نسیم حجازی کی ناول نگاری (قسط 2)

آصف علی

نسیم حجازی نےاپناپہلاناول داستان مجاہد 1938  میں مکمل کیا۔ وہ  دورترقی پسندادب کادورتھا اس لیے، ان کے اس یقین کے باوجود کہ ان کایہ ناول کامیاب رہےگا،   ہر پبلشر نے اس تاریخی ناول کو شائع کرنےسےمعذرت کی،  کیوں کہ وہ گھاٹےکاسودانہیں کرناچاہتےتھے۔ بالآخریہ ناول 1943 میں میرجعفرخان جمالی کے دل چسپی لینے سےکوئٹہ سےشائع ہوا۔ یہ  ناول پہلی صدی ہجری کےربع آخرسےدوسری صدی ہجری کےابتدائی  زمانے تک کےواقعات اوراس دورکےاہم کرداروں عبدالملک بن مروان، حجاج بن یوسف، قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاداورسلیمان بن عبدالملک وغیرہ کااحاطہ کرتاہے۔ یہ اس دورکی کہانی ہےجب اسلامی فوجیں بیک وقت افریقہ، اسپین، وسطی ایشیااورہندوستان کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ گوکہ اس ناول  کا پلاٹ  اور متعدد کردار حسب ضرورت تخیلاتی ہیں اور کہانی میں  عشق ومحبت، جذبۂ دین، جہاد، ایثار اورقربانی کواہمیت دی گئی ہے لیکن تاریخی  کردار (اوران کازمانہ ) درست  طریقے پر   دکھائے گئے ہیں ورتاریخ کے ساتھ کھلواڑنہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح اس ناول میں تاریخ اورانسانی جذبات کابہترین  امتزاج پایا جاتا ہے۔ لیکن اس ناول کی کمزوری اس کاخطیبانہ انداز ہے جو گراں گذرتا ہے۔

ان کادوسراناول محمدبن قاسم تھا۔ وہ بھی اسی دورسےتعلق رکھتاہے جوپہلے ناول  کاتھا۔ فرق صرف اتناہےکہ پہلےناول میں اس دورکےتمام اہم کرداروں کااحاطہ کیاگیاہےلیکن اس ناول میں اسلام کےایک اہم سپہ سالارکی زندگی پیش کی گئی ہے۔ اس ناول میں بھی اس دورکےتمام اہم کرداروں کودرست تاریخی حوالوں کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے،  جن میں حجاج بن یوسف، اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اورراجہ داہرشامل ہیں۔ ناول کی ضرورت کےلحاظ سےاس میں ناہید اور زبیر کا رومانی کردار بھی تخلیق کیا  گیاہے۔ یہ ناول  بھی  ادب اورتاریخ کی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ اس وقت تک قارئین کی جانب سے  نسیم حجازی کے ناولوں کی طلب سامنے  آرہی  تھی چنانچہ   بقول نسیم حجازی کے یہ ان کےکرم فرماؤں کا ہی مطالبہ تھا  اور انہوں نےان کی خواہشات کی تکمیل کی۔

نسیم حجازی افغانستان کے جہاد سے بھی متاثر تھے اور ان کے قریبی لوگوں کا  کہنا ہے کہ اس موضوع پر وہ  ایک ناول زندہ پہاڑ کے نام سے لکھ رہے تھے لیکن روس کی شکست کے بعد مجاہدین کی آپس کی لڑائیوں سے بیزار ہوکر انہوں نے وہ مسودہ  ضائع کردیا۔ نسیم حجازی کی تاریخی ناولوں کی شہرت میں ان  کے دوسرے ناول عموماً نظر انداز ہوجاتے ہیں، اور کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے مزاحیہ ناول  بھی لکھے ہیں۔

نسیم حجازی ابتدائی زمانے میں شاعری بھی کیا کرتے تھے جو بعد میں ترک کردی۔ وجہ یہ بتاتے تھے کہ "علامہ اقبال نے میرے لیےمزید کچھ کرنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی،  مجبوراً مجھے  نثر کا راستہ اختیار کرنا  پڑا۔ "

نسیم حجازی کے ناولوں کے بارے میں کسی نے مولانا مودودی سے ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے جواب دیا :

’’ان ناولوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مسلمان باپ اپنی مسلمان بچیوں کے سامنے بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور انہیں پڑھ کر سناسکتا ہے، ان کے بھتیجے ظفر حجازی نے بتاتے ہیں کہ میری موجودگی میں  اسلامی جمیعت طلبہ کے چند نوجوان لاہور سے انہیں ملنے آئے۔ ایک نوجوان نے نسیم حجازی کا ہاتھ چومتے ہوئےکہا:

"حجازی صاحب ہماری شیرازہ بندی ضرور مولانا مودودی کے ہاتھوں ہوئی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری رگوں میں دوڑنے والا خون گرم صرف آپ کی تحریریں کرتی ہیں۔”

نسیم حجازی مسکرائے اور کہا:

’’برخوردار ایک فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا۔ مولانا مودودی کی تحریریں پڑھ کے نسیم حجازی تو پیدا ہوسکتا ہے مگر نسیم حجازی کی تحریریں پڑھ کر شاید کوئی مولانا مودودی پیدانہیں ہوسکتا‘‘۔

ان کے ان ناولوں نے اردو ادب میں ایک منفرد ذہنی رویے کو جنم دیا۔ جہاں ایک بڑی تعداد اس کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے وہیں کچھ لوگ اسے اسلامی تاریخ کے غیر حقیقی  رومانوی  تصور کا نام دیتے ہیں اور کچھ اسے   سازش کے فلسفے کا نام دیتے ہیں ۔ پروفیسر عقیل نسیم حجازی کے بارے میں اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں:

"ان کے تمام ناول اپنے اندر وہ خاص رومانویت رکھتے تھے جو انیسویں صدی میں دنیا پر اپنا سیاسی اقتدار کھونے کے بعد مسلمانوں میں اپنے ماضی کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی۔ بیسویں صدی میں جیسے جیسے مسلمانوں میں اپنی شکست کا احساس بڑ ھتا گیا، ماضی کے ساتھ ان کی یہ رومانویت بھی بڑ ھتی چلی گئی۔ دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ و اقتدار، عظمتِ رفتہ کا حصول، خلافتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ، اتحاد بین المسلمین، جذبۂ جہاد کی بیداری، کافروں کی سرکوبی، قدیم مسلم ثقافت کا احیا اور فقہی قوانین کا فرد و اجتماع پر نفاذ اس رومانویت کے بنیادی عناصر تھے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کے علما، دانش ور، صحافی اور فکری رہنمائی کرنے والے بیشتر عناصر اسی رومانویت کے اسیر اور اسی کے مبلغ تھے۔ نسیم حجازی اسی قافلے کے ایک شہسوار تھے جنھوں نے میدانِ ادب میں اس فکر کے جھنڈے گاڑ دیے اور انتہائی مؤثر انداز میں کم از کم دو نسلوں میں اس رومانوی فکر کی آبیاری کی۔ "

"ماضی کے ساتھ رومانوی وابستگی کوئی بری بات نہیں ہوتی، مگر ماضی کے احیا کی خواہش کے ساتھ یہ ضروری ہوتا ہے کہ ماضی کے عروج و زوال کی درست توجیہہ کی جائے اور حال میں پیدا ہوجانے والی تبدیلیوں کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ بدقسمتی سے ہماری رومانوی فکر نے ماضی کے عروج و زوال کا انتہائی سطحی تجزیہ کیا، اس لیے بہترین لوگوں کی بیش قیمت قربانیوں کے باوجود پہلے برطانیہ اور یورپی اقوام، پھر سو ویت یونین اور اب امریکہ دنیا کے اقتدار پر فائز ہیں جبکہ مسلمانوں کے زوال کا عمل مسلسل جاری ہے۔ "

تبصرے بند ہیں۔