انسان اور زمین کی حکومت (قسط 77)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت داود علیہ السلام کے بعد حضرت سلیمان نے تحت سنبھالا اور بنی اسرائیل کے بادشاہ ہوئے- جیسے کہ داود کے قصہ میں بیان ہوا کہ حضرت سلیمان بطشا بنت حنا کے بطن سے تھے- پس جب سلیمان علیہ السلام تحت شاہی پر بیٹھے تو وہ انگشتری جو حضرت جبرائیل صندوق میں لائے تھے اسے اپنے ہاتھ میں پہنا- جب حضرت سلیمان اپنے باپ حضرت داود کی جگہ تحت پر بیٹھے تو لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا، "اور وارث ہوا سلیمان داود یعنی نبی اور بادشاہ ہوا باپ کی جگہ- اور کہا سلیمان نے اے لوگو ! سکھلائے گئے ہیں ہم بولی ہر جانور کی اور عطا کی گئی ہمیں ہر چیز کہ جو چیز دنیا میں درکار ہے-

القصہ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان کو عظیم سلطنت عطا فرمائی تھی- کہ کائنات کے خزانے آپ کے لیے کھول دئیے گئے اور تمام مخلوقات چرند پرند جانور جنات غرض ہر ساری مخلوقات کی بولی سمجھتے اور بولتے تھے- اس کے علاوہ آپ کی حکمرانی ہوا پر بھی تھی کہ جس طرف حکم کرتے ہوا آپ کا تحت اسی طرف اڑا کر لے جاتی-

غرض جب سلیمان کا تحت نکلتا تھا تو ہوا پر چلتا تھا- تمام پرند ہوا کے جھنڈ کے جھنڈ انکے تحت کے اوپر آ کر اپنے پروں کا سایہ کرتے- اور آدمیوں کی فوج تحت کی داہنی طرف ہوتی- اور پریوں اور جنوں کی فوج بائیں طرف- اور دیو غلام پیچھے ہاتھ باندھے ہمہ وقت حکم کے انتظار میں کھڑے رہتے- اور جانور اور باقی پرند و طیور لشکر کے ساتھ ساتھ خاموشی سے اردگرد کی خبر لیتے ہوئے حلقہ باندھ کر ساتھ چلتے تھے-

چنانچہ ارشاد ہوا، "اور اکٹھے کیے گئے واسطے سلیمان کے لشکر جنوں اور انسانوں اور جانوروں سے پس وہ مثل بمثل کھڑے کیے جاتے ہیں”- تفسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کا تحت اتنا بڑا اور وسیع تھا کہ اس پر یہ تمام لشکر بیٹھتا اور ہوا اسے لے چلتی- شام سے یمن اور یمن سے شام ایک مہینے کی راہ آدھے دن میں پنہچاتی اور واپس لے آتی- چنانچہ ارشاد ہوا، "اور مسخر کیا واسطے سلیمان کے باد کو صبح کی سیر اس کی ایک مہینہ تھا اور شام کی سیر اس کی ایک مہینہ تھا اور بہایا تھا ہم نے واسطے اس کے ایک چشمہ پگھلے ہوئے تانبے کا اوت جنوں میں ایسے لوگ تھے کہ خدمت کرتے تھے اس کے آگے پروردگار کے حکم سے”-

مروی ہے کہ اللہ تعالی نے یمن کی طرف ایک چشمہ پگھلے ہوئے تانبے کا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جاری کیا کہ وہاں سے تانبہ لاتے اور اسے سانچوں میں ڈال کر برتن اور بڑی بڑی دیگیں بناتے جن میں لشکر کے موافق کھانا پکتا اور بٹتا- اور ہوا تابع ہوتی نرم نرم چلتی اور تحت کو اڑاتی پھرتی اور جہاں کہیں زمین میں کو خزانہ دفن ہوتا یا زیر زمین جو مال سونا وغیرہ ہوتا تو زمین آواز دیتی کہ اے سلیمان جو مال خزانہ جس قدر مجھ میں موجود ہے اٹھا لیجا اور اسے اپنے کام میں لگا- مروی ہے کہ حضرت سلیمان نے جنوں اور دیوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ جو مال خزانہ زیر زمین ہے وہ سب اور جو موتی جواہرات وغیرہ پانیوں سمندروں جھیلوں وغیرہ میں ہیں سب لا کر میرے حضور میں جمع کیے جائیں-

اور جہاں سے خبر آتی کہ کوئی جن انسانوں کو تنگ کرتا ہے یا کسی بھی مخلوق کو نقصان پنہچاتا ہے تو حضرت سلیمان اسے پکڑوا کر قید کر لیتے یا دریاوں اور سمندروں میں ڈال دیتے دور دراز جزیروں میں بند کر کے یا باندھ کر پھینک دیتے یا زیر زمین دفن کر دیتے- کہا جاتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے قید کیے ہوئے بہت سے جن اور دیو جو سرکش ہوئے اور انہیں قید کر کے پھینک دیا گیا آج بھی مختلف جگہوں پر اپنی قید کاٹ رہے ہیں- واللہ اعلم الصواب

اس کے علاوہ ایسے بڑے بڑے طاقتور دیو جن پر سلیمان کی حکمرانی تھی جو عمارتیں بناتے اور دریاوں میں غوطے لگاتے اور سمندروں کے خزانے جمع کرتے- اور حضرت سلیمان کے ایک حکم پر کہیں سے کہیں جا پنہچتے اور آپ کی مطلوبہ چیز لا حاضر کرتے۔

مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک محل پرتکلف عالیشان ایسا بنوایا تھا کہ طول اور عرض اس کا چھتیس کوس کا تھا- اینٹیں اس کی سونے چاندی کی تھیں اور یاقوت و زمرد جڑے تھے- اس میں سات سو قصر سات سو حرموں کے واسطے اور تین سو قصر تین سو بیبیوں کے واسطے بنوائے تھے- مفسروں نے لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام ہر شب اپنی تمام بیبیوں اور حرموں کے پاس جاتے

اور ایک جانب ایک مکان عالیشان کے برابر ایک محل بنوایا تھا- کہ درازی اس کی بارہ کوس تک تھی- ایک کوشک پر آپ کے تحت کا جلوس تھا- طول اس کا تیس کوس تھی- سب ہاتھی دانت کا لعل اور فیروزہ اور زمرد اور مروارید سے مرصع کیا تھا- اور اردگرد اس کے سونے کی اینٹیں لگائی تھیں- اور چار کونے پر اس کے درخت چاندی کے جن کی ڈالیاں سونے کی اور پتے اس کے زمرد سبز کے لگائے تھے- اور ہر ہر ڈالی پر طوطی اور طاوس بنا کر اس کے پیٹ کے اندر مشک اور عنبر بھرا ہوا تھا- اور ان درختوں پر خوشے انگور کے لعل اور یاقوت سے بنا کر لگائے گئے تھے-

اور نیچے تحت کے دائیں بائیں جانب ہزار کرسی سونے چاندی کی لگی تھیں- اس پر بڑے بڑے آدمی اور جن و پری درجہ بدرجہ بیٹھا کرتے تھے- اور ان کی پشت کی جانب غلام دیو اور پری سب ہاتھ باندھے کھڑے رہتے- اور ہر دو جانب تحت کے دو شیر زمرد کے بنائے تھے- اور دو جانب دو ستون یاقوت کے بنا کر ان پر دو کبوتر سونے کے رکھے ہوئے تھے-

منقول ہے کہ تحت اور جانور پرند اور درخت وغیرہ سب کو دیووں نے طلسم سے بنایا تھا- حضرت سلیمان علیہ السلام جب تاج شاہی سر پر رکھ کر جب تحت پر پاوں رکھتے ان کی ہیبت سے تحت اس وقت حرکت میں آ جاتا- درختوں پر بیٹھے طاوس اور طوطی اپنے پر پھیلا دیتے جس سے بوئے مشک اور عنبر کی نکلتی- اور وہ شیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے سرنگوں رہتے- اور کبوتر اس ستون سے اس ستون پر اڑتے اور بیٹھتے-

حضرت سلیمان اس تحت پر بیٹھ کر توریت پڑھتے اور خلقت پر حکمرانی کرتے- تمام مخلوقات خدا کی بولی سمجھتے- اور تاج شاہی جب سر پر رکھتے تو تمام پرند ہوا کے اڑنے والے ان کے سر پر معلق رہتے اور اپنے پروں سے تحت پر سایہ کرتے- اور حضرت سلیمان نے دیووں کو حکم کیا تھا کہ بساط فرش زربفت کا بچھا دیں اور اس کے کنارے نہریں جاری تھیں- اور اس کے سوا تحت گاہ کے مکان میں کئی محرابیں تھیں جن میں عابد سب ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتے-

اور کھانا پکانے کے واسطے بادلوں کو حکم کرتے تو دیگیں بھر بھر کر پانی دے جاتے- اور ان کے باورچی خانہ میں ستر ڈھیریاں نمک روزانہ خرچ ہوتا- اور سات سو بوجھے پر مرغ باورچی خانے سے نکال کر پھینک دیتے-

باوجود اس سب کے حضرت سلیمان اپنے نعمت خانے سے کچھ نہیں کھاتے تھے- اپنے ہاتھوں سے زنبیل سیتے اسے بیچتے اور اپنے ہاتھ سے آٹا جو کا پیس کر روٹی پکا کے ہر شام کو بیت المقدس جا کر مسلمان روزہ دار درویش غریب ساتھ لیکر کھانا کھاتے اور شکر نعمت کا بجا لاتے- اور مناجات کرتے اور کہتے تھے الہی میں درویشوں میں ایک درویش شامل ہوں اور بادشاہوں میں بادشاہ ہوں اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہوں پس تیری کس کس نعمت کا شکر بجا لاوں۔

تبصرے بند ہیں۔