انسان اور زمین کی حکومت (قسط 67)

رستم علی خان

روایت نمبر4:

بنی اسرائیل میں تین سگے بھائی تھے۔ ایک ان میں عالم تھا ایک زاہد اور ایک عابد، ان میں سے ایک کو امیری مل گئی وہ حکومت کرنے لگا اور بے حد بدراہ ہو گیا۔ اس بادشاہ کے پاس اس کا ایک بھائی گیا اور تنبیہ کی اور کہا کہ خدا کے لیے راہ راست پر آجاؤ، گناہ ترک کردو اور مثل سابق بن جاؤ۔ اس بدراہ بادشاہ نے کہا کہ میں نے قلیل عرصے میں کثیر گناہ کرڈالے ہیں اور اب میرے بخشے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بھائی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، خداوند عالم بڑے سے بڑا گناہ بخشتا ہے تم توبہ کرو، خدا تمہیں معاف کر دے گا۔

بدراہ بادشاہ کے لیے اس کا نیک بھائی حضرت ذوالکفل علیہ اسلام کے پاس آیا اور سارا واقعہ سنایا۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے جواباً کہا کہ اگر وہ توبہ کرلے تو میں اس کے جنت میں لے جانے کا ضامن ہوں۔ اس بھائی نے اپنے بھائی کو بتایا کہ وہ جنت کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ بدراہ بادشاہ نے کہا کہ ان سے لکھوا دے، چنانچہ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام ضمانت نامہ لکھ کر، اس کے جنت میں لے جانے کے کفیں بن گئے۔ بنابریں آپ علیہ اسلام ذوالکفل علیہ اسلام کہا گیا۔

روایت نمبر5:

آپ علیہ اسلام سے کہا گیا کہ اس کا وعدہ کرو کہ قوم پر عذاب نازل نہ ہوگا تو آپ علیہ اسلام نے کہا کہ اگر قوم راہ راست پر رہے گی۔ گناہ نہ کرے گی تو اس پر عذاب نازل نہ ہو گا لہذا آپ علیہ اسلام کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام قرار پاگیا۔

روایت نمبر6:

آپ علیہ اسلام ہر شخص کی کفالت کرتے تھے اور اپنے ذمہ اس کا کام لے لیتے تھے۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے آپ علیہ اسلام کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام ہو گیا۔ یعنی ذمّہ داری لینے والا۔

روایت نمبر7:

حضرت ذوالکفل علیہ اسلام کو جہاد کا حکم ملا۔ آپ علیہ اسلام نے اپنی قوم سے جہاد کے لیے کہا۔ قوم نے اس شرط پر آمادگی کا اظہار کیا کہ موت نہ آنے پائے آپ علیہ اسلام نے خدا کی بارگاہ میں قوم کی عرضداشت پیش کی۔ خدانے منظور کیا اور حکم دیا کہ تم ان سے اس کی کفالت میری طرف سے کرلو، میں ان کی موتوں کو ان کی خواہش پر موقوف کردوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ سب ہر طرف محفوظ ہوتے رہے تو بے انتہا کثرت ہو گئی۔ پھر انہوں نے موت مانگی تب وہ مرنے لگے۔

چنانچہ حضرت ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے ۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے ۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کر دوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے ۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں- دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو-

پس کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں۔ یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی ۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا-

اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا- آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے۔

چنانچہ آپ نے فرمایا میں کل تیرا انتظار کرتا رہا لیکن تو نہ آیا- پس وہ مردود کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کر دیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کردیا- اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کر دئیے اور آج کی نیند بھی کھوئی- اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا ۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے-

پس آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا- اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا ۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا ۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے- اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا- اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کردکھایا ۔

( ابن ابی حاتم ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا- اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا-

اسی طرح ایک واقعہ شیطان کے ایک چیلے کا بیان ہوا کہ اس نے زمہ لیا کہ وہ ذوالکفل کو غصہ دلائے گا- چنانچہ آپ کے آرام کے وقت گیا اور اپنی قوم کا رونا رویا کہ مجھ پر ظلم و ستم کرتے ہیں- آپ نے فرمایا شام کو انہیں لے آنا میں تمہارا فیصلہ کر دوں گا- لیکن وہ مردود نہ آیا- پس اگلے دن پھر آیا اور کہا کہ وہ لوگ میرے ساتھ نہیں آتے- چنانچہ آپ نے اپنی انگشتری دی اور کہا یہ دکھانا اور کہنا زوالکفل بلاتے ہیں- پس آرام کا وقت گزر گیا- تیسرے دن پھر اسی وقت آیا اور رونے رونے لگا کہ وہ نہیں آتے- تب آپ نے اسے ایک خط لکھ کر دیا اور مہر لگائی اور کہا اب ضرور آئیں گے- پس چوتھے دن پھر حاضر ہوا اور کہا اے زوالکفل میں اپنی ہار مانتا ہوں کہ میں ایک شیطان کا چیلا ہوں اور چاہا تھا تمہیں غصہ دلاوں پس اسی واسطے سب کیا لیکن غصہ نہ دلا سکا سو اب میں نہیں آوں گا- واللہ اعلم الصوب

حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنو اسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا ۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا-  ایک منقطع روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے ۔ ایک غریب حدیث مسند امام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا ۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں ۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی ۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی ۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے- کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا- اور ایک میں ہوں جو آج تک اپنے مالک کی نافرمانی کرتا آیا ہوں- پس اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہو گیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے- اور گواہ رہنا کہ آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہو گیا- صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا پس جو اس کا جنازہ پڑھے گا اور تجہیز و تدفین میں شامل ہو گا میں اللہ اسے بھی بخش دوں گا.

ایک روایت کی مطابق جب آپ نے قوم کو جہاد کا کہا تو قوم نے کہا کہ اگر آپ زمہ لیں کہ ہم میں سے کوئی مرے گا نہیں تب جہاد کو جائیں گے- تب آپ نے دعا کی اور زمہ لیا کہ تم میں سے کوئی نہیں مرے گا جب تک کہ تین بار موت کی آرزو نہ کرے گا- تب ایک عرصے تک ان میں کوئی نہ مرا- جب لوگ بہت زیادہ ہو گئے اور طویل العمر ہونے کی وجہ سے ضعف نے انہیں مجبور کر دیا تب موت کی خواہش کی اور پھر موت نے انہیں آ لیا- چونکہ آپ نے اپنی قوم کی زندگی کا زمہ لیا تھا کہ جب تک موت کی خواہش تین بار نہ کرو گے موت نہ آے گی- اور اس زمہ داری کو نبھایا سو اس وجہ سے لقب زوالکفل ہوا- واللہ اعلم الصواب

اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت زوالکفیل حضرت خرقیل کا لقب تھا- جب بنی اسرائیل پھر سے سرکشی اور شرک و بدعات کی طرف مائل ہوئی تو اللہ تعالی نے ان پر خرقیل کو نبی بنا کر بھیجا- چنانچہ انہوں نے قوم کو دعوت حق دی- جو لوگ ان پر ایمان لے آئے اللہ تعالی کی طرف سے ان پر حکم نازل ہوا کہ کا فروں سے جہاد کرو-

تب ان لوگوں کو مرنے کا خوف ہوا کہ اگر جنگ میں گئے تو وہاں مر جائیں گے اس خیال سے جہاد میں جانے سے انکار کر دیا- تب حضرت زوالکفل ان سے نالاں ہو کر سات روزہ اعتکاف کا ارادہ فرما کر اپنے خجرے میں بئٹھ رہے-

ادھر قوم پر بسبب نافرمانی کہ اللہ کی طرف سے بیماری کی صورت عذاب نازل ہوا- اور ان پر علت یعنی طاعون کی وبا پھیل گئی- تب اس بیماری سے ہزاروں لوگ مر گئے- جو بچ گئے انہوں نے شہر سے نکل جانے کا قصد کیا کہ مبادہ ہمیں بھی بیماری ہلاک نہ کر دے- پس شہر سے ایک کوس دور گئے ہونگے کہ ایک مہیب چیخ نے انہیں آ لیا اور سب کے سب مر گئے- تب بسبب کثرت مردوں کی انہیں لا کر شہر میں دفن نہ کر سکے- تب چاروں طرف بڑی دیوار کھینچ کر سب مردوں کو وہاں لا کر رکھ دیا- آفتاب کی گرمی اور تپش سے سب لاشوں کا گوشت پوست پگھل اور سڑ کر بہہ گیا-

جامع التواریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے ان کو روایت کیا ہے کہ چار ہزار آدمی اس میں مرے تھے- اور حسن بصری نے کہا آٹھ ہزار آدمی اور وہب بن منبہ نے کہا اسی ہزار آدمی مرے تھے- واللہ اعلم الصواب

الغرض جب آپ بعد سات روز کے طواف سے اٹھے تو باہر نکل کر شہر کی حالت دیکھی تو بیت افسردہ ہوئے- اور جو لوگ شہر میں بچ رہے تھے انہوں نے آپ سے شکوہ کیا کہ اے خرقیل قوم پر عذاب کی نافرمانی کی وجہ سے آیا ہے پس اب آپ ہی ان کے حق میں اللہ تعالی سے دعا کریں- تب حضرت خرقیل نے اللہ سے دعا کی کہ الہی تو نے میری سب قوم کو ہلاک کر ڈالا- اور مجھ سے ان کا یہ حال دیکھا نہیں  جاتا- پس تو انہیں دوبارہ زندہ کر دے- تب حکم ہوا کہ اے خرقیل یہ سب موت کے خوف سے جہاد کے لیے نہ نکلے- پھر جب ان پر وبا نازل ہوئی تو موت کے خوف سے نکل کر بھاگے شہر سے- اور اللہ کی قبضہ قدرت پر یقین نہ کیا اس وجہ سے ان سب کو مار ڈالا اور اب پھر تمہارے کہنے سے زندہ کیا- چنانچہ ارشاد ہوا؛

"کیا تم نے نہ دیکھا ان لوگوں کو جب موت کے ڈر سے بھاگے اپنے گھروں سے نکل کر اور وہ تھے ہزاروں، پس واسطے ان لوگوں کے اللہ نے کہا مر جاو- پھر زندہ کیا، بیشک اللہ کا فضل ہے سب پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے-"

الغرض جب وہ لوگ واپس شہر میں آئے تو ان کے اور ان کی نسل کے جسم سے جب پسینہ نکلتا تو مردے کی بدبو آتی- اور وہ سب اپنی اپنی میراث پر جا بیٹھے اور کبھی متابعت اور کبھی مخالفت خرقیل کی کرتے اور آہستہ آہستہ دوبارہ بت پرستی شروع کر دی- تب حضرت خرقیل وہاں سے ہجرت فرما کر دیار شام زمین بابل میں جا بسے اور وہیں انتقال فرمایا اور درمیان دجلہ اور کوفے کے مدفون ہوئے- واللہ اعلم الصواب

تبصرے بند ہیں۔