دو تصویریں

محمد طارق اعظم

پہلی تصویر

محترم جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب صدر مجلس اتحاد المسلمین و ممبر پارلیمنٹ۔ یہ ملک کا مشہور و معروف نام ہے اگر یہ کہا جائے کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی اپنی الگ پہچان اور شناخت ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مقبول اور معروف لیڈروں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حق گوئی و بیباکی زبان زد عام و خاص ہے۔ طلاقت لسانی اور زور بیانی سے مخالفوں پر چھا جانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ سنجیدگی، سادگی اور پاکیزگی ان کی شخصیت کا نمایاں عکس ہے۔ وضع قطع سے مسلمانیت جھلکتی اور ٹپکتی ہے۔ دین داروں ، علماء اور صلحاء سے عقیدت و محبت ربط و ضبط بھی خوب رکھتے ہیں۔

 تقریب بہر ذکر یہ ہے کہ  بروز ہفتہ، بتاريخ ۲۴، ۳، ۲۰۱۸ شام سے جناب بیرسٹر صاحب کی دختر نیک اختر کی منگنی ( engagement ) کی دعوت کی تصویریں اور وڈیوز سوشل نیٹ ورک پر چھائے ہوئے ہیں ، جن سے مشاہدین کی آنکھیں خیرہ ہوئی جا رہی ہیں۔ پہلے پہل تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ تصویریں جناب اسد الدین اویسی صاحب کی صاحبزادی کی منگنی کی تصویریں ہیں۔ دل نے ہزار بار چاہا کہ اسے جھٹلا دے کہ یہ تصویریں سچی اور حقیقی ہیں ، مگر ایسا نہ ہو سکا، اور رفتہ رفتہ اس کی صداقت کا یقین ہوتا گیا۔ ان تصویروں کو دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں کلیجہ کٹ کٹ سا گیا کہ جو عالی مرتبت شخص کبھی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں اور کبھی برسر اسٹیج شریعت کے تحفظ کی دہائی دیتا رہا امت کی زبوں حالی کا رونا روتا رہا آج اسی کی چوکھٹ پر شریعت یوں پامال ہوتی رہی، امت کی بےکسی اور بےبسی یوں طبلےکی تھاپ پر سسکتی  رہی۔

فإلى اللہ المشتکیٰ 

منگنی کی دعوت کیا تھی ایک شاہی پرتکلف دعوت کا نظارہ پیش کر رہی تھی۔ برقی قمقموں سے آراستہ اعلی سفید کپڑوں سے پیراستہ ایک کشادہ پنڈال۔ قسمہا قسم کے پھولوں سے سجا وسیع پر رونق اسٹیج.اپنے مخصوص انداز میں طبلے اور ڈھول بجا کر مہمانوں کو محظوظ کرتے شاہی طبلچے۔ مدعوئین کے مشام جان کو معطر کرنے کےلیے اعلی قسم کے خوشبوؤں کی شیشیوں اور عود غرقی یعنی صندلی لکڑیوں سے معمور بلوری خوبصورت ٹرالیاں۔ وسیع و عریض میز پر بچھے نفیس دسترخوان، اور اس پر مہارت کےساتھ ترتیب سے رکھی ہوئی طلائی رکابیاں ، نقرئی چمچے، چینی طشتریاں ، بلوری گلاسیں پیالیاں ،  مانند ریشم رومالیں اور سلیقے سے سجی ہوئی نوع بنوع لذیذ کھانیں اور پھل۔

یہ مختصر سی جھلک اس شاہی دعوت کی ہے، جسے دیکھ کر آنکھوں  کو نظام دکن کے شاہی دسترخوان کا دھوکہ ہوا۔ یہ دعوت نکاح کی بھی نہیں بلکہ منگنی کی ہے جس کی حیثیت شریعت مطہرہ میں بس اتنی ہے کہ لڑکا اور لڑکی ازدواجیت کے مقدس رشتے میں منسلک ہونے سے پہلے  آپس میں مطمئن ہوجائیں۔ اس پر تکلف اور شاہی دعوت کا کوئی جوڑ اسوہ نبوی اور شریعت مطہرہ سے ہے؟ ہرگز نہیں۔ کاش یہ امت اپنے رہنما سے یہ پوچھ سکتی کہ آپ نے یہ شاہی دعوت کا نظم کہاں سے کیا۔

اسی سے ملتی جلتی قدرے فرق کے ساتھ قریب ہی زمانے کی دوسری تصویر دیکھیں۔

دوسری تصویر

ولی صفت انسان، سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ۔ یہ پاکستان کے لائق فائق حکمرانوں میں سے گذرے ہیں۔ دوست و دشمن سب ان کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتےتھے۔ پاکستان کے سیاہ و سفید کے بلا شرکت غیرے مالک تھے۔ ان کی شخصیت انتہائی پروقار اور رعب دار تھی۔ اپنے وقت کے علماء و صلحاء سے گہری عقیدت و محبت اور مضبوط تعلق رکھتے تھے۔ ان کی نیک نامی اور نیک کرداری کا چرچا اب تک زبان زد عام و خاص ہے۔

اس مطلق العنان صدر پاکستان کی صاحبزادی کے منگنی کا نہیں نکاح کا حال چشم دید، معتبر اور مستند وقائع نگار سابق چیف جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی قلم معجز رقم میں ملاحظہ کیجیے‍‌۔ ‌

” صدارت کے زمانے میں جب مرحوم کی پہلی صاحبزادی کا نکاح ہوا تو جناب مولانا ظفر احمد صاحب انصاری کے ذریعے حضرت ؒ ( مفتی صاحب کے شیخ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی ؒ)کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ۔” میرا نکاح حضرت مفتی محمد حسن صاحب نے پڑھایا تھا۔ میرے بھائی کا نکاح حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے پڑھایا، اور اب میری خواہش ہے کہ میری لڑکی کا نکاح بھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے کوئی خلیفہ پڑھائیں ، اس لیے اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو حضرت نکاح پڑھانے کو منظور فرما لیں۔ ” حضرت نے فرمایا کہ اتنی ساری نسبتوں کے بعد میں کیسے انکار کر دوں ؟” چنانچہ حضرت نے نکاح پڑھانا منظور فرما لیا۔ اس سفر میں برادر محترم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم اور احقر کو بھی حضرت کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔

جب طیارہ راولپنڈی پہنچا تو صدر محترم خود پروٹوکول اور سیکیورٹی کے انتظامات سے بےنیاز جہاز کی سیڑھیوں پر حضرت کے استقبال کے لیے موجود تھے، اور حضرت کی تشریف آوری پر احسان مندی کے جذبات سے بچھے جاتے تھے۔ جہاز ہی سے حضرت کو گاڑی میں بٹھا کر روانہ ہوئے۔ راستے میں مختلف باتوں کے دوران عرض کیا کہ ” حضرت میرا دل تو یہ چاہتا تھا کہ آپ میرے گھر پر قیام فرمائیں ، ( مرحوم صدارت کے زمانے میں بھی ایوان صدر کے بجائے اپنے آرمی ہاؤس میں آخر تک قیام پذیر رہے ) لیکن پھر میں نے آپ کے قیام کےلیے ایوان صدر کو اس لیے ترجیح دی کہ اس کو برکت حاصل ہو۔” یہ کہہ کر حضرت کو ایوان صدر میں ٹھہرایا، اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ” سفر میں تعب ہوگیا ہوگا، آپ کچھ دیر آرام فرما لیں ، عشاء کے بعد میں آ کر نکاح کےلیے آپ کو لے جاؤں گا۔ "

عشاء کے بعد پھر آئے، اور حضرت کو اپنے مکان پر لے گئے، جہاں نکاح ہونا تھا۔ نکاح کی مجلس ان کے ڈرائنگ روم میں منعقد ہوئی۔وہاں صوفے ہٹا کر فرشی نشست کا انتظام کیا گیا۔ نکاح کی مجلس انتہائی سادہ اور مختصر تھی، مشکل سے بیس پچیس آدمی ہوں گے جن میں گھر کے افراد کے علاوہ ملتان میں حضرت تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت حاجی محمد شریف صاحبؒ، جناب مولانا ظفر احمد انصاری، دو تین علماء، دو تین وزراء اور فوج کے چند اعلی افسران شامل تھے. دو گاؤ تکیوں پر حضرت ڈاکٹر صاحبؒ اور حضرت حاجی صاحبؒ تشریف فرما تھے اور سامنے باقی لوگ بیٹھے تھے. صدر مرحوم انہی لوگوں کے درمیان ایک عام آدمی کی طرح باادب بیٹھے رہے۔ نکاح کے بعد ڈاکٹر صاحب قدس سرہ نے اپنی عادت کے مطابق نصیحتیں شروع فرما دیں ، اور تقریباً گھنٹہ بھر تک یہ محفل حضرت کی مجلس ارشاد میں تبدیل ہوگئی۔

اسی دوران اسی کمرے میں فرش پر کھانے کے لیے دسترخوان بچھائے گئے، وہیں پر کھانا ہوا، کھانے کے بعد پھر حضرت کے مواعظ کا سلسلہ جاری رہا۔ "( نقوش رفتگاں 280، 281 )

یہ داستان نکاح کسی مولوی صوفی کی نہیں ، کسی معمولی دنیا دار، منسٹر وزیر کی نہیں ، کسی تنظیم، پارٹی کے صدر کی بھی نہیں بلکہ ایک ملک کے حکمراں کی صاحبزادی کی نکاح کی داستاں ہے. یہ واقعہ خیرا القرون اور اس کے بعد کی صدیوں کا بھی نہیں بلکہ صرف تین دہائی قبل کا ہے. دونوں تصویروں میں ظاہر باطن کا اندازہ لگائیں ، عہدے اور منصب دیکھیں ، طاقت اور قوت دیکھیں اور شہرت اور دولت دیکھیں اور بتائیں کوئی مناسبت ہے؟ پہلی تصویر میں آپ نے منگنی کی دعوت دیکھی اور دوسری تصویر میں نکاح اور بعد نکاح کی سادہ دعوت کو آپ نے دیکھا، کوئی مماثلت یا مشابہت نظر آئ؟ وہاں شاہی دعوت کا اعلی منظر اور یہاں انتہائی سادگی کا نبوی نمونہ۔اگر صدر مرحوم چاہتے تو کسی اعلیٰ سے اعلیٰ پیلس اور ہوٹل میں اپنی صاحبزادی کا نکاح کرا سکتےتھے یا اپنے ہی گھر کو بیٹی کی شادی کی خوشی میں جنت نشاں بنا دیتے، مگر انہوں نے ایسا نہيں کیا، کیا ان کے دل میں بیٹی کی محبت نہيں تھی؟ محبت یقیناﹰ تھی مگر مقصود رضائے خدائے وندی اور اتباع سنت تھا اور آخرت کی جوابدہی کا احساس تھا۔

شاید آپ سوچتے ہوں گے کہ مجھے بیرسٹر صاحب یہ شکوہ کیوں ہے اور یہ موازنہ میں نے کیوں کیا ہے؟ جبکہ ہزاروں اعلی سے لےکر ادنی تک یہی کررہے ہیں اور کرتے آ رہے ہیں۔ مختصر جواب یہ کہ بیرسٹر صاحب محرم راز درون میخانہ ہیں۔ وضاحت کےلیے مضمون کا پہلا پیراگراف دیکھ لیں آپ سمجھ جائیں گے کہ مجھے یہ شکوہ کیوں ہے، اور شاید آپ بھی میرے ہم نوا بن جائیں۔

جناب شیخ پرافسوس ہے ہم نے توسمجھا تھا

حرم کے رہنے والے ایسے نامحرم نہیں ہوں گے

اس تحریر کی غرض اور اس موازنہ سے مقصود ہرگز بیرسٹر صاحب کی تنقیص نہیں ہے۔ میں بھی ان کے قدردانوں اور خیر خواہوں میں شامل ہوں۔ اور محض خیر خواہانہ جذبے ہی سے یہ شکوہ کیا اور آئینہ دکھایا ہے۔

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے 

اس میں ہم سب کےلیے بھی سبق ہےکہ کچھ نہ ہونے کے باوجودبھی ہم کیا کیا تماشہ شادی بیاہ کے موقع پر نمود و ریا کےلیے نہيں کرتے ہیں ، احکام شرعیہ اور سنت نبویہ کو کس کس طرح ہم پامال نہيں کرتے ہیں۔ کاش صدر مرحوم کی زندگی کا یہ ورق ہمارے دلوں میں جاگزیں ہوجائے اور ہمارے کردار میں زندہ ہوجائے۔

خدا کرے کہ یہ صدائے بازگشت ان تک بھی پہنچ جائے، اور ان کی اور ہم سب کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بن جائے.

ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔