انسان اور زمین کی حکومت (قسط 68)

رستم علی خان

گذشتہ اقساط میں یہ واضح ہو چکا کہ حضرت موسیٰ و ہارون ( علیہما السلام) کے بعد قرآن میں ان کے ابتدائی جانشینوں کے نام مذکور نہیں۔ حضرت یوشع علیہ السلام کا دوجگہ ذکر آیا، مگر ایک جگہ’’فتیٰ‘‘( جوان) یعنی صاحبِ موسیٰ علیہ السلام کہہ کر تذکر ہ کیا اور دوسری جگہ یعنی مائدہ میں حضرت یوشع علیہ السلام اور کالوت بن قتادہ کو ’’رجلان‘‘ دواشخاص کہہ کر تذکرہ کیا ہے اور حضرت حزقیل علیہ السلام کا ذکر جمہور کی روایت کے مطابق صرف قصہ کے ضمن ہی میں آتا ہے ورنہ آیت میں کسی صفت کے ساتھ بھی ان کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ سب سے پہلے جس نبی اور پیغمبر کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد قرآن عزیز میں صراحت کے ساتھ موجود ہے وہ حضرت الیاس علیہ السلام ہیں۔ یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کے جانشین اور بنی اسرائیل میں ایلیاء کے نام سے مشہور ہیں۔

قرآن عزیز نے ان کا نام الیاس بتایا ہے اور انجیل یوحنا میں ان کو ایلیاء نبی کہا گیا ہے ،بعض آثار میں ہے کہ الیاس اور ادریس ایک نبی کے دو نام ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اول تو ان آثار کے متعلق محدثین کو کلام ہے اور وہ ان کو ناقابل حجت قرار دیتے ہیں۔

دوسرے قرآن عزیز کا انداز بیان بھی ان آثار کی تردید کرتا ہے، اس لیے کہ اس نے انعام اور والصافات میں حضرت الیاس علیہ السلام کے جو اوصاف و حالات قلم بند کئے ہیں ان میں کسی ایک جگہ بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ان کو ادریس بھی کہتے ہیں اور سورئہ انبیاء میں ادریس علیہ السلام کا جس آیت میں تذکرہ ہے اس میں بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں پایا جاتا کہ جس سے ان دونوں پیغمبروں کے اوصاف و حالات کی مشابہت پر بھی استدلال کیا جا سکے، چہ جائیکہ ان حالات کو صرف ایک ہی شخصیت سے متعلق سمجھ لیا جائے۔

علاوہ ازیں مؤرخین نے حضرت ادریس علیہ السلام کا جو نسب نامہ بیان کیا ہے وہ اس نسب نامے سے قطعاً جدا ہے جو حضرت الیاس علیہ السلام سے متعلق ہے اور اس لحاظ سے دونوں کے درمیان صدیوں کا بُعد ہو جاتا ہے، پس اگر یہ دونوں نام ایک ہی پیغمبر کے ہوتے تو قرآن ضرور اس جانب اشارہ کرتا اور مؤرخین ضرور ہر دونسب ناموں کی وحدت کسی دلیل سے بیان کر سکتے، اس لیے صحیح یہ ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیانی دور کے پیغمبر ہیں اور حضرت الیاس علیہ السلام اسرائیلی نبی ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے ہیں، چنانچہ طبری کہتے ہیں کہ یہ حضرت الیسع علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے اور یہ کہ ان کی بعثت حزقیل علیہ السلام نبی کے بعد ہوئی ہے۔

نسب: بیشتر مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کا نسب نامہ یہ ہے:

’’الیاس بن یاسین بن فتحاص بن یعزار بن ہارون” یا "الیاس بن عازر بن یعزار بن ہارون علیہ السلام ‘‘

قرآن میں حضرت الیاس علیہ السلام کا ذکر دوجگہ آیا ہے، سورئہ انعام میں اور سورئہ الصافات میں۔ سورئہ انعام میں تو ان کو صرف انبیاء علیہم السلام کی فہرست میں شمار کیا ہے اور والصافات میں بعثت اور قوم کی ہدایت سے متعلق حالات کو مختصر طور پر بیان کیا ہے-

حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے متعلق مفسرین اور مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور بعلبک کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔

حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم مشہور بت بعل کی پرستار اور توحید سے بیزار شرک میں مبتلا تھی، خدا کے برگزیدہ پیغمبر نے ان کو سمجھایا اور راہ ہدایت دکھائی، صنم پر ستی اور کواکب پر ستی کے خلاف وعظ وپند کرتے ہوئے توحید خالص کی جانب دعوت دی۔

قوم الیاس کا بت بعل مشرق میں آباد سامی اقوام کا مشہور اور سب سے زیادہ مقبول دیوتا تھا، یہ بت مذکر تھا اور زحل یا مشتری کا مثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔

فینیقی، کنعانی، موآبی اور مدیانی قبائل خاص طور پر اس کی پرستش کرتے تھے،اس لئے بعل کی پر ستش عہد قدیم سے چلی آتی تھی اور موآبی اور مدیانی اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے پوجتے چلے آتے تھے ،چنانچہ شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی کے نام سے منسوب تھا اور حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین میں اسی کے پرستاروں سے واسطہ پڑا تھا، بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ حجاز کا مشہور بت ہبل بھی یہی بعل ہے۔

بعل دیوتا کی عظمت کا یہ حال تھا کہ وہ مختلف مربیانہ عطاء و نوال کی وجہ سے مختلف ناموں کے ساتھ موسوم تھا، چنانچہ تورات میں سامی قوموں کی پرستش بعل کا ذکر کرتے ہوئے بعل کو بعل بریث اور بعل فغور کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اورعقرونیوں کے یہاں بعل زبوب کا اور اضافہ پایا جاتا ہے کلدانیوں کے یہاں بعل با کے زیر کے ساتھ بولا جاتا ہے اور وہ اکثر بیلوس یا بعل اور بعلوس بھی کہتے ہیں۔

چنانچہ تورات میں سامی قوموں کی پرستش بعل کا ذکر کرتے ہوئے بعل کو بعل بریث اور بعل فغور کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے- اور عقرونیوں کے یہاں بعل زبوب کا اور اضافہ پایا جاتا ہے- کلدانیوں کے یہاں بعل باء کے زیر کے ساتھ بولا جاتا ہے اور وہ اکثر بیلوس یا بعل اور بعلوس بھی کہتے ہیں۔

سامی اور عبرانی زبانوں میں بعل کے معنی مالک، سردار، حاکم اور رب کے آتے ہیں اسی لئے اہل عرب شوہر کو بھی’’بعل‘‘ کہتے ہیں، لیکن جب بعل پر الف لام لے آتے ہیں یا کسی شے کی جانب اضافت کر کے بولتے ہیں تو اس وقت فقط دیوتا اور معبود مراد ہوتا ہے۔

یہود یا مشرقی اسرائیلوں کے یہاں بعل کی پرستش کے لئے مختلف موسموں میں عظیم الشان مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں اور اس کے لئے بڑے بڑے ہیکل اور عظیم الشان قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور کاہن اس کو بخورات کی دھونی دیتے  اور اس پر طرح طرح کی خوشبوئیں چڑھاتے تھے اور کبھی کبھی اس کو انسانوں کی بھینٹ بھی دی جاتی تھی- کتب تفسیر میں منقول ہے کہ بعل سونے کا تھا، بیس گز کا قد تھا اور اس کے چار منہ تھے اور اس کی خدمت پر چار سو خادم مقرر تھے۔

حضرت الیاس علیہ السلام کے زمانہ میں بھی یمن و شام کا یہ بت ہی محبوب دیوتا تھا اور حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم دوسرے بتوں کے ساتھ خصوصیت سے اس بت کی پرستش کرتی تھی چنانچہ اسی تقریب سے میں اس کا ذکر آیا ہے فرمایا؛

"جب کہا الیاس نے اپنی قوم کو کیا تم کو ڈر نہیں کیا تم پکارتے ہو بعل کو اور چھوڑتے ہو بہتر بنانے والے کو جو اللہ ہے رب تمہارا اور تمہارے اگلے باپ داداوں کا”

اور بعضوں نے کہا کہ بعل بنی اسرائیل کی ایک عورت کا نام تھا کہ حسن و جمال میں اس کا ثانی کوئی نہیں تھا اور حسن اس کا ایسا تھا کہ تمام بت آذر اس کے سامنے محض چاند کی طرح پتھر کے ٹکڑے نظر آتے تھے- پس اسی عورت یا اس کے مجسمے کی پوجا کیا کرتے تھے

چنانچہ مروی ہے کہ بعد خرقیل علیہ السلام کے ایک مدت تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی مبعوث نہ ہوا کہ وعظ و نصیحت کرے امر و نہی ان کو سناوے- اور یہ کہ ہدایت کرے واسطے ان کے- اگرچہ بعض علماء ان میں سے حضرت موسی کے دین پر ان کو ترغیب دیتے تھے- یہ قوم متفرق ہو کر شام اور مصر کے علاوہ دوسرے اور ملکوں میں جا کر بس گئی تھی- رفتہ رفتہ قوم نے بت پرستی زنا اور فحاشی اور برے فعل و عمل اختیار کر لیے اور تھوڑے لوگ بچے جو کہ موسی کی سکھائی شریعت اور توریت پر عمل پیرا رہ گئے- تب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر حضرت الیاس علیہ السلام کو مبعوث فرمایا- اس وقت ملک شام کا ایک بادشاہ تھا اسی نے بعل نامی یہ بت تراش کر رکھا تھا اور سب اسی کو پوجتے اور پرستش اس کی کیا کرتے تھے- اور دوسرے لوگوں کو بھی اسے پوجنے کو کہتے تھے-

تب حضرت الیاس علیہ السلام نے لوگوں کو بت پرستی سے روکا اور سمجھایا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے رب کو جو تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا رب ہے چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے ہو- سو جان رکھو یہ عقل والوں کو زیب نہیں دیتا- تب قوم کے لوگ کہنے لگے اے الیاس بیشک تو صریح گمراہی میں ہے کہ یہی ہے رب ہمارا اور تمہارا اور ہمارے باپ داداوں کا- حضرت الیاس نے فرمایا کہ اللہ جو خالق و مالک ہے ساری کائنات کا کو چھوڑ کر بت پرستی کرنا یہ کام ہرگز نبیوں کا نہیں ہے- بلکہ نبی تو اللہ کی طرف سے ہدایت کا پیغام پنہچانے والے ہوتے ہیں-

چنانچہ قوم نے حضرت الیاس کی بات نہ مانی اور تکذیب کی آپ کی اور اپنی سرکشی پر ڈٹے رہے- حضرت الیاس ان کو ہدایت کرتے رہے اور اللہ کیطرف بلاتے رہے- آپکی دعوت و تبلیغ سے بادشاہ اس ملک کا ایمان لایا اور حضرت الیاس کو اپنا وزیر بنایا اور بلند مرتبہ عطا فرمایا- لیکن اس کے مشیروں نے اس پھر راہ راست سے بھٹکایا کہ قوم میں آپ کے بارے مختلف قسم کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ الیاس کے رب سے ڈر گئے ہیں وغیرہ وغیرہ پس ظالم نے پھر راہ ضلالت اختیار کی اور بت پرستی شروع کر دی- تب حضرت الیاس نے خفا ہو کر ان پر قحط کی بددعا کی-

تبصرے بند ہیں۔