رستے منزل کو جاتے ہیں

عبدالکریم شاد

رستے منزل کو جاتے ہیں

لوگ سفر میں کھو جاتے ہیں

دور جوانی آتے آتے

"بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں”

نسلیں پھر کیوں املی کھائیں

آم اگر ہم بو جاتے ہیں

آگے موسم کی جو مرضی

ہم تو دانہ بو جاتے ہیں

اوبڑ کھابڑ سے یہ رستے

شہر محبت کو جاتے ہیں

زیست کے سارے موڑ جہاں میں

ایک ہی منزل کو جاتے ہیں

یوں تو حیواں بھی انسانو!

محنت کر کے سو جاتے ہیں

رنگ برنگے چہرے دیکھے

بھیڑ میں اکثر کھو جاتے ہیں

کیسے کیسے لوگ جہاں میں

کیسے کیسے ہو جاتے ہیں

ماں کو نیند کہاں آتی ہے

بچے رو کر سو جاتے ہیں

ان کو خبر ہے عشق ہے کیا شے

اس جنگل میں جو جاتے ہیں

آتے ہی نظروں کی زد میں

سارے منظر کھو جاتے ہیں

ذکرِ خدا وہ کرتے ہیں شاد!

مے خانے میں گو جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔