انسان اور زمین کی حکومت (قسط 96)

رستم علی خان

چنانچہ دادیانہ ملعون کی بیوی حضرت کی زبانی توریت سنکر ایمان لائی اور مشرف بااسلام ہوئی- ادھر کافروں نے سارے شہر میں یہ بات پھیلا دی کہ حضرت جرجیس نے معاذ اللہ دولت کی لالچ میں بت کو سجدہ کیا- جب یہ بات اہل ایمان تک پنہچی تو وہ لوگ کسی طور ماننے کو تیار نہ ہوئے کہ حضرت جرجیس ایسا بدفعل کر سکتے ہیں- پس ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کس طور اس بات کی تصدیق کی جائے کہ جو بات کفار کرتے ہیں وہ جھوٹی ہے یا سچی ہے-

تب وہ بڑھیا کہ جس کا زکر پیچھے گزرا ہے کہ اپنے بیمار بیٹے کو حضرت جرجیس کے پاس لائی تھی اور ان کی دعا سے اس کی دو بیماریاں دور ہوئیں اور دو باقی تھیں اور اس معجزے کو دیکھ ایمان لائی تھی کہنے لگی، اے لوگو اگر جرجیس نے ایسا کیا ہو گا جیسا یہ کافر کہتے ہیں تو یقینا ان کی دعا اب قبول نہ ہو گی- پس میں اپنے بیٹے کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہوں اور ان سے اپنے بیٹے کے لیے دعا کا کہتی ہوں پھر تمام سچ اور جھوٹ کا پتا چل جائے گا-

پس وہ عورت اپنے بیٹے کو لیکر حضرت جرجیس کی خدمت میں حاضر ہوئی اور تمام قصہ جو کافروں نے پھیلا رکھا تھا بیان کیا- اور اس کے بعد گویا ہوئی کہ اے نبی اللہ یہ بیٹا میرا گونگا اور لنگڑا ہے آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس کے یہ نقص ٹھیک ہو جائیں- تب حضرت جرجیس نے اس لڑکے کو بلوایا اور اس سے فرمایا کہ اے لڑکے اللہ کے حکم سے میری بات کا جواب دو- اس لڑکے نے فورا کہا، "لبیک یا نبی اللہ” اور اس کی جو زبان بند تھی اللہ کے حکم سے کھل گئی- تب وہ عورت سمجھی کہ یہ بات کافروں نے جھوٹ پھیلائی ہے- بعد اس کے حضرت جرجیس نے فرمایا، اے لڑکے اللہ کے حکم سے اٹھو اور بت خانے میں جاو اور تمام بتوں کو کہو کہ تمہیں جرجیس نبی بلاتے ہیں-

چنانچہ وہ لڑکا آپ کے کہنے سے اٹھا اور یہاں اس کے پاوں ٹھیک ہوئے- پس وہ لڑکا سیدھا بت خانے میں گیا- اس بت خانے میں ستر بت رکھے تھے- لڑکے نے جا کر کہا، اے بتو تم کو جرجیس نبی بلاتے ہیں- پس اللہ کے حکم سے اٹھو اور میرے ساتھ چلو- پس تمام بت اس بت خانے کے سرنگوں اس لڑکے کیساتھ حضرت جرجیس کی خدمت میں پنہچے- آپ نے تمام بتوں کے سروں پر ٹھوکریں مار کر انہیں زمین کے اندر دھنسا دیا-

تب دادیانہ کی بیوی یہ سب حال دیکھ کر اپنی قوم سے بولی، اے لوگو جرجیس کے خدا سے اپنے گناہ بخشواو اور پناہ مانگو اور اس پر ایمان لے آو- اور اگر ایمان نہ لاو گے تو اپنے بتوں کیطرح خاک میں مل جاو گے- تب دادیانہ پلید اپنی بیوی سے بولا، اے بی بی آج سات برس ہوئے جرجیس ہم کو تبلیغ کرتا ہے اور معجزے اور دلائل دیتا ہے پر ہم ایمان نہیں لائے اور تم صرف ایک دن کے معجزے سے اس پر ایمان لائی ہو- تب وہ بولی، اے صاحب تم شقاوت ازلی سے ان پر ایمان نہ لائے شقی رہے اور مجھ کو سعادت ازلی تھی سو میں ایمان کی سعادت حاصل کی- تب یہ سنکر دادیانہ ملعون نے اسے دار پر کھینچا- جب اس کی جان نکلنے والی ہوئی تو اس نے کہا کہ اے میری قوم گواہ رہنا کہ میں کامیاب ہوئی اور جان بحق تسلم ہوئی-

بعد اس کے جرجیس نے اپنا روئے مبارک آسمان کیطرف کر کے کہا، یا رب تو دانا و بینا ہے آج سات برس سے میں تیف اٹھاتا ہوں- تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ سات برس کافروں کے ہاتھ سے رنج و غم اٹھاو گے سو آج مدت پوری ہوئی- اب میں اور صبر نہیں کر سکتا- میں ان کافروں سے عاجز آ چکا ہوں- پس اب مجھ میں اور دکھ سہنے کی طاقت نہیں مجھے شہادت نصیب فرما اور شہیدوں میں داخل کر- اور ان کافروں پر اپنا عذاب نازل کر اور جو لوگ تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر رحمت نازل فرما- پس جرجیس نے دعا سے فراغت حاصل کی ایک آتش غضب ناک آسمان سے نازل ہوئی- رعد اور بجلی کڑکی اور ان کافروں پر گری- یہ دیکھ ملعونوں نے حضرت پر تلواریں کھینچ ماریں کہ یہ سب ان کی دعا کے سبب سے ہوا- پس وہیں حضرت جرجیس نے اپنی خواہش کے مطابق درجہ شہادت پایا- حضرت کی شہادت کیساتھ ہی آسمان سے آگ برسنے لگی اور تمام کافر شہر کے جل کر خاک ہوئے اور جہنم واصل ہوئے اور تیس ہزار لوگ کہ جو ایمان لائے تھے صرف وہ لوگ زندہ بچ گئے- واللہ اعلم بالصواب-

چنانچہ آنحضرتﷺ کو حکم تھا کہ یہود کی ہر طرح کی ایذاء رسانیوں کو برداشت کریں، ارشاد ہوا؛ "اور اہل کتاب اور مشرکوں سے تم بہت سی ایذاء کی باتیں سنو گے، اور اگر صبر کئے رہو، اور پرہیزگاری پر قائم رہو تو یہ ہمت کے کام ہیں۔”

یہودیوں نے معمول کر لیا تھا کہ آنحضرتﷺ سے جب سلام علیکم کرتے تو بجائے "سلام علیک” کے "السام علیک” کہتے، جس کے معنی یہ ہیں کہ "تجھ کو موت آئے” ایک دفعہ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ بھی موجود تھیں، انہوں نے سنا تو ان کو بہت غصہ آیا اور بےاختیار ہو کر بول اٹھیں کہ، "کم بختو! تم کو موت آئے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ "نرمی سے کام لو”، حضرت عائشہ نے کہا "آپ نے کچھ سنا بھی کہ ان لوگوں کیا کہا”، آپﷺ نے فرمایا کہ "ہاں، لیکن ان کے لئے یہ کافی ہے کہ میں نے علیک کہہ دیا”، یعنی تم لوگوں پر۔

آنحضرتﷺ صرف مجاملت اور درگزر پر ہی اکتفا نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر معاشرت کی باتوں میں یہود کے ساتھ اتفاق فرماتے اور ان کی مذہبی توقیر قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ بالوں میں مانگ نکالتے تھے۔ بخلاف اس کے یہودی بالوں کو یوں ہی چھوڑ دیتے تھے۔ آنحضرتﷺ بھی یہودیوں کی موافقت کرتے تھے، صحیح بخاری میں ہے؛ "اور آنحضرتﷺ ان چیزوں میں جن میں کوئی خاص حکم الہی نہیں ہوتا تھا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔”

آنحضرتﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں، آپﷺ نے بھی صحابہ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں بھی جو احکام الہی نازل ہوئے وہ بھی یہودیوں کے ساتھ مدارات اور معاشرت کی ترغیب میں تھے۔ لیکن یہود نے تمام تر مہربانیوں اور جناب عیسی علیہ السلام کے آنحضرتﷺ کے متعلق بیان فرمائی گئی نشانیوں کو پورا پانے کے باوجود اسلام کی خانہ براندازی کا عزم کر لیا۔ یہاں تک کہ اسلام کی عظمت اور وقار کو کم کرنے کے لئے مشرکوں سے کہتے تھے کہ مذہب میں مسلمانوں سے تم ہی اچھے ہو، چنانچہ ارشاد ہے؛ "اور کافروں کی نسبت کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے یہ زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔”

مذہب اسلام کی بےاعتباری پھیلانے کے لئے یہاں تک آمادہ ہوئے کہ اول مسلمان ہو کر پھر سے مرتد ہو جائیں تاکہ لوگوں کو خیال ہو کہ اگر اسلام سچا مذہب ہوتا تو اس کو قبول کر کے کوئی کیوں چھوڑتا، چنانچہ قرآن میں ہے، "اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو اترا ہے اس پر صبح کو ایمان لاو اور شام کو اس سے پھر جاو، شاید کہ وہ لوگ (مسلمان) بھی پھر جائیں۔”

ان باتوں کے علاوہ اسلام کی ملکی بربادی کی ملکی تدبیریں اختیار کیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کو جو قوت حاصل ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انصار کے دو قبیلے "اوس” اور "خزرج” جو باہم لڑتے بھڑتے رہتے تھے اسلام نے ان کو باہم متحد کر دیا ہے، چنانچہ اگر ان دونوں کو پھر سے لڑا دیا جائے تو (معاذ اللہ) اسلام خودبخود فنا ہو جائے گا۔ عرب میں پچھلی کینہ آوریوں کو تازہ کر دینا نہایت آسان کام تھا۔ ایک دفعہ دونوں قبیلوں کے بہت سے آدمی ایک جلسہ میں بیٹھ کر بات چیت کر رہے تھے، چند یہود نے اس صحبت میں جا کر جنگ بعاث کا تذکرہ چھیڑا، اس لڑائی کے تذکرہ نے دونوں قبیلوں کو پرانے واقعات یاد دلا دئیے اور دفعتہ عداوت کی دبی ہوئی آگ بھڑک اٹھی۔ لعن و طعن سے گزر کر تلواریں کھنچ گئیں، حسن اتفاق سے آنحضرتﷺ کو اس معاملہ کی خبر پہنچ گئی اور آپﷺ نے فورا موقع پر پہنچ کر وعظ و پند سے دونوں فریقین کو ٹھنڈا کیا۔ چنانچہ اس پر یہ آیت اتری؛ "مسلمانو! اگر تم اہل کتاب کے بعض لوگوں کا کہا مانو گے تو وہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافر بنا دیں گے”-

تبصرے بند ہیں۔