ہرجائی کی بات کہاں تک

سحر محمود

ہرجائی کی بات کہاں تک

تنہائی کی بات کہاں تک

ذکرِ خزاں بھی کچھ ہو جائے

پروائی کی بات کہاں تک

مہنگائی کا حل بھی سوچو

مہنگائی کی بات کہاں تک

عشق میں دیکھیں گے جاتی ہے

رسوائی کی بات کہاں تک

پہنچی ہے اب تک میرے منصف

شنوائی کی بات کہاں تک

نادانوں کی بزم میں آخر

دانائی کی بات کہاں تک؟

اور بھی غم ہیں اس دنیا میں

اک بھائی کی بات کہاں تک

لوگ سحر ہیں جھوٹ کے عادی

سچائی کی بات کہاں تک

تبصرے بند ہیں۔