اسماء طارق
شہر شہر بن رہا ہے کوڑا کرکٹ کی آماجگاہ
سڑکوں پر جگہ جگہ ہے جس کا راج وہ ہے، کوڑا کرکٹ
…
دو پل پدل چلنا بھی ہے محال ، کیونکہ ہے ہر جگہ ، کوڑا کرکٹ
آدھی سڑک ہے گاڑیوں کے لیے، آدھی سڑک پر ہے، کوڑا کرکٹ
…
آتے ہیں جب افسر شاہی یہاں تو ہوتی ہیں صاف سڑکیں
ویسے ہیں یہاں ہرطرف لگے ڈھیر، کوڑا کرکٹ کے
…
تیرا سکول، میرا کالج ہے وہاں جس کہ باہر ہے ڈھیر، کوڑا کرکٹ کا
آتے جاتے ہوتی ہے ملاقات جراثیم اور بیماریوں سے
…
تیرا محلہ ہو میری گلی ہو یا سامنا والا خالی پلاٹ ہو
ہے ہر طرف لگے ہیں ڈھیر بس کوڑا کرکٹ کے
…
گھر ہو سکول ہو یا ہسپتال اندر سے چمکتے ہیں سب
باہر ہے ہر طرف یہاں وہاں لگے ڈھیر کوڑا کرکٹ کے
…
اب تو عادت سی ہوگئی سب کو اس کی دلفریب مہک کی
اسی لیے تو پڑا رہتا ہے ہر طرف یہاں کوڑا کرکٹ
…
مگر اس سب کے باوجود سب پھینکتے ہیں اپنا کوڑا یہاں وہاں
ایسے میں کیسے کم ہو یہاں سے کوڑا کرکٹ
…
نالے ہیں بھرے رہتے ہیں سارا سال کوڑا کرکٹ سے
مجال ہے جو آئے خیال کسی کو صفائی کا
…
بارش جو ہو اب یہاں تھوڑی سی بھی
سیلاب آ جاتا ہے پورے شہر میں، کوڑا کرکٹ
…
میونسیپلٹی کی تو بات ہی آپ چھوڑ دیں
گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے مٹھی نید وہ تو
…
ان کی بلا سے پڑا رہے ہر طرف یہاں کوڑا کرکٹ
اور بے شک بن جائے پورا شہر بیماریوں کا مرکز
…
وہ تو اب اٹھیں گے جب آئیں گے کوئی اعلی حکام
تب تک لگے رہیں شہر میں ڈھیر کوڑا کرکٹ کے
تبصرے بند ہیں۔