انسان اور زمین کی حکومت (قسط ہفتم)

رستم علی خان

نوح علیہ السلام جب مشرکوں کو وعظ فرماتے تو وہ لوگ اپنے آپ کو کپڑوں میں لپیٹ لیتے۔ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے مگر آپ اللہ کی توحید سنانے سے باز نہ آئے حتی کہ مشرک انگلیوں پر کپڑے لپیٹ کر کانوں میں ٹھونس لیتے۔ نوح علیہ السلام صدیوں تک لوگوں کو سمجھایا ۔ مشرک آپ کی تکذیب کرتے رہے۔

وہ لوگ حیرت سے کہتے کہ اے نوح تو رسول کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھی ہمہی میں سے ایک ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے متبعین سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان کی توہین کرتے انہیں اپنے سے کمتر سمجھتے- ایک روایت کے مطابق یہ افراد (حضرت نوح کے متبعین) کمزور لوگ تھے (کم تعداد کی وجہ سے یا چھوٹے اور کمزور قبیلوں سے تھے) اور انہیں تکلیفیں پنہچانے قتل کر دینے یا جلا وطن کر دینے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔

انہوں نے حضرت نوح کی دعوت کے تین جواب دیئے- قوم نوح(ع) کے سردار اور سرمایہ دار کافر تھے انہوں نے کہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جیسا انسان دیکھتے ہیں- حالانکہ اللہ کی رسالت اور پیغام تو فرشتوں کو اپنے کندھوں پر لینا چاہیئے نہ کہ ہم جیسے انسانوں کو ،اس گمان کے ساتھ کہ انسان کا مقام فرشتوں سے نیچے ہے یا انسان کی ضرورت کو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے۔!
امام زادوں کو زائرین کی تعداد سے پہچاناجاتا ہے- ان کی دوسری دلیل یہ تھی کہ: انہوں نے کہا: اے نوح(ع): ہم تیرے گردو پیش اور ان کے درمیان کہ جنہوں نے تیری پیروی کی ہے سوائے چند پست، ناآگاہ اور بے خبرتھوڑے سن و سال (کم عمر و عقل) کے نوجوانوں کے کہ جنہوں نے مسائل کی دیکھ بھال نہیں کی کسی کو نہیں دیکھتے-

کسی رہبر اور پیشوا کی حیثیت اور اس کی قدر ورقیمت اس کے پیروکاروں سے پہچانی جاتی ہے اور اصطلاح کے مطابق صاحب مزار کو اس کے زائرین سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں چند ایک بے بضاعت، گمنام، فقیر اور غریب لوگ ہی نظر آتے ہیں جن کا سلسلہٴ روز گار بھی نہایت ہی معمولی یے تو پھر ایسی صورت میں تم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ مشہور و معروف دولت مند اور نامی گرامی لوگ تمہارے سامنے سر تسلیم خم کرلیں گے- ہم اور یہ لوگ کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہم نہ تو کبھی ایک دستر خوان پر بیٹھے ہیں اور نہ ہی ایک چھت کے نیچے اکھٹے ہوئے ہیں تمہیں ہم سے کیسی غیر معقول توقع ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنی اس بات میں سچے تھے کہ کسی پیشوا کو اس کے پیروکاروں سے پہچانا جاتا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے شخصیت کے مفہوم اور معیار کو اچھی طرح نہیں پہچانا تھا- ان کے نزدیک شخصیت کا معیار مال و دولت، لباس اور گھر اور خوبصورت اور قیمتی سواری تھا- لیکن طہارت، تقویٰ، حق جوئی جیسے اعلیٰ انسانی صفات سے غافل تھے جو غریبوں میں زیادہ اور امیروں میں کم پائی جاتی ہیں۔

طبقاتی اونچ نیچ بدترین صورت میں ان کی افکار پر حکم فرما تھی۔ اسی لئے وہ غریب لوگوں کو”اراذل“، (ذلیل) سمجھتے تھے۔
اور اگر وہ طبقاتی معاشرے کے قید خانے سے باہر نکل کر سوچتے اور باہر کی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ایسے لوگوں کا ایمان اس پیغمبر کی حقانیت اور اس کی دعوت کی سچائی پر بذات خود ایک دلیل ہے۔

اور یہ جو انھیں ”بادی الراٴی“ (ظاہر بین بے مطالعہ اور وہ شخص جو پہلی نظر میں کسی چیز کا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے) کا نام دیا ہے حقیقت میں اس بناء پر ہے کہ وہ ہٹ دھرمی اور غیر مناسب تعصبات جو دوسروں میں تھے وہ نہیں رکھتے تھے بلکہ زیادہ تر پاک دل نوجوان تھے جوحقیقت کی پہلی کرن کو جو ان کے دل پر پڑتی تھی جلدی محسوس کرلیتے تھے وہ اس بیداری کے ساتھ جو کہ حق کی تلاش سے حاصل ہوتی ہے ،صداقت کی نشانیاں،انبیاء کے اقوال وافعال کا ادراک کرلیتے تھے-

ان کاتیسرا اعتراض یہ تھا کہ قطع نظر اس سے کہ تو انسان ہے نہ کہ فرشتہ ، علاوہ ازیں تجھ پر ایمان لانے والے نشاندہی کرتے ہیں کہ تیری دعوت کے مشتملات صحیح نہیں ہیں ”اصولی طور پر تم ہم پر کسی قسم کی برتری نہیں رکھتے کہ جس کی بناء پر ہم تمہاری پیروی کریں- ”لہٰذا ہم گمان کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو“۔

یہ وہ اعتراضات تھے جو قوم نوح نے حضرت نوح علیہ السلام پر کئیے- اور کوئی شک نہیں ایسے اور اسی سے ملتے جلتے اعتراضات قریش مکہ نے بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ السلام پر کئیے جو آگے ذکر ہوں گے ان شآء اللہ- حضرت نوح علیہ السلام نے ان اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے فرمایا-

اے قوم :” میں اپنے پرورد گار کی طرف سے واضح دلیل اور معجزہ کا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپیغام کی انجام دہی کی وجہ سے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور یہ امر اگر عدم توجہ کی وجہ سے تم سے مخفی ہو تو کیا پھر بھی تم میری رسالت کا انکار کرسکتے ہو اور میری پیروی سے دست بردار ہو سکتے ہو-

یہ جواب قوم نوح(ع) کے مستکبرین کے تین سوالوں میں سے کس کے ساتھ مربوط ھے؟ مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے لیکن غور و خوض سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جامع جواب تینوں اعتراضات کا جواب بن سکتا ہے کیونکہ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ تم انسان ہو آپ نے فرمایا یہ بجا ہے کہ میں تمہاری طرح کا ہی انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت میرے شامل حال ہوئی ہے اور اس نے مجھے کھلی اور واضح نشانیاں دی ہیں اس بناء پر میری انسانیت اس عظیم رسالت سے مانع نہیں ہو سکتی اور یہ ضروری نہیں کہ میں فرشتہ ہوتا ۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تمہارے پیروکار بے فکر اور ظاہر بین افراد ہیں ۔آپ نے فرمایا تم بے فکر اور بے سمجھ ہو جو اس واضح حقیقت کا انکار کرتے ہوحالانکہ میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو ہر حقیقت کے متلاشی انسان کے لئے کافی ہیں اور اسے قائل کرسکتے ہیں مگر تم جیسے افراد جو غرور ،خود خواہی،تکبر اور جاہ طلبی کا پردہ اوڑھے ہوئے ہیں ان کی حقیقت بین آنکھ بیکار ہو چکی ہے ۔

ان کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے، ہم کوئی برتری اور فضیلت تمہارے لئے اپنی نسبت نہیں پاتے، آپ نے فرمایا: اس سے بالاتر کون سی برتری ہو گی کہ خدا نے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور واضح مدارک ودلائل میرے اختیار میں دیئے ہیں اس بناء پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ تم مجھے جھوٹا خیال کرو کیونکہ میری گفتگو کی نشانیاں ظاہر ہیں ۔
”کیا میں تمہیں اس ظاہر بظاہر بینہ کے قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم خود اس پر آمادہ نہیں ہو اور اسے قبول کرنا بلکہ اس کے بارے میں غوروفکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہو

اندھے پن کی ھر قسم ھی بری ھوتی ھے لیکن ان سب میں بد ترییین قسم دل کے اندھے پن کی ھوتی ھے اور یہ تعصب سے پیدا ھوتی ھے ۔ جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی.(سورۃ التوبۃ)آیت نمبر 35

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے علاوہ ان کے اہل میں سے ایک بیٹا جس کا نام کنعان تھا گمراہوں میں سے تھا اور وہ بھی اپنے باپ کے پیغام ہدایت کا انکاری تھا- اس کا ذکر بھی آگے آئے گا ان شآء اللہ اور علاوہ اس کے آپ کی ایک اہلیہ بھی نافرمانوں میں سے تھی-

قرآن مجید دو بےتقویٰ عورتوں کی سرنوشت جو دو بزرگ پیغمبروں کے گھر میں تھیں، اور دو مومن و ایثارگر خواتین کی سرنوشت بیان کرتا ہے جن میں سے ایک تاریخ کے جابرترین شخص کے گھر میں تھی ۔

پہلے فرماتا ہے ”خدا نے کافروں کے لئے ایک مثال بیان کی ہے نوح کی بیوی کی مثال اور لوط کی بیوی کی مثال“ وہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کے ماتحت تھیں لیکن انہوں نے ان سے خیانت کی لیکن ان دو عظیم پیغمبروں سے ان کے ارتباط نے عذاب الٰہی کے مقابلہ میں انھیں کوئی نفع نہیں دیا “۔

حضرت نوح کی بیوی کا نام ”والھہ“ اور حضرت لوط کی بیوی کا نام ”والعة“تھا اور بعض نے اس کے برعکس لکھا ہے یعنی نوح کی بیوی کا نام ”والعة“ اورلوط کی بیوی کا نام ”والھہ“ یا ”واھلہ“ کہا ہے۔

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظیم پیغمبروں کے ساتھ خیانت کی ،البتہ ان کی خیانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگز نہیں تھا کیونکہ کسی پیغمبر کی بیوی ہرگز بےعفتی سے آلودہ نہیں ہوتی جیسا کہ پیغمبر اسلام سے ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے : ”کسی بھی پیغمبر کی بیوی ہرگز منافی عفت عمل سے آلودہ نہیں ہوئی“۔ حضرت لوط کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ وہ اس پیغمبر کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کرتی تھی اور ان کے گھر کے راز انہیں بتاتی تھی اور حضرت نوح کی بیوی بھی ایسی ہی تھی ۔

قرآن آخر میں کہتا ہے: ”اور ان سے کہا گیا کہ تم بھی آگ میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ آگ میں داخل ہوجاؤ-

قوم نوح کے بارے میں متعدد روایات میں اور قرآن میں بھی ہے کہ جب حضرت نوح انہیں تبلیغ کرتے تو وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور انگلیوں پر کپڑا لپیٹ کر کان بند کر لیتے کہ آواز نہ آئے اور پیغمبر کی طرف سے منہ پھیر لیتے کہ ان کے چہرے پر نظر نہ پڑے-

اور روایات میں ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بھی کہتے کہ تم اپنے خداوں کو ہرگز نہ چھوڑنا-اور نہ ہی "ود”، "سواع”، "یعوق”، "یغوث” اور "نسر” (نامی) خداوں ہی کو چھوڑنا (اور یہی عرب کے بت پرستوں کا طریق تھا کہ جب نبی کریم صلی علیہ وسلم انہیں کلمے کی دعوت دیتے تو اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتے اور کہتے کہ ہر گز نہ چھوڑنا اپنے آباو اجداد کے مذہب کو اور نہ اپنے خداوں کو اور نہ چھوڑنا لات و منات، عزی اور غل نامی بڑے خداوں کو) بعض اسلامی تفاسیر میں آیا ہے کہ اس منحرف قوم میں سے بعض لوگ اپنے بیٹوں کے ہاتھ پکڑ کر نوح علیہ السلام کے پاس لے جایا کرتے تھے اور ان سے یہ کہتے تھے: اس شخص سے ڈرتے رہنا کہیں یہ تمہیں گمراہ کردے ، یہ وہ وصیّت ہے جو میرے باپ نے مجھے کی تھی اور میں اب وہی وصیّت تمہیں کر رہا ہوں( تاکہ میں وصیّت اورخیرخواہی کاحق ادا کردوں)

اب ان لوگوں کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ لوگ باقاعدہ عذاب مانگنے لگے- اور یوں گویا ہوئے کہ؛ ”اے نوح :تم نے یہ سب بحث وتکرار اور مجادلہ کیا ہے اب بس کرو ،تم نے ہم سے بہت باتیں کی ہیں اب بحث مباحثے کی گنجائش نہیں رہی،”اگر سچے ہو تو خدائی عذابوں کے بارے میں جو سخت وعدے تم نے ہم سے کئے ہیں انہیں پورا کر دکھاؤ اور وہ عذاب لے آؤ‘۔

یہ بعینہ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص یا کچھ اشخاص کسی مسئلے کہ بارے میں ہم سے بات کریں اور ضمناََ ہمیں دھمکیاں بھی دیں اور کہیں کہ اب زیادہ باتی ںبند کرو اور جو کچھ تم کرسکتے ہو کرلو اور دیر نہ کرو ،اس طرف اشارہ کرتے هوئے کہ ہم نہ تو تمہارے دلائل کو کچھ سمجھتے ہیں نہ تمہاری دھمیکوں سے ڈرتے ہیں اور نہ اس سے زیادہ ہم تمہاری بات سن سکتے ہیں- (یعنی مکمل بیزاری کا مظاہرہ) انبیاء الٰہی کے لطف و محبت اور ان کی وہ گفتگو جو صاف و شفاف اور خوشگوار پانی کی طرح ہوتی ہے اس طرز عمل کا انتخاب انتہائی ہٹ دھرمی تعصب اور جہالت کی ترجمانی کرتا ہے۔

قوم نوح علیہ السلام کی اس گفتگو سے ضمناً یہ بھی اچھی طرح سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے ان کی ہدایت کے لئے بہت طویل مدت تک کوشش کی اور انہیں ارشاد وہدایت کے لئے آپ نے ہرموقع سے استفادہ کیا، آپ نے اس قدر کوشش کی کہ اس گمراہ قوم نے آپ کی گفتار اور ارشادات پر اکتاہٹ کا اظہار کیا۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اس بے اعتنائی، ہٹ دھرمی اور بےہودگی کا یہ مختصر جواب دیا : خدا ہی چاہے تو ان دھمکیوں اور عذاب کے وعدوں کو پورا کرسکتا ہے- لیکن بہرحال یہ چیز میرے اختیار سے باہر ہے اور میرے قبضہ قدرت میں نہیں ہے میں تو اس کا رسول ہوں اور اس کے حکم کے سامنے تسلیم ہوں، لہٰذا سزا اور عذاب کی خواہش مجھ سے نہ کرو، لیکن یہ جان لو کہ جب عذاب کا حکم آپہنچے گا تو پھر تم اس کے احاطہ قدرت سے نکل نہیں سکتے اور کسی پناہ گاہ کی طرف فرار نہیں کر سکتے۔

تبصرے بند ہیں۔