انسان اور زمین کی حکومت (قسط 35)

رستم علی خان

چنانچہ جب حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں سے سوائے چند لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا اور آپ کو اور آپ کے حواریوں کو ایذاء پنہچانے کے بارے باتیں کرنے لگے- تب حضرت شعیب نے اللہ سے دعا کی کہ اب تو ہی ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے-

چنانچہ حضرت جبرائیل بحکم ربی حضرت شعیب کے پاس آئے اور کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ آپ اپنے ماننے والوں کے ساتھ اس شہر سے باہر نکل جائیں ہم ان پر اپنا عذاب مسلط کرنے والے ہیں- چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنے ساتھ ان لوگوں کو بھی لیا جو ان پر ایمان لائے تھے- جب آپ شہر سے نکلنے لگے تو شہر والوں نےہنسی اڑائی اور پوچھا کہ اے شعیب کہاں جا رہے ہو ؟

آپ نے فرمایا کہ میں اب تم سے جدائی چاہتا ہوں کیونکہ تم لوگوں پر تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب آنے والا ہے- قوم نے کہا شعیب لگتا ہے تم بہک گئے ہو سب کچھ ویسا ہی تو ہے جیسا روز ہوتا ہے عذاب آئے گا کہاں سے یہاں تو کسی عذاب کے آثار نظر نہیں آتے- آپ نے فرمایا کہ بہت جلد تم سب دیکھ لو گے- اور اپنے ساتھ ایمان لانے والوں کو بھی لے کر شہر سے نکلے- حضرت شعیب پر ایمان لانے والوں کی تعداد کم و بیش ایک ہزار سات سو بتائی جاتی ہے-

جب آپ شہر سے نکل گئے تو حضرت جبرائیل آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ آج رات آپ کی قوم پر عذاب نازل ہو گا- چنانچہ قوم مدین پر اس وقت عذاب نازل ہوا جب وہ سب لوگ سو رپے تھے- سب سے پہلے حضرت جبرائیل نے ایک چیخ ماری جس سے وہ سب کے سب مع اپنے مال مویشیوں کے مر گئے- بعد اس کے آسمان سے ایک آگ نازل ہوئی اور ہر چیز جل کر بھسم ہو گئی- اور مومن مع حضرت شعیب کے عبادت میں مشغول رہے-

بعد اس کے حضرت شعیب نے اللہ سے عرض کی کہ اب ہم کہاں رہیں گے ؟ تب حکم ہوا کہ آپ واپس بستی میں چلے جائیں چنانچہ آپ اللہ کے حکم سے واپس شہر میں داخل ہوئے اور شہر کی حالت دیکھ کر اپنی بددعا پر تاسف کرتے اور روتے- حضرت شعیب نے دوبارہ سے شہر آباد کیا- لیکن آپ کو یہ احساس ستاتا کہ آپ کی بددعا سے شہر برباد ہو گیا اور اسی بات کے لئیے روتے رہتے اور آنکھیں چلی گئیں-

مروی ہے کہ جبرائیل نے نازل ہو کر حضرت شعیب سے کہا کہ اے شعیب آپ کو کس بات کا غم ہے ؟ اگر آنکھوں کے لئیے روتے ہو تو آنکھیں دی جاویں گی اگر کوئی اور غم ہے تو وہ بھی دور ہو گا اگر دوزخ کا ڈر ہے تو بھی غم نہ کرو اگر دنیا کے لئیے روتے ہو تو وہ بھی عطا کی جائے گی- آپ نے فرمایا مجھے کسی چیز کا غم نہیں بس دیدار الہی کا مشتاق ہوں- یہ سن کر جبرائیل نے عض کی خدایا تو دانا و بینا ہے- شعیب جو چاہتا ہے تو خوب جانتا ہے- اللہ تعالی نے فرمایا کہ شعیب سے کہہ دیں کہ اللہ کا دیدار قیامت کو نصیب ہو گا-

غرض شعیب علیہ السلام بارہ برس دنیا میں نابینا رہے اور پیغمبری کی اسی دوران حضرت موسی کا زمانہ آ پنہچا- تفصیل اس کی حضرت موسی کے قصے میں ان شآء اللہ بیان ہو گی- خبر ہے کہ حضرت موسی کے آنے کے بعد حضرت شعیب چار برس اور چار مہینے اور جئیے اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ برس اور جئیے اور پھر انتقال فرمایا۔

آج ہم سکندر زوالقرنین کا تذکرہ کریں گے- سکندر کا صحیح دور تو کسی کو معلوم نہیں ہے لیکن تورات و زبور میں ان کے تذکرے کا موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ذوالقرنین کا دور حضرت موسی اور داود علیہم السلام سے پہلے کا ہے-

راویوں نے روایت کی ہے کہ سکندر کو ذوالقرنین کئی وجہ سے کہا جاتا ہے- ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی کہ انہوں نے قاف سے قاف تک کا سفر کیا تھا یعنی مشرق سے مغرب تک کی اللہ نے ان کو بادشاہی دی تھی اور سیر کی- اور قرن کہتے ہیں تیس برس یا اسی برس یا ایک سو بیس برس یا سو برس کو اور سو برس والا زیادہ صحیح مانا جاتا ہے- اور قرن گوشہ جہان کو بھی کہتے ہیں یعنی ایک گوشہ جہان کا وہ ہے کہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور دوسرا گوشہ وہ جہاں پر سورج غروب ہوتا ہے- پس سکندر دونوں گوشوں تک پہنچے تھے- اور قرن سینگ یا شاخ کو بھی کہتے ہیں- تو پس ذوالقرنین اس لئیے کہا جاتا کہ ان کی دو شاخیں تھیں یعنی ان کی بادشاہی مشرق سے مغرب تک دونوں گوشوں میں پھیلی ہوئی تھی- اور سکندر اس لئیے کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش شہر اسکندر میں ہوئی-
ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جب ابو جہل اور کفار مکہ سب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہ لائے اور حضور اقدس کی پیغمبری کو آزمانے کے لئیے انہوں نے ایک قاصد ملک یثرب میں علماء یہود کے پاس بھیجا کہ ہم میں ایک شخص ایسا ہوا ہے کہ خود کو رسول کہتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا کہ جھوٹا- تو تم تورات کا خوب علم رکھتے ہو سو اپنی کتابوں میں سے چند ایسے مشکل مسائل جو قدیم زمانے سے ہوں کہ جواب ان کے ہر کسی کے پاس نہ ہوں ہمیں لکھ بیجھو یا خود ہی یہاں آ کر ہمیں سوالات سکھا دو کہ ہم اس سے وہ سوال کر کے اس کی سچائی کو پرکھ سکیں کہ جواب ہمارے سوالوں کے دے سکتا ہے یا نہیں-

چنانچہ یہودیوں نے تورات و زبور سے چند مشکل ترین سوالات لکھ کر ابو جہل کو بھیجے کہ جواب ان کے کسی کے پاس نہ تھے- مثلا روح کی حقیقت کیا ہے- اصحاب کہف کون تھے نیز ان کی تعداد و احوال کیا ہیں- اور ذوالقرنین کون تھے اور ان کے حالات کیا ہیں-

تب ابو جہل ملعون نے وہ سوال پوچھے اور کہا کہ اگر آپ جواب دے دیں ان کے تو ہم آپ پر ایمان لاویں گے اور آپ کو موسی کے جیسا سچا نبی تسلیم کریں گے- تو رسول پاک نے فرمایا کل بتاوں گا- خیال کیا کہ کل جبرائیل آئیں گے تو پوچھ کر بیان کر دوں گا اور ان شآء اللہ نہ کہا- اور اسی طرح گیارہ دن گزر گئے اور کفار مکہ اور ابوجہل روز آتے جواب لینے اور آپ فرما دیتے کل بتاوں گا- چنانچہ ابوجہل نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد کا خدا اس کے سوالوں سے عاجز آ گیا ہے اور خفا ہو کر چھوڑ گیا ہے اس کو جو وہ جواب نہیں دے رہا-

آپ صلی علیہ وسلم اس بات سے غمناک ہوئے اور جناب باری میں عرض کی تب جبرائیل امین اللہ کے حکم سے نازل ہوئے اور درود و سلام کے بعد کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ کسی بھی کام کو بغیر ان شآء اللہ کے نہ کہو کہ میں یوں کروں گا- بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ اگر اللہ نے چاہا تو یوں کروں گا- اور اگر اس وقت کہنا بھول جاو تو جب یاد آئے تب کہہ لو کہ پھر اس کام میں مرضی اللہ کی شامل ہو جاتی کے اور خیر و عافیت سے ہو جاتا ہے-اور یہ جو کفار کہتے ہیں کہ آپ کا رب آپ سے عاجز آ گیا یا ناراض ہو کر چھوڑ گیا تو یہ صرف دشمنی میں ایسا کہتے ہیں- اور بعد اس کے فرمایا کہ یہ جو کفار آپ سے سوال کرتے ہیں روح کے بارے تو کہہ دیجئے کہ روح اللہ کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف لوٹ جانے والی ہے- اور اس بارے تم کو تھوڑی سی خبر دی گئی ہے-

پھر فرمایا کہ جو یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ذوالقرنین کو اللہ تعالی نے بادشاہت دی تھی زمین پر اور وہ مشرق سے چلا اور وہاں تک پنہچا جہاں سورج غروب ہوتا ہے اور شمال سے جنوب تک کا سفر کیا اور قاف سے قاف تک کا سفر کیا۔

تبصرے بند ہیں۔