ہرجائی کی بات کہاں تک
سحر محمود
ہرجائی کی بات کہاں تک
تنہائی کی بات کہاں تک
…
ذکرِ خزاں بھی کچھ ہو جائے
پروائی کی بات کہاں تک
…
مہنگائی کا حل بھی سوچو
مہنگائی کی بات کہاں تک
…
عشق میں دیکھیں گے جاتی ہے
رسوائی کی بات کہاں تک
…
پہنچی ہے اب تک میرے منصف
شنوائی کی بات کہاں تک
…
نادانوں کی بزم میں آخر
دانائی کی بات کہاں تک؟
…
اور بھی غم ہیں اس دنیا میں
اک بھائی کی بات کہاں تک
…
لوگ سحر ہیں جھوٹ کے عادی
سچائی کی بات کہاں تک
تبصرے بند ہیں۔