مولانا محمد علی جوہر

محمد قاسم ٹانڈوی

رئیس الاحرار قافلہ آزادی ہند کے سالار، ملک و ملت کے عظیم قائد و سربراہ، میدان صحافت کے بےباک و بےلوث اور نڈر راہنما و سپاہی، اعلی پایہ کے صاحب انشا پرداز نیز ہند و مسلم اتحاد کے عظیم المرتبت و قابل قدر علمبردار مولانا محمد علی جوہر، جو طبقہ علماء و جہداء کے مابین ہمہ جہت اور گوناگوں صفات کے حامل شخص گردانے جاتے تھے اور ساتھ ہی اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن سمجھے جاتے تھے۔ آج کا دن (10؍دسمبر) ان کی پیدائش کا دن ہے۔

مطالعہ کتب سیرت و سوانح سے یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ قدرت الہی کے طفیل اس مرد مجاہد کی ہمہ جہتی اور لائق و فائق شخصیت میں بیک وقت جو اوصاف حسنہ جمع تھے آج اس دور قحط الرجال میں ان کا عشر عشیر بھی کسی فرزند آدم میں پایا جانا نہ صرف مشکل و دشوار محسوس ہوتا ہے بلکہ مولانا جوہر جیسا ذہین و فطین، شجاع و بہادر اور گفتار و کردار کا غازی پایا جانا ناممکن و محال معاملہ لگتا ہے، جن کا ثانی ماضی قریب سے لےکر تا حال دور دور تک نظر نہیں آتا جو کہ اس فکر و غم اور دکھ درد کو محسوس کرنے والا ہو جس سے مولانا جوہر آشنا و بہرہ ور تھے حالانکہ موجودہ وقت میں جہاں مال و دولت کی ریل پیل اور مادی دنیا سے اس کے روابط پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم و منضبط ہیں پھر بھی مولانا محمد علی جوہر یا ان کے معاصرین جیسے افراد کا نہ پایا جانا اپنے آپ میں ایک معمہ اور ملت کےلئے ٹوٹے و خسارہ والی بات ہے۔ اس لئے کہ مولانا مرحوم جہاں ایک طرف عظیم مفکر و دانشور تھے وہیں ایک کامیاب مقرر و مجاہد اور میدان صحافت کے اعلی شہسوار بھی تھے یہی نہیں بلکہ مولانا جس میدان اور جس مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے تو اس میدان اور مجلس میں پہلے سے موجود بڑے بڑے عہدیداروں اور ذی استعداد ماہر فن شخصیات کو خداداد صلاحیتوں اور بے پناہ قوت استدلال کی بدولت اپنی سحرانگیزی کے ذریعے محوحیرت کر دیا کرتے تھے۔

معاملہ فہمی میں مولانا کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ اہل مجلس جب کسی اہم سیاسی سماجی یا جنگی معاملے کو لےکر باہم گفت و شنید ہوا کرتے تو مولانا اولا ان کے فکر و خیالات کے زاویے کو بتدریج زائل کرتے اس کے بعد در پیش معاملے کو لوگوں کی فہم و فراست کے قریب سے قریب تر کرنے میں مثبت دلائل پیش فرما کر معاملے کی بنیاد اس انداز سے رکھتے کہ مدمقابل آپ کی رائے اور منشا کو نہ صرف قبول و منظور فرماتے بلکہ داد تحسین سے نوازتے جس کے بعد حاضرین مجلس کو ایسا محسوس ہوتا گویا خواب غفلت میں مدہوش امت کو بیدار کرنے کی اس سے بہتر و مناسب کوئی اور تدبیر و تحریک ہو ہی نہیں سکتی تھی جو مولانا نے اس وقت پیش کی ہے۔ اسی لئے بعض مقالہ نویس حضرات رقم طراز ہیں کہ:

"ان میں عقل و دل کے نہایت نازک امتزاج کے باعث جوش عمل کی فراوانی تھی جس کے باعث منطق کبھی ان کے عمل کی پشت پنا ہی کرتی تو کبھی ان کا جوش، عمل کی افسردگی کو علیحدہ کرتا” (وکیپیڈیا)

اس بات کا اندازہ مولانا کی تقاریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا کی طبیعت کتنی بلند صفات اور نگاہ دور رس تھی جس کی وجہ سے آپ اکثر بےباکی و نڈر پن کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے اور آپ اپنی اس صفت خاص کو بوقت تحریر و تقریر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سختی کے ساتھ عمل میں لایا کرتے تھے، اس بات سے قطع نظر کہ مخاطبین میں کون لوگ شامل ہیں اور کون کون محفل میں موجود ہیں اس سے مولانا کو کوئ لینا دینا نہیں تھا چنانچہ لندن میں گول میز کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر عالمی رہبران سیاست کے روبرو جو تقریر مولانا نے پیش فرمائی تھی اس کا شمار آج بھی دنیا کی اہم ترین تقاریر میں کیا جاتا ہے۔ اس تقریر میں مولانا نے تمام تر خرابی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے جو بات ارشاد فرمائ تھی اور ملک کی آزادی کو لےکر جس درد و کڑھن کو پیش کیا وہ یہ تھا کہ:

"میری یہ کیفیت ہے کہ قلب کی حالت درست نہیں، بینائی میں فرق آگیا ہے، پیر متورم ہیں، ذیابیطس کا عارضہ لگا ہے پھر بھی میں یہ کہتا ہوں کہ جس آدمی کے حواس بجا ہوں وہ بھی ان بیماریوں کے ساتھ سات میل کا سفر بھی نہیں طے کرسکتا۔ لیکن میں خشکی اور سات سمندر کے پار سے سات ہزار میل کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا ہوں، کیونکہ جہاں آزادی کا معاملہ آتا ہے وہاں میری حالت دیوانوں کی سی ہوجاتی ہے” مولانا مرحوم کی سوانح زندگی قلم بند کرنے والوں نے لکھا ہےکہ "مولانا کا اس تقریر کا کرنا تھا کہ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا اور کانفرنس میں موجود شرکاء ایک دوسرے کا منھ تاکنے لگے۔ اسی لئے حق و باطل کے میدان میں مولانا سے الجھنا اور مقابلہ آرائ کرنا ایسا ہی تھا جیسا کہ لوہے کو لوہے سے رگڑتے وقت چقماق کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہےکہ مولانا حق کو ثابت کرنے کے لئے کبھی بھی اپنی ذات کی پروا نہیں کرتے تھے اور بلا لحاظ مخالف و موافق وہی کرتے وہی کہتے اور وہی لکھتے جسے اپنے علم و نظر میں حق جانتے اور سمجھتے، حق کے واضح اور سامنے آجانے کے بعد رتی برابر حق سے روگردانی نہ کرتے اس کےلئے چاہے کتنے ہی حالات سے کیوں نہ گزرنا پڑتا ہو مگر دامن حق کو چھوڑنا کبھی گوارا نہ فرماتے۔ انہیں وجوہات و کمالات کو محسوس کرتے ہوئے ممبئی کے ممتاز پروفیسر بھولا بھائی دیسائی نے مولانا کے انتقال کے بعد کہا تھا کہ:

"مولانا محمد علی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس براعظم کے لوگوں کو صحیح آزادی کے تصور سے روشناس کرایا” اور بات بھی در اصل یہی ہے اس لئے کہ مولانا مرحوم کی شخصیت مجاہد آزادی کی حیثیت سے زیادہ متعارف ہے اور یہ سچ ہے کہ ملک کی آزادی میں جو کردار مولانا محمد علی جوہر کا رہا ہے وہ دیگر مجاہدین سے کسی بھی درجے کم نہیں رہا ہے؛ مسئلہ چاہے اندرونی سیاست سے منسلک رہا ہو یا چاہے بیرونی ممالک میں جانے کے بعد رہبران دنیا کے روبرو ملک کی آزادی کا مطالبہ کرنے اور ملک کو غاصب انگریز قوم کے پنجئہ استبداد سے چھٹکارا مل جائے یا پھر بات ہند و مسلم اتحاد کی ہو؛ مولانا کو ہر وقت اور لمحہ و لحظہ یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ ہمارے ملک ہندوستان پر جس انگریز قوم کا وجود ناپاک و نامراد ہے اس سے کسی طرح باشندگان ہند کو نجات حاصل ہو جائے اور اسے ہر حیثیت سے ناقابل تسلیم سمجھتے تھے۔

سچ پوچھئے تو مولانا کے کارہائے نمایاں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، جن کا احاطہ ان جیسی مختصر تحریروں میں نہیں کیا جا سکتا۔

اس نامور و ممتاز، لائق و فائق، ہمہ جہت شخصیت کے مالک وطن عزیز کےلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے محب وطن دوست، جس کی عظمت و رفعت کا عالم یہ ہوا کرتا تھا کہ ان کی موجودگی سے گرمی محفل کا قیام سمجھا جاتا تھا، جن کی ایک ایک آواز سے ہمارا ملک گونج اٹھتا تھا اور ان کے جوش عمل سے پورا برصغیر متاثر ہوا کرتا تھا کہ اچانک 4/جنوری/1931 کو علم و عمل کا یہ آفتاب و ماہتاب اور ہمہ جہت شخصیت اس دار فانی سے کوچ کر گئ جس کی وفات حسرت آیات کی اطلاع جنگل میں اچانک لگی آگ کی طرح پورے عالم میں پھیل گئی اور جیسا کہ عوام الناس کی عادت ہے کہ وہ اول مرحلے میں ایسی خبر اور اطلاع کو سب کر یقین نہیں کرتے ہیں انہیں مولانا کی موت کی خبر پر بھی یقین نہ آتا تھا لیکن قدرت کا فیصلہ "کل من علیہا فان” اٹل ہے جس کے آگے نہ کل کسی کی چلی ہے، نہ آج کسی کی چلتی ہے اور نہ کل کسی کی چلنے والی ہے، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس سے کسی کو رستگاری نہیں۔ اور پھر یہی ہوا کہ لاکھوں عقیدت مندوں نے پرنم مولانا کے جسد مبارک کو سپرد خاک کر دیا اور راہی عدم کو راہی ملک بنا دیا۔

بلاشبہ مولانا ایک انمول جوہر تھے، جن کا وجود پوری امت کی صلاح و فلاح، رشد و ہدایت اور ملک کےلئے امن و محبت کا بےبہا سرمایہ تھا۔ اللہ پاک مولانا مرحوم کو غریقرحمت فرمائے؛ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔