انسان اور زمین کی حکومت (قسط 42)

رستم علی خان

فرعون کی اس بات پر لوگ حیران ہوئے اور کہا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ابھی چند دن پہلے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا- فرعون نے کہا کہ اب سے ایسا ہی ہو گا میں اس قبرستان کا دروغہ ہوں پس اب بنا میری اجازت نہ تو تم یہاں قبر نکال سکتے ہو اور نہ ہی مردہ دفن کر سکتے ہو- جب تک کہ مجھے ایک سونے کا سکہ بطور خراج ادا نہ کرو گے- تب چار و ناچار ان لوگوں نے ایک سکہ سونے کا فرعون کو ادا کیا اور بعد اس کے قبر نکالی-

بعد اس کے یہ سب چل نکلا فرعون اسی قبرستان میں رہتا اور ہر آنے والی میت کو دفنانے اور قبر نکالنے کے لئیے ایک سکہ سونے کا وصول کرتا- اور بعض نے کہا کہ وہ مرنے والے کی حیثیت کے مطابق رقم وصول کیا کرتا- مذکور ہے کہ ایک بار شہر میں کوئی وبا پھیلی جس سے بہت زیادہ لوگوں کی موت ہوئی اور اسی طرح فرعون کے پاس بہت سارا مال اکٹھا ہو گیا-

روایت ہے کہ ایک بار شہر کا وزیر مر گیا- جب درباری اسے دفنانے کے واسطے لے کر گئے تو فرعون نے پوچھا کہ کون مرا ہے- تب ان لوگوں نے بتایا کہ شہر کا وزیر- فرعون نے جب ان سے رقم کا مطالبہ کیا تو وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ یہ کیسا قانون ہے- فرعون نے کہا کہ میں اس قبرستان کا دروغہ ہوں اور ایک عرصے سے یہیں پر ہوں اور یہ خراج میں سب سے وصول کرتا ہوں- چنانچہ شہر کے لوگوں نے اس کی بات کی تائید کی اور کہا کہ ایسا ہی یہ تو کافی عرصے سے یہیں پر رہتا ہے اور ہر آنے والی میت کو دفنانے اور قبر نکالنے کے لیے خراج وصولتا ہے-

الغرض جب درباریوں نے یہ معاملہ دیکھا تو فرعون کو پکڑ کر شاہ مصر کے پاس لے گئے اور ساری تفصیل سے اسے آگاہ کیا- تب شاہ مصر نے فرعون سے پوچھا کہ یہ سب کیا معاملہ ہے- تمہیں اس کام پر کس نے رکھا-

تب فرعون نے اول تا آخر اپنی شہر میں آنے اور شہر کے حالات کے بارے تفصیل بیان کی اور بعد اس کے نہایت ادب سے کہا کہ جب میں شہر کے یہ حالات دیکھے تو مجھے لگا کہ اس شہر میں کوئی قانون نہیں ہے جس کے پاس جس قدر اختیار اور طاقت ہے وہ اتنا ہی لوگوں کو لوٹ رہا ہے- میں ایک غریب الوطن اور نہایت غریب آدمی تھا- میری قوت بازار میں بیٹھنے کی نہ تھی اس لیے میں قبرستان میں بیٹھ گیا اور لوگوں سے خراج وصولنے لگا- نہ کسی نے میرے اس کام پر کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی کوئی شکایت کی- اور جو حالات شہر کے تھے اس میں لوگ شکایت لے کر کہاں جاتے کہ اس میں بھی شکایت درج کرنے والوں کو بھی انہیں کچھ نہ کچھ دینا پڑتا اس لیے لوگوں نے کم دے لینا مناسب خیال کیا-

چنانچہ شاہ مصر نے فرعون کی گفتگو سے اسے ایک دانا اور دور اندیش فرد خیال کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا تم اس شہر کے حالات کو بہتر بنا سکتے ہو اگر تمہیں اس کا اختیار دیا جائے تو- فرعون نے اس بات کی حامی بھر لی اور کہا کہ اگر ایسا ہو جائے کہ مجھے صاحب اختیار بنایا جائے تو میں شہر مصر کو ان سارے فتنوں سے صاف کر دوں گا- الغرض شاہ مصر نے فرعون کو مرنے والے وزیر کی جگہ پر معمور کیا اور تمام اختیار شہر کے فرعون کو دئیے-

چنانچہ فرعون نے مصر کا وزیر مقرر ہوتے ہی ہامان کو اپنے پاس شہر میں بلوا لیا اور اسے اپنا ساتھی مقرر کیا- بعد اس کے جو خراج شاہی سپاہی اور دربان وغیرہ دوکانداروں تاجروں اور عام رعایا سے وصولتے تھے سب بند کئیے- بعد اس کے اس نے اعلان کیا کہ کسی بھی شخص کو کوئی بھی شکایت ہو تو وہ میرے دربار میں حاضر ہو سکتا ہے ہر شخص کی فریاد بلا تفریق سنی جائے گی اور اسے انصاف دلایا جائے گا- فرعون کے اس فیصلے سے شہر کے دوکاندار، تاجر اور عام رعایا سب بہت خوش ہوئے کہ ایک اضافی خراج اور رشوت دینے سے ان کی جان چھوٹ گئی اب انہیں اپنے مال پر فائدہ ہوتا نظر آنے لگا- اس لیے لوگوں کے دلوں میں فرعون کے لیے عزت و احترام اور محبت پیدا ہو گئی-

تب فرعون نے ہامان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اہل مصر مجھ سے اور بھی زیادہ محبت کریں اور میری عزت لوگوں کی نظر میں اور بھی زیادہ بڑھے اور شہر کے لوگ مجھے نعوذ باللہ درجہ میں خدا کے برابر سمجھیں- اور میں دعوی خدائی کا کروں اور سب لوگ مجھے پوجیں- تب ہامان ملعون نے کہا کہ ابھی ایسا ممکن نہیں اگر تو ایسا چاہتا ہے تو پہلے آہستہ آہستہ خلقت شہر کو اپنے ہاتھ میں لا تاکہ جب تو دعوی خدائی کا کرے تو زیادہ لوگ تیری طرفداری کرنے والے ہوں-

تب فرعون ملعون نے کہا کہ اس کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے- کیوں کہ شہر کے سب لوگ ابھی تک یوسف بن یعقوب علیہم السلام کے دین پر مستحکم ہیں- میں کس طرح انہیں اس طرف لا سکتا ہوں- چنانچہ اس بارے مل کر کوئی تدبیر کرنے لگے- اور بہت سوچ بچار کے بعد آخر یہ تدبیر ٹھہرائی۔

چنانچہ انہوں نے اس کے لیے ایک تدبیر ٹھہرائی- پس فرعون شاہ مصر کے پاس گیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ رعایا پر ایک سال کا ٹیکس جو ان سے ان کے مال پر وصول کیا جاتا ہے معاف کر دیا جائے- اور وہ سارا جتنا ایک سال کا بنے گا وہ میں اپنی طرف سے شاہی خزانے میں جمع کروانے کو تیار ہوں- بادشاہ فرعون کی حکمت و دانائی سے اور امور وزارت سے بڑا خوش تھا لہذا اس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ تمہارا نقصان ہو اور میرا نفع ہو چنانچہ ایک سال کا ٹیکس تمہاری طرف سے میں رعایا پر معاف کرتا ہوں-
فرعون نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ شاہی خزانے میں کوئی کمتی ہو لہذا اس ایک سال کا ٹیکس رعایا کی طرف سے میں شاہی خزانے میں جمع کروا دوں گا- پس بادشاہ کم عقل اور نافہم تھا- فرعون کی خاطر ایک سال کا خزانہ رعیتوں سے نہ لیا اور کہا کہ جو تمہارا دل چاہے ویسا کرو-

تب فرعون نے دیوان اور خزانچیوں کو بلوا کر پوچھا کہ مصر کا خزانہ ایک سال میں رعیتوں سے کتنا وصول ہوتا ہے- انہوں نے بتایا کہ اتنا ہوتا ہے- پس فرعون نے اتنا روپیہ ہامان کے ہاتھ شاہی خزانے میں اپنی طرف سے جمع کروا دیا- بعد اس کے سارے شہر میں منادی کرا دی کہ اس سال کا ٹیکس رعیتوں پر ہماری طرف سے معاف کیا گیا اور ہم نے اپنی طرف سے اتنا خزانہ بادشاہ کی سرکار میں شاہی خزانے میں جمع کروا دیا ہے- اور علاوہ اس کے دو برس مزید کا خزانہ (ٹیکس) معاف کرنے کی اپیل بھی سرکار عالی میں پیش کی سو وہ بھی قبول ہوئی- یعنی اب تین برس تک رعیتوں سے کسی بھی طرح کا کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائے گا-

پس جب یہ منادی سنی تو تمام رعایا مصر کی بہت خوش ہوئی اور غریب غرباء جتنے تھے سبھوں نے فرعون کی ترقی اور خوشحالی کے واسطے دعا مانگی اور خدا کا شکر بجا لائے- اور اس طرح رعیتوں میں فرعون کی نیکی اور فراخ دلی کے چرچے ہونے لگے اور رعایا کی نظر میں اس کی عزت اور قدر و منزلت بڑھی- پس تین برس کا ٹیکس معاف ہونے کی وجہ سے مصر کی رعایا کو فراغت ہوئی-

بعد کچھ عرصہ کے شاہ مصر مر گیا اور کوئی والی وارث اس کا نہ تھا جو تحت پر بیٹھتا اور امور سلطنت کو سنبھالتا- پس بادشاہ کو دفنانے کے بعد تین روز تک تعزیت کی اور چوتھے روز تمام شہر کے لوگ قاضی، مفتی، عالم، فاضل، غریب غربا، چھوٹے بڑے سب بادشاہی دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات پر غور و فکر کرنے لگے کہ اب تحت شاہی پر کس کو بٹھایا جائے- کیونکہ بنا بادشاہ کے ملک ایسے ہی تھا جیسے کہ بنا سر کے دھڑ- چونکہ ان لوگوں نے فرعون سے نیکی دیکھی تھی کہ تین برس کا خزانہ رعیتوں پر معاف کیا تھا اور وہ سارا تین برس کا خزانہ اپنی طرف سے شاہی خزانے میں داخل کیا تھا اور علاوہ اس کے وہ سارے ٹیکس بھی معاف کئیے تھے جو شاہی سپاہی عوام سے بیوجہ لوٹتے تھے- اس لیے سب اس سے خوش تھے اور اسے اپنا خیر خواہ جانتے تھے- پس یہ خیر خواہی دیکھ کے سبھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فرعون ہی ہمارے لیے بہتر بادشاہ ہے اور اس مردوود کو تحت پر جا بٹھایا-

جب یہ ملعون مصر کا بادشاہ ہوا تو اس نے ہامان ملعون کو اپنا وزیر منتخب کیا چونکہ اسی کی تدبیر اور مشورے سے فرعون تحت شاہی تک پنہچا تھا- تب کہنے لگا کہ اب ملک مصر مسلم ہمارے ہاتھ آیا اور ہم یہاں کے بادشاہ ہوئے- اور ہامان سے کہا کہ پس اب کوئی ایک ایسی تدبیر کرنا چاہئے کہ خلائق مجھ کو خدا کہے اور معبود جانے اور میری پرستش کرے مجھے سجدہ کرے- لعنتہ اللہ علیہ-
تب ہامان ملعون نے یہ اصلاح دی کہ سب سے پہلے پورے ملک مصر میں یہ حکم جاری کرنا چاہئیے کہ علماء فضلا جتنے ہیں ہماری حکومت میں کوئی تعلیم نہ دینے پاویں سب درس و تدریس موقوف کر دیئے جائیں- تب آہستہ آہستہ لوگ اپنے دین سے دور اور بےخبر ہوتے جاویں گے اور جو آئندہ پیدا ہونگے لڑکے بالے سب کے سب بےعلم اور جاہل ہونگے- اس طرح آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے دین سے برگشتہ ہونگے اور کوئی علم ان کو دین کا نہ ہو گا۔

پس ہامان کے کہنے پر فرعون نے سارے ملک میں حکم جاری کروا دیا کہ اب سے ہمارے ملک میں کوئی عالم فاضل دین کی تعلیم نہ دینے پاوے اور نہ ہی کوئی اور تعلیم اور تمام درس و تدریس بند کروائے اور حکم جاری کیا کہ جو کوئی تعلیم سیکھتا سکھاتا دیکھا گیا اسے قتل کر دیا جائے گا- پس اس طرح سارے ملک میں تعلیم و تعلم کا باب موقوف کروا دیا-

چنانچہ اس خوف سے سب نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا اور علماء میں سے جنہوں نے اس کی بات سے انکار کیا انہیں ملعون نے قتل کروا دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی مدت میں تمام لوگ جاہل بن گئے اور دین مذہب سے کوسوں دور ہو گئے- اور اپنے خدا واحد کو بھلا کر مثل جانوروں کے ہو گئے-

مصر میں تب دو قومیں آباد تھیں ایک قوم "قبطی” اور دوسری قوم "بنی اسرائیل”؛ قبطی قوم وہ قدیم مصری تھے جو حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے سے ہی مصر میں آباد تھے- اور بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے- چونکہ حضرت یعقوب کا ایک لقب اسرائیل بھی تھا اسی نسبت سے آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے-

لہذا جب لوگ مکمل طور پر جاہل ہو گئے تو ہامان نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اب لوگوں کو بت پرستی کی طرف بلاو- چنانچہ فرعون ملعون نے لوگوں کو بت پرستی پر لگا دیا- تب قبطی قوم تو بت پرستی پر مائل ہو گئی اور فرعون کی باتوں پر عمل کرنے لگی- لیکن بنی اسرائیل کی قوم چونکہ اندر سے ابھی بھی حضرت یوسف کے دین پر قائم تھی سو انہوں نے بت پرستی سے صاف انکار کر دیا- پس فرعون ملعون ان پر زیادتی کرتا اور قبطی قوم کو خوب نوازتا اور قوم بنی اسرائیل کو ان کے خادموں میں رکھتا اور تمام نیچ کام بنی اسرائیل کے ذمے کیے اور ان پر ظلم ڈھاتا اور اسی طرح عرصہ بیس برس کا گزرا-

بعد اس کے لعین نے لوگوں کو پکار کر کہا کہ میں ہوں تمہارا رب سب سے- یعنی ان بتوں سے بھی بڑا خدا میں ہوں سو مجھے سجدہ کرو اور معبود جانو اور میری پرستش کرو اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے نوازا جائے گا اور جو انکار کرے گا اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے گا- پس قوم قبطی نے فرعون کو پوجنا اختیار کیا اور اسی طرح چالیس سال کا عرصہ گزرا اور بعد اس کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کہا اب سے میں تنہا تمہارا رب ہوں پس میری پرستش کرو-

قوم قبطی جو فرعون کو پوجنے اور سجدہ کرنے والے تھے انہیں پر خوب نوازش کرتا اور بنی اسرائیل کو تکلیف دیتا کہ وہ یوسف بن یعقوب علیہم السلام کے دین پر تھے- اور بعوض جزیہ کے فرعون ان سے قبطیوں کی خدمت کرواتا اور تحقیر کرتا اور جن کاموں کو حقیر سمجھتا مثل محنت اور بار اٹھانا، لکڑی چیرنا، چنا دلنا، گھاس کاٹنا، جھاڑو کشی کرنا اور گوہ گوبر پھینکنا، علی ہذالقیاس ان سب کاموں میں مقرر کیا تھا- اور علاوہ اس کے انہیں شہر اور دیہاتوں میں اپنے تابعین کی خدمت میں بھیج دیتا اور ان کی عورتوں سے اپنی عورتوں کی خدمت کرواتا- الغرض ہر طرح سے ان کی تذلیل کرتا اور ان کی عزت و وقار نہ کرتا-

مذکور ہے کہ ایک عورت جن کا نام آسیہ تھا بنی اسرائیل سے تھیں اور اپنے آباو اجداد کے دین پر مضبوطی سے قائم تھیں- اور وہ اپنے حسن و خوبی اور عادات و خصائل اور اعلی اخلاق کی وجہ سے شہرت رکھتی تھیں انہیں فرعون نے اپنے نکاح میں رکھا تھا- اور بعضوں نے کہا کہ فرعون نے انہیں اپنی عقیدت مند سمجھ کر عزت کیساتھ اپنے محل میں رکھا ہوا تھا مگر وہ اپنے دین میں مضبوط تھیں اور کوئی کام خلاف شرع نہ کرتیں-

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ عورتوں کی پاکی اور بزرگی بیان کی ہے ؛ ایک حضرت موسی کی ماں دوسرا مریم بنت عمران اور حضرت خدیجتہ الکبری بنت خویلد (حضور پاک کی زوجہ) ایک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بی بی آسیہ رضی اللہ عنہما اجمعین کی کہ یہ سب صالح تھیں-

الغرض قوم بنی اسرائیل ایک مدت تک فرعون کے عذاب میں اور اس کی قوم کی خدمت گزاری میں گرفتار رہے- زن و مرد اس قوم کی خدمت گزاری اور بار برداری میں رہتے اور صبر کرتے- پھر بھی اپنے دین کے خلاف نہ چلتے اور شب و روز اللہ کی یاد اور استغفار میں مصروف رہتے اور خدا کی عبادت کرتے۔

تبصرے بند ہیں۔