انسان اور زمین کی حکومت (قسط 27)

رستم علی خان

روایات میں ذکر ہے کہ ایک بار حضرت جبرائیل سے پوچھا گیا کہ کبھی ایسا موقع بھی آیا کہ آپ کو زمین پر بہت جلدی میں آنا پڑا ہو- حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ تین بار ایسا ہوا پہلی بار جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنوئیں میں پھینکا تب بحکم ربی میں ان کو کنوئیں میں موجود پتھر پر بٹھانے آیا تھا دوسری بار جب حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا جانے لگا تب انہیں آسمانوں پر اٹھانے کو اور تیسری بار جب حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تب اللہ نے حکم دیا کہ میرے محبوب کا خون زمین پر گرنے نہ پائے ورنہ تاقیامت زمین پر کچھ پیدا نہ ہو گا- واللہ اعلم الصواب

چنانچہ جب بھائیوں نے حضرت یوسف کو کنوئیں میں ڈالا تو آپ اس میں موجود پتھر پر بیٹھ گئے- یہ ایک بڑا پتھر کنوئیں میں پڑا ہوتا تھا اور یہ اس لئیے کہ جب کنوئیں کا پانی کم رہ جاتا تو ڈول نہ بھرا جاتا سو ایک آدمی کنوئیں میں اتر کر اس پتھر پر کھڑا ہوتا اور ڈول بھرتا- حضرت یوسف اس اندھیرے کنوئیں میں پریشان حال بیٹھے تھے تب جبرائیل امین آئے اور آپ کو تسلی دی کہ اللہ فرماتا ہے کہ آپ بھائیوں کی وجہ سے پریشان نہ ہوں بہت جلد ہم ان سے بڑا بلند مرتبہ آپ کو عطا فرمائیں گے اور آپ کے خواب کی تعبیر بھی پوری ہو گی- علاوہ اس کے آپ کو تحت و تاج عطا فرمایا جائے گا-

حضرت یوسف کے بھائیوں نے آپ کو کنوئیں میں ڈالنے کےبعد ایک بکرخ زبح کی اور اس کا خون آپ کی قمیص پر لگایا اور گھر کی طرف چلے اور جب گھر پنہچے تو زور زور سے رونے لگے- حضرت یعقوب ان کے رونے کی آواز سن کر دوڑے ہوئے آئے اور حضرت یوسف کو ان میں تلاش کرنے لگے- جب نہ پایا تو ان سے اس بارے استفسار کیا تب وہ اور بھی بلند آواز سے رونے لگے اور ان میں سے ایک جو بڑا تھا بولا؛ ابا جان ہم وہاں کھیل میں مصروف ہو گئے اور یوسف کو بھیڑوں کے پاس ہی چھوڑ گئے کہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے بھاگ نہیں سکتا تھا- اور ہم ایک دوسرے کو پکڑنے اور آگے پیچھے دوڑنے میں بہت آگے نکل گئے اور پیچھے سے یوسف کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا- اور ہم سچ کہتے ہیں- اور حضرت یوسف کی خون آلود قمیص انہیں دکھائی-

حضرت یعقوب نے قمیص کو دیکھا اور ارشاد فرمایا کہ اگر انہیں بھیڑیا لے گیا اور اس نے یوسف کو مارا تو یوسف کی قمیص کیوں پھٹی ہوئی نہیں ہے- تب انہوں نے کہا کہ اس بات پر تو ہم بھی حیران ہیں کہ یوسف کی قمیص کیوں نہیں پھٹی-

بعض روایات میں تذکرہ ہے کہ حضرت یعقوب نے ان سے کہا کہ جاو اس بھیڑئیے کو لے کر آو جس نے میرے یوسف کو کھایا ہے- بیٹوں نے کہا کہ ابا جان اب ہم کہاں اسے ڈھونڈتے پھریں گے-

تب آپ نے فرمایا کہ واپس وہیں جاو اور آواز لگاو کہ یہاں جتنے بھیڑئیے ہیں تمہیں نبی یعقوب بلا رہے ہیں وہ آ جائیں گے- چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا- تب وہاں ایک ہی بھیڑیا تھا اور وہ ان کے سارھ چلا آیا-

حضرت یعقوب نے اس سے یوسف کے بارے پوچھا تو وہ رونے لگا اور عرض کی کہ اے نبی اللہ میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں- میں تو خود ایک مجبور اور مسافر ہوں میرا بھائی کچھ دن سے گم ہو گیا ہے میں اس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں تبھی آپ کے بلاوے کا حکم سنا تو حکم عدولی نہ کر سکا اور چلا آیا-

حضرت یعقوب نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اس کا بھائی جلد مل جائے اور اسے جانے کا کہا- اور اپنے بیٹوں سے محاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم مکر کر رہے ہو یہ خون میرے یوسف کا نہیں ہے- تم اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو بیشک وہ سب جانتا ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی نہیں ہے اور یوسف کا نگہبان بھی اللہ خود ہی ہے- اور خود حضرت یوسف کی قمیص لے کر اندر چلے گئے-

موجودہ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب نے گریہ زاری کی اور اپنا گریبان پھاڑ لیا اور اپنے بیٹوں سے ہمیشہ کے لئیے ناراض ہو گئے اور خود ایک ٹاٹ باندھ کر خود کو کمرے میں بند کر لیا- مگر قرآن اس بات کو مکمل رد کرتا ہے بلکہ قرآن کے مطابق آپ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور حضرت یوسف کو اللہ کی امان میں دیا اور بیٹوں کو بھی اللہ سے معافی طلب کرنے کا کہا- ہاں آپ کو دکھ ضرور تھا کہ ایک تو حضرت یوسف چھوٹے تھے اور پیارے بہت تھے اور دوسرا آپ کو حضرت یوسف سے محبت بہت تھی- تو اسی وجہ سے روتے رہتے جس وجہ سے آپ کی آنکھیں بھی سفید ہو گئیں-

توارات کی روایات کے مطابق آپ اپنے بیٹوں سے ایک لمبے عرصے تک ناراض رہے یہاں تک کہ ان کی اولادیں بھی ہو گئیں اور نقل مکانی بھی کرنے لگے- لیکن اسلامی روایات کے مطابق آپ چھے مہینے ناراض اور بعض کے مطابق آپ ناراض نہ ہوئے تھے بس خاموش ہو گئے تھے اور بنا ضرورت نہ کسی سے بات کرتے نہ ملتے بس عبادت میں مصروف رہتے یا حضرت یوسف کو یاد کر کر کے روتے رہتے اور اسی طرح اپنی آنکھیں سفید کر لیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنوئیں میں رہے- کنوئیں کا پانی جو کہ کھارا تھا آپ کی برکت سے میٹھا ہو گیا- اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر کی طرف تجارت کی غرض سے جا رہا تھا (اور بعض روایات کے مطابق وہ حجاز عرب کے رہنے والے تھے اور اولاد اسماعیل سے تھے) انہوں نے وہاں اپنا پڑاو ڈالا تو ان میں سے ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذعر خزاعی تھا کو پانی بھرنے بھیجا-

جب اس نے پانی بھرنے کے لئیے ڈول کنوئیں میں ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام اس ڈول کو پکڑ کر باہر آ گئے- جب پانی بھرنے والے نے آپ کو دیکھا تو سب کو متوجہ کیا اور آواز دی کہ دیکھو دیکھو مجھے کنوئیں سے کیا انمول چیز ملی ہے- جب قافلے والوں نے حضرت یوسف کو دیکھا تو افسوس کیا کہ کاش ہم پانی لینے آئے ہوتے-

جب قافلے والے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر مصر کی طرف چلے گئے ۔تو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں روزانہ بکریاں چرایا کرتے تھے، برابر روزانہ کنوئیں میں جھانک جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے آپ کو کنوئیں میں نہیں دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے جو بالکل ہی ناکارہ اور نافرمان ہے۔ یہ کسی کام کا نہیں ہے۔ اگر تم لوگ اس کو خریدو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ فروخت کردیں گے مگر شرط یہ ہے کہ تم لوگ اس کو یہاں سے اتنی دور لے جا کر فروخت کرنا کہ یہاں تک اس کی خبر نہ پہنچے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور ایک لفظ بھی نہ بولے۔ پھر ان کے بھائیوں نے ان کو مالک بن ذعر کے ہاتھ صرف بیس درہموں میں فروخت کردیا۔

مالک بن ذعر ان کو خرید کر مصر کے بازار میں لے گیا۔ اور وہاں آپ کو ایک طرف کھڑا کر دیا بیچنے والے مال کیساتھ ہی تاکہ دیکھنے والوں کو پتا چل سکے کہ یہ غلام فروخت کرنے کیلئیے ہے-

لیکن آپ کے حسن و جمال کو دیکھتے ہوئے آپ کے کئی خریدار آ گئے اور سب کی کوشش تھی کہ وہی آپ کا خریدار بنے لیکن ان کو بیچنے والے مالک بن ذعر نے آپ کی قیمت آپ کے وزن برابر مقرر کر دی- لوگوں نے بہت سے سونے چاندی کے سکوں سے آپ کا وزن کرنا چاہا لیکن نہ کر سکے-

تبھی ایک بوڑھی عورت بھی وہیں موجود تھی جو سوت کاتا کرتی تھی اور اسی کی اٹیاں بیچ کر گزارہ کرتی- جب اسے اس بارے معلوم ہوا کہ ایک غلام بک رہا ہے اور اس کے مالک نے اس کی قیمت اس کے وزن برابر طے کر رکھی ہے تو وہ بھی اپنی اٹیاں لے کے پنہچ گئی جو کہ دو ہی بچیں تھیں- الغرض وہ بھی خریداروں کی صف میں کھڑی ہو گئی جب اس کا مال حضرت یوسف کیساتھ رکھا گیا تو بحکم ربی حضرت یوسف والا پلڑا جھک گیا اور اس طرح آپ کی قیمت دو سوت کی اٹیاں ہوا-

یہ بات عزیز مصر کے محل تک بھی پنہچ چکی تھی چنانچہ وہ بھی آپ کو دیکھنے اور خریدنے کی غرض سے آیا- لیکن اس کے آنے تک وہ بوڑھی عورت آپ کو خرید چکی تھی- تب اس سے آپ کی قیمت بابت پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں ان کی قیمت ان کے وزن برابر سونے کے سکے لوں گی- تب عزیز مصر نے ان کو بہت گراں قیمت دے کر خرید لیا ۔یا سونے میں تول کر خرید لیا۔اور اپنے شاہی محل میں لے جا کر اپنی ملکہ ”زلیخا” سے کہا کہ تم اس غلام کو نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنی خدمت میں رکھو۔ اس کی خدمت کرو ممکن ہے کہ ہمارا بیٹا بن جائے-

چونکہ عزیز مصر کی اولاد نہیں تھی تو جب اس نے حضرت یوسف کو دیکھا تو انہیں شہزادوں سے کئی گنا بڑھ کر پایا اور آپ کے حسن و جمال پر ریج گیا اس لئیے آپ کو سیدھا اپنے محل میں لایا اور اپنی بیگم کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اچھے سے تربیت کرو اور اسے شہزادوں کی سی تعلیم و تربیت دو تاکہ ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا سکیں اور بعد میں ہمارے تحت و تاج کا وارث ہو سکے- چنانچہ اس طرح آپ عزیز مصر کے محل میں پرورش پانے لگے۔

تبصرے بند ہیں۔