کوڑا کرکٹ

اسماء طارق

شہر شہر   بن رہا ہے  کوڑا کرکٹ کی آماجگاہ

سڑکوں  پر جگہ جگہ ہے جس کا راج وہ ہے، کوڑا کرکٹ

دو پل  پدل چلنا بھی ہے محال ، کیونکہ ہے ہر جگہ ، کوڑا کرکٹ

آدھی سڑک ہے  گاڑیوں کے لیے، آدھی سڑک پر ہے، کوڑا کرکٹ

آتے ہیں جب افسر شاہی  یہاں  تو ہوتی  ہیں صاف سڑکیں

ویسے ہیں  یہاں ہرطرف لگے ڈھیر، کوڑا کرکٹ کے

تیرا سکول، میرا کالج ہے وہاں جس کہ باہر  ہے ڈھیر، کوڑا کرکٹ کا

آتے جاتے ہوتی ہے ملاقات  جراثیم اور بیماریوں سے

تیرا محلہ ہو میری گلی ہو یا سامنا والا خالی پلاٹ ہو

ہے ہر طرف لگے ہیں  ڈھیر بس کوڑا کرکٹ کے

گھر ہو سکول ہو یا ہسپتال اندر سے  چمکتے ہیں سب

باہر ہے ہر طرف یہاں وہاں  لگے  ڈھیر  کوڑا کرکٹ کے

اب تو عادت سی ہوگئی سب کو اس کی دلفریب مہک کی

اسی لیے تو پڑا  رہتا ہے ہر طرف یہاں کوڑا کرکٹ

مگر اس سب کے باوجود سب پھینکتے ہیں اپنا کوڑا  یہاں وہاں

ایسے میں  کیسے کم ہو یہاں  سے کوڑا کرکٹ

نالے ہیں بھرے رہتے ہیں سارا سال کوڑا کرکٹ سے

مجال ہے جو آئے خیال کسی کو صفائی کا

بارش جو ہو  اب یہاں  تھوڑی سی بھی

سیلاب آ جاتا ہے پورے شہر میں، کوڑا کرکٹ

میونسیپلٹی کی تو  بات ہی آپ چھوڑ دیں

گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے  مٹھی نید وہ تو

ان کی بلا سے  پڑا رہے ہر طرف  یہاں کوڑا کرکٹ

اور بے شک بن جائے پورا شہر بیماریوں کا مرکز

وہ تو اب اٹھیں گے جب آئیں  گے کوئی اعلی حکام

تب تک  لگے  رہیں  شہر میں ڈھیر کوڑا کرکٹ کے

تبصرے بند ہیں۔