور خسارہ ہی خسارہ ہے لہٰذا اس سورة میں انسان کے تمام مفید اَوصاف یکجا کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے امام شافعی  کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کے لئے صرف یہی سورة اُتارتاتو کافی ہوتی۔

یقینا انسان کا اصل اور عام گھاٹا، گمراہی اور ہلاکت ہے لیکن جس میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہ اس خسارے سے محفوظ رہتا ہے: (۱) ایمان (۲) نیک اعمال (۳) سچائی کی تلقین (۴) صبر کی تلقین

کیونکہ ایمان زبان سے اقرار کرنے، اعضاء سے عمل کرنے اور دل سے عقیدہ رکھنے کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ علماءِ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے۔ اور ایمان وہ اصل ہے جس سے خیر کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿ضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَ‌ةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُها ثابِتٌ وَفَر‌عُها فِى السَّماءِ ٢٤تُؤتى أُكُلَها كُلَّ حينٍ بِإِذنِ رَ‌بِّها ۗ وَيَضرِ‌بُ اللَّهُ الأَمثالَ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّر‌ونَ ٢٥ ﴾… سورة ابراهيم

” اللہ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی ہے، جس کی جڑ ثابت و پائیدار ہے اور شاخ آسمان میں ہے جو اپنا پھل اللہ کے حکم سے ہر وقت دیتاہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں "

اور کفر ایک ایسی بنیا دہے جس سے ہر برائی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَمَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَكَأَنَّما خَرَّ‌ مِنَ السَّماءِ فَتَخطَفُهُ الطَّيرُ‌ أَو تَهوى بِهِ الرّ‌يحُ فى مَكانٍ سَحيقٍ ٣١ ﴾… سورة الحج

"اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر گیا اور اسے پرندے اچک رہے ہیں یا ہوا اسے دور دراز جگہ میں ڈال رہی ہو”
اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:

﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَ‌ةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَر‌ضِ ما لَها مِن قَر‌ارٍ‌ ٢٦ ﴾… سورة ابراهيم

"اوربرے کلمے کی مثال خبیث درخت کی ہے جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو اور اسے کوئی قرار و ثبات نہ ہو”
انسان کا ایمان جب تک نیک عمل سے وابستہ نہ ہو یہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اس پربس نہیں، بلکہ جوبات دل میں ہو، عمل اس کی تصدیق کرے اور وہ صبر کے ساتھ اس کی دعوت بھی دیتا ہو۔ معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا ضروری ہے کیونکہ یہی محمدﷺ کے پیروکاروں کا طریقہ ہے:

﴿قُل هـٰذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ ۚ عَلىٰ بَصيرَ‌ةٍ أَنا۠ وَمَنِ اتَّبَعَنى…١٠٨ ﴾… سورة يوسف

"آپ فرما دیں کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پیروکار بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ”
اور دعوت الی اللہ اور سچائی کی تلقین کئے بغیر نہ فرد کی کامیابی ہے اور نہ جماعت کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ…١١٠ ﴾… سورة آل عمران

"تم بہترین امت ہو، لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو، نیکی کا حکم دیتے ہو اوربرائی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”
جب کوئی شخص نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس کا ٹکراؤ لازماً ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہوتے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اسی لئے جو لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے ہیں، ان کے لئے صبر کرنا اور اپنے ساتھیوں کو اس کی تلقین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :

﴿يـٰبُنَىَّ أَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ وَأمُر‌ بِالمَعر‌وفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَاصبِر‌ عَلىٰ ما أَصابَكَ ۖ إِنَّ ذ‌ٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ‌ ١٧ ﴾… سورة لقمان

"اے میرے بیٹے! صلات قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف پہنچے، اس پر صبر کرو بے شک یہ عزیمت اور حوصلے کی بات ہے”

تبصرے بند ہیں۔