ابتلاء و آزمائش کا قرآنی فلسفہ

قمر فلاحی

ابتلاء و آزمائش اللہ تعالی کی سنت ہے۔ اللہ تعالی حسنات اور سیئات اچھی اور بری دونوں چیزوں سے آزماتا ہے اور اس آزمائش کا مقصد یہ ہوتا ہیکہ بندے اللہ کی طرف رجوع کریں۔[الاعراف ۱۶۷] اسی طرح اللہ تعالی خیر اور شر دونوں چیزیں دیکر آزمایا کرتا ہے۔[الانبیاء ۳۵]

اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور ہمیں آزمائے گا خوف سے ،بھوک سے،مال کی کمی سے،جان کی کمی سے،اور پھلوں میں کمی سے اور اس میں جومسلمان اپنے موقف پہ ٹکے رہیں گے انکے لیے جنت کی بشارت ہے۔ گویا آزمائشوں پہ صبر جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ [البقرہ ۱۵۵] اللہ تعالی کا فضل و اکرام آزمائش کیلئے ہوتا ہے اسے پاکر بندہ اس چیز کو اللہ تعالی کی عنایت سمجھ کر شکر بجا لاتا ہے یا اپنا سمجھ کر ناشکرا بن بیٹھتاہے۔ جیساکہ سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب پلک جھپکتے ہی تخت بلقیس حاضر کر دیا گیا تو سلیمان علیہ السلام نے رب کا شکر ادا کیا۔ [النمل ۴۰]

اللہ تعالی کبھی مومنوں کو کافروں کے آمنے سامنے جنگ کرنے کو ڈال دیتا ہے اس میں بھی آزمائش ایمان ہوتا ہے اور ایسے موقع پہ اللہ کی مدد بھی ہوتی ہے۔[الانفال ۱۷]

اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو احکامات شریعت،مناسک حج،ذبح پسر، ہجرت،اور نار نمرود وغیرہ سے آزمایا اور اس امتحان میں ابرہیم علیہ السلام کھرے اترے۔ [البقرہ ۱۲۴] ذبح پسر البلاء المبین تھا [الصافات ۱۰۶]

یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ آزمائش نیک بندوں کی بھی ہوتی ہے اور کسی گناہ کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے۔

انسانوں کی خصلت یہ ہیکہ جب انہیں بطور آزمائش کے انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ نے انہیں نوازا ان کی تکریم کی اور جب اللہ تعالی بطور آزمائش کے ان کے رزق میں تنگی کر دیتا ہے تو وہی انسان بول اٹھتاہے کہ میرے رب نے تو میرا برا حال کر دیا ،مجھے رسوا کردیا۔ [الفجر ۱۵۔۱۶]

گویا نعمتیں ملنا اور رزق میں تنگی ہونا دونوں آزمائش الہی ہے۔

ظالم بادشاہوں کا مسلط کیا جانا کہ وہ مسلمانوں کی عزت و ناموس اور جان و مال کی پرواہ نا کرے یہ بھی ایک بڑی آزمائش ہے۔ بلاء من ربکم عظیم [البقرہ ۴۹] [الاعراف ۱۴۱]

آزمائش کا مقصد معیار کو پرکھنا ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کے کس درجہ پہ قائم ہیں۔ولنبلونکم حتی نعلم المجاہدین منکم والصابرین و نبلو اخبارکم۔ [محمد ۳۱]

دنیا کی چیزوں کو مزین کر دیا ہے تاکہ اللہ تعالی مومنوں کے اعمال کو دیکھے کہ کن کے اعمال احسن ہیں عمدہ ہیں۔ [الکھف ۷]

اللہ تعالی چاہے تو تمام لوگوں کو ایک امت بنادے مگر اللہ تعالی بندوں کو آزمانا چاہتا ہے ان چیزوں میں جو اس نے بندوں کو عطا کی ہے۔ [المائدہ ۴۸]

موت و حیات کو بھی مخلوق بنایا اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندے اپنے اعمال میں حسن پیدا کریں۔ [الملک ۲] یعنی زندگی اور موت بھی اللہ کے تابع ہے جب جس حالت میں چاہے وہ اسے بدل دے گا، کم از کم اس خوف سے بھی تو بندہ اچھے اعمال کرے کہ اسے مرنا ہے ،روز زندگی اور موت کا تماشہ وہ اپنے گرد ہوتے دیکھتا رہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔