انسان اور زمین کی حکومت (قسط 60)

رستم علی خان

چنانچہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا کہ اللہ سے پوچھ دیں کہ وہ گائے کیسی ہونی چاہئیے- پس جناب موسی نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ  وہ گائے نہ تو بوڑھی ہے اور نہ ہی بچھڑا ہے بلکہ ان کے درمیان میں یعنی پوری طرح سے جوان ہے- اور اب جاو اور حکم کی تعمیل کرو- تب پھر کہنے لگے اے موسی اپنے رب سے یہ بھی پوچھ دیں کہ وہ خاص گائے کس رنگ کی ہے تاکہ آسانی رہے ڈھونڈنے میں- تب فرمایا حضرت موسی نے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس کا رنگ خوب زرد ہے اور ایسا کہ دیکھنے والوں کو پسند آ جاتی ہے- تب پھر کہنے لگے کہ اے موسی ایسی تو کتنی گائیں ہوں گی- پس ہمیں اس خاص گائے کی کوئی اور نشانی بتا دی جائے تاکہ ہم کسی شبہ میں نہ رہیں اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ضرور راہ پاویں گے اور اس مطلوبہ گائے کو آسانی سے ڈھونڈ لیں گے- تب حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے کہ نہ اس سے کسی طرح کا کوئی محنت والا کام نہیں لیا گیا ہو- نہ اس سے زمین میں ہل چلایا گیا ہو کہ پھاڑے زمین کو اور نہ ہی اسے کنوئیں میں جوتا گیا ہو کہ پانی دیتی ہو زمینوں کو- اور نہ ہی کسی بیل سے اس کا ملاپ ہوا ہو- ہر طرح سے تندرست ہو اور کوئی داغ (بیماری یا زخم وغیرہ کا)  اس میں نہ ہو-

تب کہنے لگے کہ اب ہم تک ٹھیک بات پنہچی ہے اور اب ہم ضرور ایسی گائے ڈھونڈ لیں گے اور اب ہم زبح کریں گے اسے- تب اس صفت کی حامل گائے تلاش کرنے لگے- حضرت جبرائیل نے صورت ایک اجنبی مرد کے آ کر ان کو فرمایا کہ بنی اسرائیل میں فلانے شخص کے پاس ان صفات کی حامل گائے موجود ہے- جس کی تم لوگوں کو تلاش ہے- لیکن قیمت اس کی اس کے چمڑے بھر کے روپوں برابر ہے سو جو چاہے خریدے-

قصہ گائے کا یوں ہے کہ ایک شخص بنی اسرائیل میں مرد صالح نیک بخت تھا- ایک بیٹا اس کا تھا چھوٹا اور ایک گائے تھی- اپنے بیٹے کے لیے اس گائے کو جنگل میں خدا پر سونپا کہ الہی جب میرا بیٹا بڑا ہو گا تو یہ گائے اس کو دیجئو- اور وہ گائے جب بڑی ہوئی جنگل میں اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا تھا- اور جنگل میں جدھر چاہتی کھاتی پیتی اور آزاد گھومتی اور خوب موٹی تازی ہوئی-

ادھر جب وہ لڑکا جوان ہوا تو خوب نیک بخت صالح اپنی ماں کی خدمت کرتا- اور شب کے تین حصے کرتا، اول میں سوتا، دوسرے حصے میں عبادت کرتا اور تیسرا حصہ اپنے باپ کی قبر کی زیارت کرتا- جب فجر ہوتی جنگل و میدان میں جا کر لکڑیاں چن کر لاتا اور اسے بیچ کر اس کی قیمت کے بھی تین حصے کرتا، ایک حصہ فقرا اور مساکین کو صدقہ کرتا، اور ایک حصہ اپنی ماں کو دیتا، اور ایک حصے سے خود کچھ کھا لیتا-

ایک دن اس کی ماں نے اس سے کہا، اے بیٹا تیرا باپ فلانے جنگل میدان میں تیرے لیے ایک گائے خدا پر سونپ کر گزر گیا ہے- لہذا تو اس جنگل میں جا اور ابراہیم و اسماعیل اور اسحق کے رب سے اسے مانگ تب اللہ نے چاہا تو وہ گائے ضرور تیرے ہاتھ آئے گی ورنہ کسی صورت کسی کے ہاتھ نہیں آتی- اور نشانی اس کی یہ ہے کہ رنگ اس کا سورج کی پہلی کرن کی طرح زرد ہے- اور چمک اس میں خوب ہے اور موٹی تازی ایسی کے دیکھنے والے کو خوش آتی ہے- پس اب جا اور اللہ سے اسے مانگ لے-

چنانچہ وہ لڑکا میدان میں گیا اور جا کر کہا، الہی جو گائے میرے باپ نے اس میدان میں میرے لیے تجھ پر سونپی ہے سو وہ مجھے دے- پس وہ گائے خدا کے حکم سے اس لڑکے کے سامنے آ حاضر ہوئی اور بولی، اے لڑکے نیک فرمانبردار اپنے ماں باپ کے میری پیٹھ پر بیٹھ کہ میں تجھے لے چلوں یہاں سے اور میں تیری فرمانبردار ہوں- اس لڑکے نے کہا میری ماں نے مجھ سے نہیں کہا تیری پیٹھ پر بیٹھنے کو، مگر اتنا کہا ہے کہ تجھے پکڑ کر لے جاوں۔

پس وہ جوان اس گائے کو پکڑ کر گھر کی طرف چلا- اس وقت شیطان بصورت رکھوالے کے اس کے آگے آ کر بولا، اے جواں مرد میں اس کا پاسبان ہوں اور اس پر اپنا سامان لاد کر گھر کو جا رہا تھا کہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے رکا سو میں ادھر مشغول ہو گیا اور یہ گائے مجھ سے چھوٹ کر بھاگ آئی- پس مجھ میں طاقت نہ تھی کہ اسے پکڑوں- اب میں نے اسے یہاں تمہارے پاس پایا- اب تم مجھ کو اس پر سوار کر کے گاوں تک پنہچا دو- تو جو تمہاری اس میں مزدوری ہو گی سو مجھ سے لے لینا-

اس نیک جوان نے کہا جا خدا پر بھروسہ رکھ- جب تیرا ایمان کامل ہو گا خدا تعالی تجھ کو بےتوشہ بےسواری تمہاری منزل مقصود تک پنہچا دے گا- تب شیطان نے کہا اگر تم چاہو تو اس گائے کو میرے ہاتھ فروخت کر دو- تم اس کی جو قیمت کہو گے سو میں ادا کرنے کو تیار ہوں- اس نوجوان نے کہا میری ماں نے مجھے گائے بیچنے کو نہیں کہا بس پکڑ لانے کو کہا- اتنا کہہ کر قدم آگے بڑھایا-

اچانک اس گائے کے پیٹ کے نیچے سے ایک پرند جانور اڑا اور گائے بھی اس کے ساتھ بھاگ گئی- تب اس نے پھر پکارا اے گائے برائے خدا میرے پاس واپس آ- چنانچہ گائے نے آ کے اس  سے کہا اے نوجوان جو مجھ کو لیکر بھاگا وہ کوئی مرغ نہ تھا بلکہ شیطان تھا جو مجھ پر سوار ہو کر بھاگا تھا- جب تو نے خدا کا نام لیا تو ایک فرشتہ نگہبان آیا اور مجھے اس سے چھڑا لیا-

الغرض وہ جوان گائے لیکر اپنی ماں کے پاس آیا- اس کی ماں نے کہا، اے بیٹا ! ہم غریب ہیں کچھ پیسے روپے خرچ کھانے کو نہیں- تو اس گائے کو لے جا کر بیچ ڈال- تب اس نوجوان نے پوچھا کہ کتنے میں بیچوں- اس کی ماں نے کہا، تین اشرفی میں بیچنا-

تب بازار میں لے گیا- ایک فرشتہ صورت مرد کی خدا کی طرف سے اس کے پاس آیا اور گائے کی قیمت پوچھی کہ کتنے میں بیچو گے- نوجوان نے کہا تین دینار میں بیچتا ہوں- فرشتے نے کہا نہیں بلکہ اسے چھ دینار میں بیچو- تب جوان نے کہا کہ نہیں میری ماں نے چھ دینار میں بیچنے کو نہیں کہا- بلکہ تم گائے کے وزن برابر روپیہ دو گے تو بھی بےحکم ماں کے نہیں بیچوں گا- اور واپس آ کر ماں سے کہا  کہ بازار میں ایک آدمی گائے کی قیمت چھ دینار بتاتا ہے- سو اس کی ماں نے رضا دے دی-

تب پھر واپس آیا تو فرشتے نے کہا کہ اب اس کی قیمت بارہ دینار دوں گا- چنانچہ جوان واپس ماں کے پاس گیا اور کہا کہ اب قیمت بارہ دینار ہے- تب اس کی ماں نے کہا کہ ممکن ہے وہ کوئی خدا کی طرف سے بھیجا گیا فرشتہ ہو اور فائدہ بتا رہا ہو- پس اس سے جا کے پوچھو جیسا کہے ویسا کرو-

پس وہ لڑکا واپس آیا بازار میں تو دیکھا وہ مرد وہیں کھڑا ہے- پھر فرشتے نے لڑکے سے کہا کہ ابھی مت بیچو گائے کو اور اپنی ماں سے جا کے کہو کہ اس گائے کو موسی بن عمران کے آنے تک اپنے پاس ہی رکھے- کیونکہ بنی اسرائیل میں ایک شخص قتل ہو گیا ہے اور قاتل اس کا کسی کو معلوم نہیں- پس اس کو وہ خریدے گا اور بدلے میں اس کے چمڑے بھر روپے وزن کر کے تم کو دے گا-

چنانچہ جب حضرت موسی وہاں پنہچے تو اس نوجوان کے پاس انہیں صفات کی حامل گائے پائی جو اللہ نے بیان فرمائیں تھیں- جب قیمت کے متلعق دریافت کیا تو انہوں نے فرشتے سے ہونے والے کلام بارے بتلایا- تب جناب موسی نے وہ گائے اس نوجوان سے خریدی اور اسے زبح کیا- اور بدلے میں اس کے چمڑے بھر وزن کے برابر روپے اس نوجوان کو دئیے-

اور زبان اس کی کاٹ کر اس مقتول شخص عامیل پر رکھ دی- اور خدا کے حکم سے وہ جی اٹھا- اس کی رگوں میں سے اور گلے سے خون جاری ہوا- تب اس نے باآواز بلند اور فصیح زبان سے کہا، اے لوگو گواہ رہو مجھ کو گاوں والوں نے نہیں مارا بلکہ میرے بھتیجے نے مجھے دولت کی لالچ سے مارا ہے اور اتنا بول کر دوبارہ مر گیا-

تب حضرت موسی علیہ السلام نے اس مقتول کے بھتیجے سے قتل کا قصاص لیا اور اسے قتل کر دیا- اور تمام مال و اسباب اس کا غریبوں مختاجوں اور فقیروں میں بانٹ دیا- تب وہاں کے لوگوں نے قاتل کے شر سے امان پائی اور حضرت موسی پر ایمان لائے۔

روایت کی گئی ہے کہ حق تعالی نے حضرت موسی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ زمین شام مقدس کی تم کو دوں گا- جابروں اور ظالموں کو مار کر وہاں سے نکال باہر کر دو- اور مقام اجداد بنی اسرائیل جو کنعان میں تھا مصر میں ہوا- بعد اس کے اللہ تعالی نے حکم کیا کہ تمام شام میں خدا کے دشمنوں سے جہاد کرو- اور اللہ نے حضرت موسی کے ساتھ وعدہ فتح کا کیا تھا- چنانچہ حکم نازل ہوا کہ اے موسی قوم بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں سے بارہ افراد سردار منتخب کرو اور ہر قبیلے کا ایک سردار ہونا چاہئیے- اور ہر ہر قبیلہ اپنے اپنے سردار کے تابع اور ہماری رضا پر رہیں- اور یہ کہ ان کا سردار جو حکم کرے ان پر سو وہ اس کو عمل میں لاویں- اور حق تعالی فرماتا ہے؛ "اور اٹھائے ہم نے ان میں بارہ سردار”-

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام ان سب کو ساتھ لیکر جب کنعان میں پنہچے تو سرداروں کو شام کی اطراف میں بھیجا کہ وہاں کے حاکموں اور جابروں کی خبر لیں- انہیں اول دعوت حق کی پنہچائیں اور پیغام اللہ کا سنائیں کہ اس نے یہ زمین ہمیں عطا کی ہے سو اب وہ لوگ ہماری اطاعت میں رہیں گے- اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں جنگ سے خبردار کر کے آئیں- اور حالات تمام وہاں کے دریافت کریں-

چنانچہ وہ لوگ شام میں پنہچے وہاں کا حاکم اس وقت عوج بن عنق تھا دراز قامت اور قوی الجثہ شخص تھا- اس کے بارے قصص النبیاء میں آتا ہے کہ وہ اس قدر دراز قامت تھا کہ سمندر میں اترتا تو پانی اس کے گھٹنوں تک بمشکل آتا- سمندر میں اتر کر ہاتھ سے مچھلیاں پکڑتا اور چشمہ آفتاب سے انہیں بھون کر کھاتا تھا- واللہ اعلم الصواب-

اس کے بارے روایت ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے حضرت موسی کے دور تک حیات پائی تھی اور طوفان نوح کشتی والوں کے سوا یہ ایک واحد شخص تھا جو بچا تھا- اس کی ماں کا نام صفورا اور باپ کا نام عنق تھا- واللہ اعلم الصواب-

القصہ جب موسی کے بارہ سردار اس کے پاس گئے تو اس نے ان سے حال ان کا پوچھا کہ کون ہو، کہاں سے آئے ہو، اور یہ کہ کہاں جاو گے- چنانچہ حضرت موسی کے سرداروں نے حال اپنا تمام اس سے بیان کیا اور آنے کی وجہ بتائی- اول تو وہ بہت ہنسا بعد میں ان سب کو پکڑ کر اپنی بیوی کو دکھانے کے لیے لایا اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ سب مجھ سے لڑنے کو اور میری حکومت پر قبضہ جمانے کے واسطے آئے ہیں- اور یہ کہہ کر انہیں زمین پر ڈالا اور چاہا کہ ان سب کو چیونٹی کی طرح اپنے پاوں کے نیچے مسل دے- تب اس کی بیوی نے اسے روکا اور کہا کہ، ان کو کیوں بیکار مارتا ہے یہ سب تو تیرے آگے ضعیف اور ناتواں ہیں لہذا انہیں چھوڑ دے تاکہ یہاں سے چلے جائیں- اور تیرا حال جا کر لوگوں میں بیان کریں جس سے تیرا شہرہ ہو گا اور لوگ ڈریں گے- لہذا ان کو مارنا بےفائدہ ہے- تب ان سب کو چھوڑ دیا-

تب وہ شہر کے طاقتوروں کی حقیقت اور کثرت دریافت کر کے ڈر گئے- اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس بارے اپنی قوم کو نہیں بتانا چاہئیے کہ وہ لوگ بزدل ہیں- اور ممکن ہے یہ حال جان کر وہ لوگ جہاد اور لڑائی سے بھاگ نکلیں گے- البتہ اس کا احوال موسی و ہارون علیہم السلام سے جا کے کہنا چاہئیے- پھر اللہ کا جو حکم ہوا-

پس وہ لوگ واپس آئے اور جو جو کچھ وہاں دیکھا تھا تمام حالات جو دریافت کئیے تھے حضرت موسی سے بیان فرمائے- اور کچھ چیزیں جو وہاں سے لائے تھے دکھائیں کہ جن سے وہاں کے رہنے والوں کے حالات کا پتا چلتا تھا-

پس ان میں سے دس سرداروں نے عہد شکنی کی اور جو جو حال وہاں دیکھا اور عوج بن عنق کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور اپنے بچ نکلنے کا سارا احوال قوم سے جا کہا- اور وہ خود ڈرے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طریق سے جہاد اور لڑائی سے جان چھوٹ سکے- اور دو سرداروں  یوشع اور کالوت نے عہد شکنی نہ کی-

تب بزدل قوم نے جب یہ حالات جانے تو چاہا کہ جہاد میں نہ جاویں اور لڑائی سے بچنے کو حیلے بہانے تراشنے لگے- تب حضرت موسی نے فرمایا اے قوم نہ ڈرو اور مت بھاگو لڑائی سے کہ میرے اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تم کو ان کافروں پر فتح دے گا اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

تبصرے بند ہیں۔