انسان اور زمین کی حکومت (قسط 23)

رستم علی خان

کعبتہ اللہ کی تعمیر اور ادائیگی حج کے بعد حضرت ابراہیم واپس تشریف لے گئے کہ ان کے لئیے اللہ کا یہی حکم تھا اور کعبہ کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا-جب حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے بعد دیکھا کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین بنجر ہے تب اللہ سے دعا کی تو حضرت جبرائیل نے وہاں ی زمین کا ایک ٹکڑا دریائے نیل کی زمین سے بدلا اور فرشتوں نے اس کے گرد سات چکر لگائے اور طواف مکمل کیا اور بستی کا نام طائف ہوا-  تب اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہاں طائف میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور ہر نعمت عطا کروں گا- بعد اس کے آپ واپس تشریف لے آئے اور وہیں اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گئے- اور اللہ نے آپ کو اسحاق علیہ السلام کے بعد مزید اولاد سے بھی نوازا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار بیٹے تھے (بعض روایات میں زیادہ کا ذکر بھی ملتا ہے) حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت بی بی حاجرہ کے بطن سے اور حضرت اسحق اور مدین و مدائن حضرت سارہ کے بطن سے تھے- اور حضرت اسماعیل کے ایک بیٹے تھے اور تو توریت میں لکھا ہے کہ بارہ بیٹے تھے اور وہ تمام سردار تھے- اور تمام عرب ان کے مطیع تھا-

حضرت اسحق کے دو بیٹے تھے عیص اور یعقوب علیہم السلام- اور مدین کے ایک بیٹے کا نام شعیب علیہ السلام تھا اور ان مدین کے بیٹے عجم کے سردار تھے- جب حضرت ابراہیم کی عمر مبارک ایک سوبیس برس ہوئی تو موت آئی- چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موت سے ڈر لگتا تھا اس لئیے اللہ تعالی نے ان کے پاس ایک مہمان بھیجا جو ضعیف العمر تھا- حضرت ابراہیم نے اس کے سامنے کھانا لا کر رکھا تو مارے ضعف کے کھانا نہ کھا سکا- آپ نے اس سے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے- اس نے کہا ایک سو تیس برس- تب آپ افسوس کرنے لگے کہ شائد مجھے بھی اس عمر میں یہی حال گزرے- ابھی تو میری عمر اس سے کم ہے- تب کہا الہی میں اس سے زیادہ اپنی عمر نہیں مانگتا-

بعد اس کے اپنے بیٹوں کو بلایا اور وصیت کی- کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ بنانا اور مسلمانی پر ہی مرنا- اور فکر معاش یا رزق کی بھاگ دوڑ میں اللہ کو نہ چھوڑنا اور کل کی فکر میں نہ لگ جانا- اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا- اور دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا- اور بعد اس کے انتقال فرمایا- تورات کے مطابق آپ کی عمر ایک سو پچھتر برس تھی- جبکہ حضرت سارہ نے آپ کی زندگی میں ہی ایک سو ستائیس برس کی عمر میں کنعان کے علاقے حیرون کے مقام پر وفات پائی- حضرت ابراہیم آپ کی وفات سے بہت دکھی ہوئے اور انتہائی دکھ اور رنج کا اظہار کیا- اور وہیں بنی حیث کے ایک شخص عفرون بن صخر سے چار سو مشقال کے عوض ایک غار خریدا اور حضرت سارہ کو وہیں دفن کیا- اور بعد ان کے حضرت ابراہیم بیمار ہوئے اور ایک سو پچھتر سال کی عمر میں وفات پائی اور عفرون حیثی کے کھیت میں اپنی زوجہ محترمہ کے قریب مذکورہ بالا غار میں دفن ہوئے آپ کے مدفن کا انتظام حضرت اسماعیل و اسحاق علیہم السلام نے کیا-

آپ کی تدفین کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسحاق علیہ السلام سے کہا کہ مجھے بھی باپ کے ترکے میں سے کچھ حصہ دو تاکہ نشانی اور تبرک باپ ابراہیم علیہ السلام کی میرے پاس رہے-تب حضرت اسحاق نے کہا کہ تم ہمارے برابر نہیں ہو (کہ حضرت اسماعیل کی والدہ بی بی حاجرہ حضرت سارہ کی باندی کی حیثیت سے فرعون مصر نے دیں تھیں ) محروم المیراث ہو تمہیں باپ کا کچھ حصہ نہیں ملے گا- اس بات سے حضرت اسماعیل تھوڑے رنجیدہ ہوئے تبھی حضرت جبرائیل علیہ السلام بحکم ربی آئے اور حضرت اسحاق سے کہا یوں نہ کہو کہ اسماعیل کی اولاد میں سے اللہ تعالی اپنا محبوب رسول پیدا کرے گا جس کا دین پوری زمین پر حاوی ہو گا اور وہ آخری نبی ہو گا اور تاقیامت انہیں کا دین برحق رہے گا- اور تمہاری قوم فاسق اور گمراہ ہو گی اور ان میں زیادہ لوگ سرکش ہوں گے- اور حاوی ہونگے ان پر آخری امت کے لوگ-

تب حضرت اسحاق بہت روئے کہ آپ کی بینائی جاتی رہی تب جبرائیل دوبارہ آئے اور فرمایا کہ مبارک ہو آپ کی نسل سے انبیاء مبعوث ہونگے اور ان میں ایک موسی علیہ السلام بھی ہوں گے جو اللہ سے کلام کریں اور کلیم اللہ ہونگے- اور مزید فرمایا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ اگر آپ چاہیں تو یہیں آپ کو بینائی لوٹا دی جائے نہیں تو روز حشر حق تعالی آپ کی بینائی واپس لوٹائیں گے اور ہمیشہ دیدار الہی سے فیضیاب ہوتے رہیں گے- تب آپ نے فرمایا کہ میں اپنی آنکھوں کی بینائی حشر پر چھوڑتا ہوں کہ اللہ ہی سے لوں۔

حضرت ابراہیم کی حیات مبارکہ میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب الہی کا بھی ہے- حضرت لوط علیہ السلام ہاران کے بیٹے تھے اور ہاران تارخ (آزر) کے بیٹے تھے یعنی آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم پر ایمان لانے والوں میں سے تھے-

جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ بابل سے آپ نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ہی ہجرت کی اور وہاں سے مصر پنہچے اور جب مصر سے ہجرت فرمائی تب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ اور ان کی باندی (اس وقت) حضرت حاجرہ اور اپنے مال و اسباب سمیت شہر مقدس کی طرف ہجرت کر گئے جبکہ حضرت لوط کو آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق غور زغر کی طرف بھیجا جہاں آپ سد روم کے علاقے میں رہائش پزیر ہوئے- یہ اس علاقے کا مرکزی مقام تھا جس کے ساتھ کافی زراعی اراضی اور دیہات وغیرہ منسلک تھے-
اس علاقے کے لوگ انتہائی فاسق و فاجر، شدید ترین کافر، انتہائی بد فطرت اور بےحد بدکردار تھے- وہ راہزنی کے عادی تھے اور سر عام جرم کرتے تھے- اور ہر برے کام میں ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکتے تھے نہ کہ ایک دوسرے کو منع کرتے- یعنی ان کے اعمال انتہائی حد تک برے تھے-

روایات میں ہے کہ دنیا میں ان سے زیادہ بےحیا قوم ان سے پہلے نہ آئی تھی- انہوں نے بےحیائی کا ایک نیا کام شروع کر رکھا تھا- یعنی انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات اپنے ہی ہم جنسوں (مردوں ) سے پوری کرنی شروع کر دیں تھیں – اور اپنی جائز خواہشات کو عورتوں سے پوری کرنے سے اجتناب کرنے لگے- حالانکہ اللہ تعالی نے مرد کے لئیے اس کا جوڑا عورت کو بنایا ہے- لیکن وہ بدبخت اللہ کی قائم کردہ حدود سے روگردانی کرنے لگے- اور علاوہ اس کے وہ مسافروں کو بھی نہ چھوڑتے انہیں لوٹ لیتے اور ان کے ساتھ بدکرداری کا مظاہرہ کرنے سے بھی باز نہ آتے-

شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر جابجا کے لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگ مہمانوں کی آمد سے تنگ رہتے تھے تبھی شیطان ملعون نے انہیں یہ راہ سجھائی کہ تم مہمانوں کو لوٹنا شروع کر دو اور بدعملی کرو تب وہ آنا چھوڑ دیں گے اور خود بھی صورت ایک خوبرو مہمان کی آیا اور انہیں برے کام پر لگایا- جب قوم کی سرکشی حد سے بڑھ گئی اور مہمانوں نے وہاں آنا چھوڑ دیا تو وہ برائی ان کے اپنے اندر پھیلنے لگی- تب حضرت لوط علیہ السلام نے قوم کو سمجھانے کا بیڑا اٹھایا اور انہیں ان کے برے اعمال سے روکنا چاہا- آپ نے فرمایا کہ اے قوم یہ تم کس قدر غلاظت اور برائی و بےحیائی کے راستے پر جا رہے ہو کہ اول تو تم مہمانوں کیساتھ ظلم کرتے ہو اور لوٹ مار اور زیادتی کرتے ہو- مہمان اللہ کی رحمت ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے ہیں اور تم اللہ کی رحمتوں کو ستا رہے ہو اور دوسرا تمہارے اندر ایسی بےحیائی ہے جو تم سے پہلے کسی قوم میں نہ تھی- تو اللہ سے ڈر جاو اور یہ ظلم اور بےحیائی کے راستے کو چھوڑ دو- اللہ نے تمہارے لئیے عورت کو تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے تو ان سے سکھ حاصل کرو مگر خبردار وہاں بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کو مدنظر رکھنا (یعنی نکاح اور حلال طریقے سے عورت کے پاس جانا اور زنا سے بچنا) "اے میری قوم تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے-

تب قوم کے لوگوں نے بجائے آپ کی بات پر غور کرنے کے یا بےحیائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی اور سچائی کے راستے پر چلنے کی نہایت بیباکی سے جواب دیتے ہوئے کہا- اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔