روز محبت

نظر عرفان

آج کہ   دن

کیا  تجھے  یہ احساس ہے!

کوئی تجھ سے  اب بھی  محبت کرتا ہے

تجھے  یاد کرتا ہے

تجھے  یاد کر کے عید کرتا ہے

اور  ترے  غائبانہ میں، اب  بھی  روز محبت مناتا ہے

وہ   زمیں  اور وہ جگہ جہاں تم ملی تھی

اور تم  ملا کرتی تھی

کبھی  راہ  چلتے

کبھی ہنستے،  سلام کرتے

شاید تجھے یہ احساس بھی نہ تھا

کوئی  تجھ سے  اتنا  محبت کرتا ہے

جہاں ترا  آشیانہ تھا

اور ترے آشیانہ سے  ذرا   ہٹ کر

 کنارے

 میرا بھی  آشیانہ تھا

 میں تجھے کبھی چلتے ، کبھی سنورتے

اورکبھی آنچل سنوارتے

دیکھ لیا کرتا تھا

اور تم  دکھ ہی جاتی تھی

اور کبھی  باتیں کر لیا کرتی تھی

کبھی ساتھ  بیٹھ جایا کرتی تھی

 اور وہ  دن ! روز محبت

مری دعوت،

  سمندر کہ کنارے شام  بتانے کی

 تم  قبول  کرلی تھی

پھر بیتے، جو لمحے مرے ترے ساتھ

وہ بھولوں کیسے!

تم  بدلی پر  میں نہ بدلا

جانو تو

کوئی آج بھی تجھے یاد کرتا ہے

اور ترے غائبانہ میں، تجھے یاد کرکے عید  کرتا  ہے

تبصرے بند ہیں۔