رستے منزل کو جاتے ہیں
عبدالکریم شاد
رستے منزل کو جاتے ہیں
لوگ سفر میں کھو جاتے ہیں
…
دور جوانی آتے آتے
"بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں”
…
نسلیں پھر کیوں املی کھائیں
آم اگر ہم بو جاتے ہیں
…
آگے موسم کی جو مرضی
ہم تو دانہ بو جاتے ہیں
…
اوبڑ کھابڑ سے یہ رستے
شہر محبت کو جاتے ہیں
…
زیست کے سارے موڑ جہاں میں
ایک ہی منزل کو جاتے ہیں
…
یوں تو حیواں بھی انسانو!
محنت کر کے سو جاتے ہیں
…
رنگ برنگے چہرے دیکھے
بھیڑ میں اکثر کھو جاتے ہیں
…
کیسے کیسے لوگ جہاں میں
کیسے کیسے ہو جاتے ہیں
…
ماں کو نیند کہاں آتی ہے
بچے رو کر سو جاتے ہیں
…
ان کو خبر ہے عشق ہے کیا شے
اس جنگل میں جو جاتے ہیں
…
آتے ہی نظروں کی زد میں
سارے منظر کھو جاتے ہیں
…
ذکرِ خدا وہ کرتے ہیں شاد!
مے خانے میں گو جاتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔