ہاں میں ’فتویٰ‘ ہوں!

نازش ہما قاسمی

ہاں! فتویٰ۔۔۔ جی وہی فتویٰ جسے معتبر مفتی حضرات قرآن وسنت اجماع وقیاس کی روشنی میں دیتے ہیں۔ جس کا میدان ایمانیات و عقائد، فرق وملل، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق ہے۔ ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جس کے سب سے پہلے مفتی خود حضور اقدس ﷺ ہیں۔ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جسے دینے کےلیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضوراکرم ﷺ وسلم نے یمن میں بھیجا تھا۔

ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جس کو حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی رہنمائی کےلیے دیا، ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے دیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت عبداللہ بن عمر ؓاور حضرت زید بن ثابت ؓ نے دینی مسائل میں رہنمائی کی۔ ہاں وہی فتویٰ ہوں جسے مدینہ میں سعید بن المسیب، عروة بن زبیر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، قاسم بن محمد، سلیمان بن یسار، خارجہ بن زید، ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہم اللہ تعالی نے دیا  اور مکہ مکرمہ میں عطاء بن ابی رباح، عبد الملک بن جریج، علی بن ابی طلحہ۔

 کوفہ میں ابراہیم نخعی، علقمہ، عامر بن شراحیل شعبی، بصرہ میں حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں مکحول رحمہم اللہ وغیرہ نے دیا۔ جسے امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے دیا۔ ہاں وہی فتویٰ جس کے ذریعے ۱۴؍سوسالوں سے رہنمائی کی جارہی ہے، ہاں وہی فتویٰ جسے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور برطانوی آبادکاروں کے تسلط کے بعد مدارس کے علماء و مفتیان کرام خصوصاً حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری، حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی،حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہم اللہ نے فقہ و فتوی کے سلسلے میں عظیم الشان خدمات انجام دیں اور ان حضرات کے فتاوی اور فقہی رہ نمائی نے مسلمانان برصغیر؛ بلکہ عالم اسلام تک کو فائدہ پہنچایا۔ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جس کے بارے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی رقمطراز ہیں ’’مفتی سے شرعی مسائل کے بارے میں جو سوال کیاجاتا ہے، وہ قرآن وحدیث اور فقہ کی کتابوں کی روشنی میں اس کا جواب دیتا ہے، اس کی حیثیت شرعی رہنمائی کی ہے، اور پوچھنے والا جو سوال کرتا ہے، ظاہر ہے اسی کے مطابق مفتی جواب دیتا ہے اسی کو فتویٰ کہتے ہیں، یہ بذریعہ طاقت کسی پر نافذ نہیں کیاجاتا او رنہ ہی کسی کو اس پر عمل کےلیے مجبور کیاجاتا ہے‘‘۔ ہندوستان میں بہت سارے فتوی کے مراکز ہیں جس میں سب سے زیادہ مشہور دارالعلوم دیوبند کا دارالافتا ہے، جہاں باصلاحیت مفتیوں کی ایک ٹیم جو نہایت ہی عرق ریزی سے قرآن وحدیث کے مطالعے کے بعد انتہائی  محتاط انداز  میں سائل کے سوال کا جواب دیتی ہے۔

اکثروبیشتر میڈیا میں دارالعلوم دیوبند کے ہی فتوئوں کی بازگشت رہتی ہے۔ اور یہیں کے فتوئوں کو توڑ مروڑ کر امت مسلمہ میں کنفیوژن پیدا کی جاتی ہے۔ کہ دارالعلوم دیوبند نے یہ فتویٰ دیا، دارالعلوم دیوبند نے وندے ماترم کے بارے میں یہ فتویٰ دیا، دارالعلوم دیوبند نے شیعہ فرقے کی روزہ افطاری سے متعلق یہ فتویٰ دیا، دارالعلوم نے اہل حدیث فرقے کے تعلق سے یہ فتویٰ دیا، وغیرہ وغیرہ۔ جان بوجھ کر ایسے مسائل ڈھونڈے جاتے ہیں اور امت مسلمہ میں فتویٰ کی بنیاد پر دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 فتویٰ خالص مذہبی معاملہ ہے؛ لیکن مجھ پر پابندی عائد کرنے اور مجھ سے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کی ایک سازش چل رہی ہے۔ ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا اپنے قول کو فتویٰ کہہ کر اس کی اہمیت وافادیت سے کھلواڑ کررہا ہے۔ملحد وگستاخ رسول طارق فتح بھی اپنے قول کو ’فتویٰ‘ کہہ رہا ہے۔ دشمنان اسلام خوفزدہ ہیں کہ آخر یہ فتویٰ ہے کیا؟ اور مسلمان کیوں فتوئوں کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟ کیوں وہ مولویوں کی جماعت کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے پیراگراف پر عمل پیرا ہیں۔ اسی مقبولیت کو دیکھ کر میڈیا، فسطائی طاقتیں مسلمانوں کو فتویٰ سے برگشتہ کرنے کا کام کررہی ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ مسلمان ان مولویوں کے ادارے سے نکلے ہوئے فتوے کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اور مکمل رہنمائی حاصل کرتے ہیں اس لیے انہیں اس سے بدظن کردیاجائے؛ تاکہ وہ دین سے دور ہوجائیں، فتوئوں کو اتنا ہائی لائٹ کردیا جائے کہ اس کی اہمیت وافادیت ختم ہوجائے۔ واقعی اگر دشمنان اسلام فتوئوں کی اہمیت وافادیت کو ختم کردیتے ہیں تو ہندی مسلمان دین سے کٹ جائیں گے۔ جس مقصد کے تحت قاسم نانوتوی نے اسے اندلس ثانی بننے سے بچایا تھا وہ عنقریب اندلس بن جائے گا۔

ہاں میں وہی فتویٰ ہوں جسے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے دیا تھا۔ اسی فتویٰ کی بنیاد پر ہندوستان سے انگریزوں کا خاتمہ ہوا۔ اسی فتوے پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانان ہنداپنے وطن کو آزاد کرانے کےلیے تن من دھن سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہندوستان کو آزاد کرا کر دم لیا۔اگر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ نہ ہوتا تو ملک کبھی بھی آزاد نہ ہوتا اور ہم آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہوتےا۔۔۔آج ملک کے حالات اسی طرح کے ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو ہرجگہ مارا پیٹا جارہا ہے، ہر طرح سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے۔ میڈیا اور دشمن طاقتوں کو خوف ہے کہ کہیں پھر سے کوئی فتویٰ نہ دے دیاجائے جس کی بنیاد پر یہ دبے کچلے اور ستائے ہوئے مسلمان اُٹھ کھڑے ہوں، اس کے لیے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ عدلیہ میں جاکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں اور خالص دینی ومذہبی چیز کو مذہب میں مداخلت کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرناچاہتے ہیں۔ کسی کے بھی قول کو مفتی کا فتویٰ کہہ کر اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے۔ یہاں تک کے پنچایت کے فیصلے کوبھی سازشاً فتویٰ کہا جارہا ہے  اور حقیقی فتووں پر پابندی کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ سراسر آئین ہند کے منافی اور مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔

 نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں  مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی کے مضمون ’فتویٰ ماضی اور حال کے تناظر میں ‘ مطبوعہ ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1، جلد: 96 ‏، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ءسے مدد لی گئی ہے او رکہیں کہیں من وعن ان کے ہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔