قصّہ گو

ربانی بشیر

(ریسرچ اسکالر سینٹرل یونی ورسرسٹی آف کشمیر)

 تارے کی دُم کو دیکھ کر قصّہ گو نے آسمان کی فصیلوں کی اور نگاہ دوڑائی ۔تاروں کی ڈگمگ سے آسماں رات کے شامیانے کی مانند سج رہا تھا۔دور دور تک ستاروں نے الگ الگ قسم کی ٹولیا ں بنائی ہوئیں تھیں اور ہرٹولی اپنی صدیوں کی تاریخ لئے ہوئے تاریک فضا میں بے نشاں ہونے کے لئے پیر رہے تھے۔ سرد اور موہوم ہوائیں قصّہ گو کے کانوں میں کچھ پیغام لے کرآتی تھیں جس کی وجہ سے قصّہ گو سنجیدگی کاایک ایک زینہ عبور اور عزم ِسفر باندھے ہوئے لوٹنے کے نشاں کو معدوم کر کے آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔فکر کی اس غوطہ زنی میں روشنی کے نیزے قصّہ گو کی آنکھوں میں طرح طرح کے انسانی سانچے بنا دیتی تھی ۔ایک تارے پہ اسے ہاتھوں کا چمکتا ہوا نقش بلندی کی طرف باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیا اور اس کے پیچھے انسانوں کی ایک بڑی فوج لئے ہوئے کوئی شخص دوڑتا دکھائی دیا جس کے سر پر ایک شکستہ تاج بھی تھا۔قصّہ گو کی نگاہیں اس تارے کا تعاقب ہی کر رہی تھیں کہ تارا سمندر میں گر کر معدوم ہو گیا ۔قصّہ گو یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا …!

  اب اس منظر کو قصّہ گو دیکھ ہی رہا تھا کہ تاروں بھرے اس سماں میں قصّہ گو کی آنکھوں میں اور ایک نقش بن گیا جو دھیرے دھیرے آسماں کے زینے اتر رہا تھا ۔جب وہ قصّہ گو کے قریب آ پہنچا تو تارے پہ سوار شخص کی آوازیں ہواؤں کے دوش پر قصّہ گو کے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔وہ شخص پکار رہا تھا ….’’ انا ربکم الاعلیٰ‘‘….مگرتارا جتنا قریب آرہاتھا اتنا ہی اپنا وجود کھو دیتا تھا ….آخر کار تارے کے وجود کے ساتھ یہ شخص بھی زمین پر آتے آتے ختم ہو گیا۔

  ہوائیں تیز ہونے لگیں …پریشان مو قصّہ گو کی آنکھو میں مخل ہو رہی تھیں مگر قصّہ گوخیالوں کے زینے کو سرعت سے عبور کر رہا تھا… تاروں کی ایک ٹولی دیکھ کر قصّہ گو کی ملاقات اپنے وجود سے ہو گئی۔وجود نے قصّہ گو کی اور ہلکی سی مسکراہٹ بھری اور سر سے اشارہ کیا۔قصّہ گو سہما ہوااس کے بغل میں بیٹھ گیا اور اپنے وجود کی پیشانی کو تک رہا تھا۔قصّہ گو کا وجود تاروں کو زندگی کے رزمیہ اور بقا کی کہانیا ں سنا رہا تھا ۔قصّہ گو یہ کہانیاں سن کر حوصلہ بھرنے لگا ….قصّہ گو کے وجود نے جب اپنی آخری کہانی ختم کی تو آسماں کی تاریکی میں ہلکی سی پو پھٹنے لگی ….جتنی جتنی یہ پو تیز ہو رہی تھی قصّہ گو کا وجود تاروں کے ساتھ معدوم ہوتا چلا جا رہا تھا …..قصّہ گو جونہی خیالوں کے زینے سے اتر گیاتھا تو اس کی نظر تارے کی دم پر پڑی جو نصف سے زیادہ کٹ چکی تھی ….تھوڑی ہی دیر میں صبح کے سورج نے آخری تارے کو بھی نابود کیا ….قصّہ گو اپنی آنکھوں کو ملتا ہوا سرد آہیں بھر نے لگا …اور چائے کی ایک لمبی سپ لے لی…..ڈائری کا ورق پلٹا تو وہاں رنگین لفظوں میں یہ الفاظ نقش تھے …….

 آنی  و  فانی  تمام   معجزہ   ہائے    ہنر

کار جہاں بے ثبات ،کار جہاں بے ثبات!

   اوّل  و  آخر  فنا ،  باطن  و  ظاہر  فنا

  نقش  کہن  ہو  کہ  نو،  منز  آخر  فنا

1 تبصرہ
  1. جاوید احمد کہتے ہیں

    قصہ گو یہاں پر ایک علامت ہے۔ افسانہ نگار نے علامتوں کا سہارا لے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ نئے زمانے کے ساتھ انسان کیسے گھل مل کر روایتوں سے تج کر گیا۔ سورج، پو ،روشنی نئے دور کی علامتیں ہیں۔ علاوہ ازیں افسانہ نگار نے تاریخ کا سہارا لے کر فرعون، نمرود اور مغل سلطنتوں کے زوال کی نشاندہی کی۔

تبصرے بند ہیں۔