پروفیسر مسعود حسین خان: اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا بنیاد گزار

ڈاکٹر محمد اقبال خان

(ہندوارہ، کپوارہ، جموں وکشمیر)

 ’’ اسلوب‘‘جسے انگریزی میں اسٹائل (Style)کہتے ہے سے عام طور پر کسی کام کو کرنے کا ڈھنگ، طریقہ یا انداز مراد لیا جاتا ہے۔ ہر شخص کے کام کرنے کا انداز یا ڈھنگ مختلف ہوتا ہے۔ اسی کو اس شخص کا اسٹائل یا اسلوب کہتے ہیں۔ ادب میں اسلوبیات ایک جدید نظر ئیہ تنقید ہے جس میں ادبی وتخلیقی زبان کا مطالعہ وتجزیہ لسانیات کی روشنی میں معروضی اور سائنسی انداز سے کیا جاتا ہے۔ اس میں متن کے لسانی اور اسلوبی خصائص (Style Features)کو نشان زد کیا جاتا ہے اورتنقیدی رویے کی روشنی میں ادبی فن پارے یامتن کو خود مختار مان کہ اس کی زبان واسلوب کا تو ضیحی انداز سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اسلوبیات کو ’’ادبی اسلوبیات ‘‘سے ممیز کرنے کے لیے کھبی کھبی ’’لسانیاتی اسلوبیات‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ادبی اسکالر اسے اسلوبیاتی تنقید کا نام دیتے ہے۔ لیکن ماہرین لسانیات اسے اسلوبیات ‘‘یا’’لسانیاتی اسلوب ‘‘ہی کہنا پسند کرتے ہیں۔ لسانیاتی اسلوب، ’’ لسانیات‘‘ سے قریب تر ہے لہذا اس میں لسانیاتی طریق کار اختیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ’’ادبی اسلوبیات ‘‘ادبی تنقید سے قریب تر ہے۔ اس تناظر میں اسلوبیات اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics)کی وہ شاخ ہے جس میں لسانیات کا اطلاق متن یاادب پارے کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ لسانیات میں زبان کا مطالعہ دو مخصوص زاویوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک کو تاریخی لسانیات (Historical Linguistics) جبکہ دوسرے کو توضیحی لسانیات(Descriptive Linguistics) کہتے ہیں۔ تاریخی لسانیات میں کسی زبان کے آغاز، اس کی تشکیل اور عہدبہ عہد ارتقا سے بحث کی جاتی ہے۔ ا س میں متعلقہ زبان کی ان تمام تبدیلیوں پر غور کیا جاتا ہے جو مرورِ ایام میں بتدریج ظہور پزیر ہوتی رہی ہیں نیز زبان کا مطالعہ اس کی سابقہ حالت اور تحریری حوالوں سے بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ توضیحی لسانیات میں زبان کی توضیح وتجزیے پر توجہ دی جاتی ہے۔ توضیحی لسانیات کے تحت زبان کے مطالعے کی پانچ سطحیں ہوتی ہیں۔ اس میں صوتیات، علم الاصوت، صرفیات، نحواور معنیات کی سطحیں شامل ہیں۔ توضیحی لسانیات کو زبان کا یک زبان (Synchronic)مطالعہ بھی کہتے ہے جبکہ تاریخی لسانیات کو زبان کا دوزمانی (Diachoronic)مطالعہ بھی کہتے ہے۔ گوپی چند نارنگ اسلوبیات کے حوالے سے یہ رائے قائم کرتے ہے۔ لکھتے ہیں :

 ’’ اسلوبیاتی تجزیے سے مصنف کی پہچان اسی طرح ممکن ہے جس طرح انسان اپنے ہاتھ کی لکیروں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسلوبیات کے زریعے مصنف کے لسانی اظہار کے ہاتھ کی لکیروں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے اور اس کی شناخت حتمی طور پر متعین کی جا سکتی ہے۔ اشخاص کی طرح اصناف کا بھی مزاج ہوتا ہے۔ چناچہ اسلوبیات کی مدد سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ باہم دگر مختلف اصناف اسلوبیاتی امتیاز کیا ہے۔ ‘‘  ۱؎

  ۱۹۵۰ ؁ء کے بعد اسلوبیات کے میدان میں قابل ذکر کارنامے سامنے آئے۔ اسی وقت اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics)کے ایک خاص شعبے کی حیثیت سے فروغ ملا۔ اسی دوران یورپ اور امریکہ میں اسلوبیات کے موضوع پر کچھ بین الاقوامی سمینار اورکانفرنس منعقد ہوئی جس میں امریکہ، انگلستان، اٹلی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے ماہرین ِزبان وادب نے اسلوبیات کے موضوع پر بحثیں کی جس کے نتیجے میں اسلوبیات کوادب کے حوالے سے کافی فروغ ملا۔   یورپ اور امریکہ میں جن مفکروں، دانشوروں اور نقادوں نے اسلوبیاتی تنقید کو فروغ دینے میں اہم رول اداکیا ان میں ٹامس اے لیسیوک، روجرفائولر، اٹیفن المن، آر کی بالڈا ے ہل، لہیرلڈوائٹ ہال، سیمو ئل آرلیون، نلزایر ک، انکوسٹ، ڈیل ہائمز، ایم۔ اے۔ کے ہیلیڈے، اے میکونٹوش، سیموچٹمین، رچرڈسئین، رچرڈاویمن، ڈیوڈکرسٹل، جیوفری لیچ، رومن جیکب سن، نوام چامسکی، بلوم فیلڈ، ویلک آسٹن ویرن، ایڈورڈپسیر، امسپن، سیمور چٹمن، سال سپورٹا اور ڈیل ہائمز وغیرہ کے نام خصوصیات کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ بلوم فیلڈ کی تصنیف Language(نیوپارک ۱۹۳۳ ؁ء)اور نوام چامسکی کی (Syntactic Structures  ۱۹۵۷ ؁ء )اس سلسلے میں قابل ستائش کارنامے ہیں۔

 اگرہم ارود میں اسلوبیاتی تنقید کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ارود میں اسلوبیات کا سرمایہ زیادہ وسیع نہیں ہے اگرچہ لسانیات جاننے والوں کی تعداد خاصی اچھی ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو لسانیات کو ادبی مطالعے میں پیش کرسکیں۔ ا ردو لسانیات کی تاریخ کا آغازیوں تو خان آرزو اور انشاء اللہ خان انشا ء سے ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انشا کی ’’دریائے لطا فت ‘‘(۱۸۰۸)کے بعد سرسید احمد خان کی قوائد ’’صرف ونحو زبانِ ارود‘‘کانام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی ترقی کی رفتار کافی سست رہی۔ ماضی قریب کی اگر بات کی جائے تو اس میں مولوی عبدالحق، وحیدالدین سلیم، سیدمحی الدین قادری زور، پنڈت برجموہن دتاتر یہ کیفی، عبدالستار صدیقی، عبدالقادر سروری، مسعودحسین رضوی ادیب، سید احتشامحسین، شوکت سبزواری اور سہیل بخار ی کے نام خصوصیات کے ساتھ لے جاسکتے ہیں جنھوں نے زبان اور علم ِزبان کے مختلف پہلوں پر لسانیانی اور اسلوبیاتی نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالی ہے۔ لیکن ان میں اسلوبیاتی تنقید کا دائرہ بہت محدو د پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر اہل علم نے تحریری زبان کو ہی زیر بحث لایا ہے۔

جدید یت کے دور میں اسلوبیابی تنقید بحیثیت ادب شناسی کے طور پر پیش کرنے کا سہرا  پروفیسرمسعود حسین خان کو جاتا ہے موصوف نے پہلی بار اسلوبیاتی تنقید کو مدلل اور مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خان (۱۹۱۹ ؁ء تا ۲۰۱۰ ؁ء) اُترپردیش کے ضلع فرخ آباد میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج کے ایک متمول اور ذی علم پٹھان گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے مورثِ اعلیٰ حسین خان کا وطن شمال مغربی سرحدی صوبہ ( موجودہ پاکستان صوبہ خیر پختون خوا) میں واقع ایک مقام تیراہ ( کوہاٹ کے شمال کا قبائلی علاقہ ) تھا۔ حسین خان نے تلاش معاش کے سلسلے میں اپنے آبائی وطن کی سکونت ترک کرکے ۱۷۱۵ ؁ء کے لگ بھگ قائم آباد ( یو۔ پی) میں آکر آباد ہوگئے۔

مسعودحسین خان نے یورپ اور امریکہ کے لسانی نظریات کو اردو میں متعارف کیاہے۔ موصوف نے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم یورپ اور امریکہ میں حاصل کی۔ جب مسعود صاحب یورپ میں تھے اُس وقت تنقید کی دنیا میں نوم چومسکی (Noom Chamsky)کی تصنیف (Syntactic Stracture)اور بلوم فیلڈ کی تحریروں نے لسانیات کے میدان میں کافی ہنگا مہ خیز تبدیلیاں برپا کردیے ہیں۔ اسی تناظر میں مسعودحسین خان نے لسانیات اور اسلوبیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے اسلوبیات، لسانیات اور ادب کے رشتے کی مظہر پر زور دیا ہے۔ ان کی تحریروں میں امریکی ماہر اسلوبیات آر کی بالڈا ے اور پروفیسر ہل کے تصورات کے اثرات نمایا ں طور پر نظر آتے ہیں۔ مسعود صاحب نے یورپ کے سفر کے واپسی پر  ۱۹۶۶؁ء میں اپنے تنقید ی مضامین کا مجموعہ’’شعرو زبان‘‘ شائع کیا ہے جس سے موصوف نے اسلوبیاتی تنقید کے نظرئیے کواردو میں باضابطہ طور پر متعارف کیا ہے۔ انہوں نے اقبال ؔ، غالبؔ اور فانیؔ کے کلام کا اسلوبیاتی تجزئیے پیش کیے ہیں۔ جس سے موصوف کواردو میں اسلوبیاتی تنقیدنگاری کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا خیا ل ہے کہ شاعرانہ وجدان جب پیرایہ زبان اختیار کرتا ہے تو اس کا ظہور مفرد الفاظ کی شکل میں نہیں بلکہ نحوی ترتیب کی صورت میں نمود ار ہوتا ہے اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

 ’’الفاظ کی اس سماجی زندگی ہی میں زبان اگر مکمل اظہار نہیں تو مکمل اظہار کے بعض مدارج تک پہنچ جاتی ہے اور شاعر انہ وجدان کی توسیع زبان کے ساتھ مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘  ۲؎

مسعود حسین خان نے شعر کی معنیاتی سطح تک پہنچنے کے لئے اس کی صوتی، صرفی اورنحوی سطحوں سے گزرنا اور ان کا تجزیہ کرناگزیر قرار دیا ہے۔ لسانیات کی باقاعدہ تعلیم و تربیت پانے کی وجہ سے ان کا ذہن، تجزیاتی، معروضی اور سائنسی طرزِ فکر کا حامل بن گیا ہے۔ ایک جگہ لسانیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’ اس میں سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جذبہ وتخیل کی دنیا سے نکل کہ انسان تعقلی استدال اور مظقی فکر کو اپنا ئے۔ ‘‘۳؎

 اگر چہ مسعود حسین خان بنیادی طور پر ادب کے استاد تھے لیکن لسانیات پر انہوں نے باقاعدہ تعلیم وترتیب حاصل کی ہے۔ لسانیات کے اطلاق اور مطالعہ ادب کے لیے اسلوبیاتی طریق کار کو اختیار کرنے کی باقاعدہ تحریک انھیں امریکہ میں آر کی بالداے ہل کے لکچروں سے ملی۔ موصوف نے (۱۹۵۹ ؁ء۔ ۱۹۶۰ ؁ء )کے دوران امریکہ کا علمی سفر کیا۔ جہاں انہوں نے ٹیکس یونیورسٹی (آسٹن )اور ہارورڑ یونیورسٹی میں لسانیات کے حوالے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ٹیکس یونیورسٹی میں ان کی ملاقات آر کی بالدا ے ہل سے ہوئی جو وہا ں پرشعبہ انگریزی کے صدر تھے۔ مسعود صاحب نے یہاں پر ہل کے لیکچر ز کو پابندی کے ساتھ سن لیا اور ان سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کیا ہے۔ ان ہی کے لکچروں کی وجہ سے موصوف کے ذہن کولسانیات اور اسلوبیات کے تناظر میں وسعت اور گہرائی ملی۔ ان لکچروں میں ان کو وہ سب کچھ ملا جس کی انھیں اپنی ملک (ہندستان )میں ہمیشہ سے جستجوں رہی۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

’’پروفیسر ہل کے لکچروں میں جن کو میں پابندی سے حاضری دینا تھا وہی پایا جس کی مجھے تلاش تھی یعنی لسنایات اور ادب کو کس طرح ہمہ دگر کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ ۴؎

 ٹیکس یونیورسٹی میں دوسمسٹرکا وقت گزارنے کے بعد مسعود حسین خان ہارورڈیونیورسٹی چلے گیے وہاں ان کی ملاقات آئی۔ اے، رچرڑز سے ہوئی۔ لیکن رچرڑز سے مو صوف زیادہ استفادہ حاصل نہیں کرپایاکیونکہ رچر ڈزو ہاں شعبہ انگریزی کے استاد تھے۔ پھر بھی رچرڈز سے ان کی ملاقات بڑی کار گر ثابت ہوئی۔ رچرڈز ادب کی ماہیئت اور معنی کی نوعیت کی سوچ رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ شخصیت تھے۔ لسانیات کے ماہر ان کو سمجھا جاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں رچرڈز سے مسعود صاحب کی ملاقات بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات تھی۔

 لسانیات کے موضوع پر ہارورڈیو نیورسٹی میں مسعود صاحب کو علم حاصل کرنے کے بہت سارے مواقعے ملے۔ یونیورسٹی کی علمی فضا ان کے لئے کافی سازگار رہی جس کی وجہ سے موصوف نے زبان وادب کے رشتوں کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا اور بہت سی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا ہے اس بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’اس زمانے میں میرے سر میں سودا سمایا ہوا تھا کہ زبان کے نازک ترین استعمال یعنی شاعر انہ استعمال کی کُنہ تک پہنچ سکوں۔ لسانیات کا مطالعہ اب میرے لیے ثانوی ہوگیا تھا جبادبی نقادوں کی لفاظی سے گھبر اجاتا تو پھر لسانیات میں غوط زن ہوتا۔ قدماء کے علمِ بیانو بلاغت کے بارے میں مشاہدات اور فرصودات کو لسانی علم کی کسوٹی پر کسنے کی کوشش کرتا۔ اس میں چامسکی کے نظرئیے سے بہت مدد ملتی۔ اس لئے کہ اس نے علم ِلسانی کی آنکھیٔں باہر کے بجائے اندر کی جانب کردی تھیں۔ اب ’’معنی‘‘اس قدر ’’بے معنی ‘‘نہیں تھا جس قدر کہ ’’ بلو م فیلڈیوں ‘‘نے سمجھ رکھا تھا۔ لیکن اس کے لیے نفسیاتی لسانیات پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔‘‘ ۵؎

 ہارورڈیونیورسٹی میں مسعود حسین خان نے لسانیات کے علاوہ شعروفن کے مسائل کے رشتوں کے بارے میں بھی کافی سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ مگر انھوں نے مطالعہ شعر کے حوالے سے ’’متن شعر ‘‘اور شاعر کی لسانی محرکات تک ہی اپنے مطالعے کو محدود رکھا ہے۔ حقیقت میں یہی پہلو اسلوبیات تنقید کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسعود صاحب نے مطالعہ شعر میں لسانیاتی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لئے متن ’’Text‘‘کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ امریکہ سے ہندستان جب مسعود صاحب واپس آئے تو یہاں اس موضوع پر موصوف نے مضامین اور مقالات شائع کیے ہیں۔ اپنے ایک مضمون ’’شعروزبان ‘‘میں نظرئیہ شعر کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار اس طرح بیان کرتے ہیں :

  ’’لسانیاتی مطالعہ شعر، دراصل شعریات کا جدید ہیئتی نقطہ نظر ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ جامع ہے۔ اس لیے کہ یہ شعری حقیقت کا کلی تصور پیش کرتا ہے۔ ہیئت وموضوع کی قدیم بحث اس نقطہ نظر سے بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ کلاسیکی نقدِ ادب کے اصولوں کی تجدید کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اوراصطلاحات ادب کو سائنسی بنیادعطا کرتا ہے۔ لسانیاتی مطالعہ شعر صوتیات کی سطح سے اُبھرتا ہے اور ارتقائی صوتیات، تشکیلیات صرف ونحو اور معنیات کی پُر پیچ وادیوں سے گزرتا ہوا ’اسلوب ‘پر ختم ہوجاتا ہے۔ ‘‘         ۶؎

 اسی مضمون کے اگلے صفحات پر موصوف نے ’’مطالعہ شعر ‘‘کے حوالے سے اسلوبیاتی نظرئیے کو اس طرح بیان کیا ہے :

 ’’لسانیاتی مطالعہ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات اہمیت۔ اہمیت دراصل ہوتی ہے اس فن پارے کی جس کی راہ سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘   ۷؎

 ڈیل۔ ایچ۔ ہائمز  Dell H. Hymes  ادب، بشریات اور لسانیات شعبٔوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کی دلچسپی اسلوبیات اور سماجیاتی لسانیات سے بھی کافی گہری ہے۔ ۱۹۶۰؁ء میں انھوں نے اپنے ایک مقالےPhonological Aspect of Style: Some English Sonnets  میں انگریزی ادب کے کچھ تحریروں کے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صوت و معنی (  Sound and Sense )کے درمیان ایک باہمی رشتہ پایاجا تا ہے جو صوتی رمزیت(Sound Symbolism) کی صورت میں شاعری میں موجود ہوتا ہے۔ ہائمز کے انہی خیالات سے استفادہ حاصل کر کے اردو میں اسی طرز کے صوتی تجزیے کے طریق کار کا اطلاق مسعود حسین خان نے اقبالؔکی دو نظموں ’’ ایک شام‘‘ اور ’’حقیقتِ حسن ‘‘کے صوتیاتی تجزیوں پر کیا ہے۔ ان تجزیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہے:

 ’’ خود میں نے اقبال ؔکی دو نظموں ’’ایک شام‘‘اور ’’ حقیقتِ حسن‘‘ کا صوتیاتی تجزیہ ’’اقبال ؔکی نظری و عملی شعریات‘‘ میں پیشکیا اور ڈیل ہائمز کے انداز میں اس کے تجمعی   Summativeلفظ کا تعین پہلی نظم میں ’’خاموش ‘‘اور دوسری میں ’’حسن ‘‘ کیا۔ ‘‘    ۸؎

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسعود حسین خان نے اسلوبیات تنقید کو مغرب کے راستے اردو میں متعارف کیا ہے۔ انھوں نے براہ راست مغرنی اسلوبیات سے استفادہ حاصل کرکے اردو میں اس طرزِ نقد کی داغ بیل ڈالی۔ جس کی وجہ سے ہندوستان میں اسلوبیاتی تنقید کے بانی یاامام مسعود صاحب کو ہی کہتے ہیں۔ موصوف نے پہلی بار اردو میں اسلوبیات تنقید کو باضابطہ طور پر منظم اور مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ ان ہی سے اسلوبیاتی فکر کا کاروان آگے بڑھ گیا۔ اگرچہ اس موضوع پر انھوں نے کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی۔ لیکن اپنے مضامین ومقالات کی بدولت انھوں نے ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت کا کام انجام دیا۔

 مسعود حسین خان نے اپنی ذہنی قابلیت کی بدولت شاگردوں کی ایک ایس جماعت تیار کرلی جنھوں نے آگے چل کراس نظرئیے ادب کو چار چاند لگادیا۔ ان کے شاگردوں میں پرفیسر مرزا خلیل احمد بیگ اور مغنی تبسم بہت مقبول ومشہور شخصیت کے مالک ہیں۔ ان دونوں نے اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے لئے قابلِ فخر کارنامے انجام دئیے ہیں۔ اپنے ایک مضمون’’ لسانی اسلوبیات اور شعر‘‘ میں مسعود حسین خان ان دونوں ذہین شاگردوں کے بارے لکھتے ہیں :

’’صوتیاتی سطح پر تجزیے کے اس انداز کو میرے دو شاگردوں پرفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی تحریروں میں آگے بڑھایا۔ مغنی تبسم کا ’’فانی کی شاعری کا تجزیہ ‘‘ اور ’’غالب کی شاعری :باز یچہ اصوات ‘‘قابل ذکرہیں اور مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ‘‘(فیضؔ اور اقبالؔ کی نظمیں ’’تنہائی ‘‘) اس قسم کے تجزیے کی اچھی مثالیں ہیں۔ ‘‘ ۹؎

مغنی تبسم نے اسلوبیاتی تنقید کی روایت کو بہت عمدگی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ اسلوبیات کے حوالے سے ان کی دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب انھوں نے فانی بدایونی پر شعبہ اردو کے عثمانیہ یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی کام شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کے نگران ڈاکٹر مسعود حسین خان ہی تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب استاد لسانیات کے ماہر ہونگے تو ان کے اثرات شاگرد پر ضرور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہی صورت حال یہاں بھی دیکھنے کو ملی جس سے ان کو اسلوبیاتی تنقید کے مطالعے و تجزیے کے حوالے سے کافی شوق پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح مسعود حسین خان کے دوسرے شاگر د مرزا خلیل احمد بیگ نے بھی اس طر زِ نقد کے حوالے سے اپنی ذہین صلاحیتوں سے کافی مقبولیت حاصل کی۔ اس موضوع پر موصوف نے بہت عمدہ اور جاندار کتابیں تحریر کیے ہیں جن میں ’’زبان، اسلوب اور اسلوبیات ‘‘، ’’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘‘، ’’ ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ‘‘اور’’اسلوبیاتی تنقید :نظری بنیاد یں اور تجزے ‘‘قابل ذکر کارنامے ہیں۔ کتاب ’’زبان، اسلوب اور اسلوبیات ‘‘کاپیش لفظ مسعود حسین خان نے ہی تحریر کیا ہے جو اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ خلیل صاحب پربھی مسعود حسین خان کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

 لسانیات کو تنقید کے دائرے میں صرف اسلوبیاتی تنقید نے ہی لایا ہے۔ اس سے پہلے اردو تنقید میں شعوری طور پر لسانیات سے کام نہیں لیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اسلوبیاتی تنقید کا یہ بہت بڑا اہم کارنامہ مانا جاتاہے کہ اس نے اردو تنقید میں لسانیات کا رشتہ تنقید سے براہ راست جوڑلیا ہے۔ وہی لوگ ادب شناسی کے حوالے سے اسلوبیات کا سہار ا لیتے ہے جن کو لسانیات کا علم ہوگا۔ لہذا اسلوبیات کے لئے لسانیات کا علم ہونا ایک ضروری جز قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے سے متعلق جو علم وبصیرت فراہم کرتی ہے اس کا اطلاق ادب کے مطالعے اور تجزیے میں بھی کیا جاتا ہے۔ لسانیا ت میں جتنے بھی نئے نظریات، خیالات وتصورات فروغ پاتے ہیں ان کا اطلاق ادب کے مطالعے میں بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات Applied Linguistics  کی ایک اہم شاخ قرار دیا گیا ہے۔ مسعود حسین خان نے بھی اسی تناظر میں غالب ؔکے کلام کے قوامی ودیف کا صوتی آہنگ سے تجزیہ پیش کیاہے۔ جس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غالبؔ کے یہاں مصوتوں (Vowels)پر ختم ہونے والے قافیوں کی تعداد ۴۸ ہیں۔ جبکہ مصوتوں سے شروع ہونے والے ردیفوں کی تعداد صرف ۷ہے۔ یعنی قافیوں کے مصوتوں پر ختم ہونے کے بعد ردیفیں عام طور پر مصمتوں (Consonants)سے شروع ہوتی ہے اور ایسی بہت کم ردیفیں ہیں جو مصوتوں سے شروع ہوتی ہے۔ موصوف نے کلام ِغالبؔ کی یہ ایک نمایاں اسلوبیاتی خصوصیات قرار دی ہے۔ اس بارے میں لکھتے ہیں :

’’مصوتے قافیوں کے اختتام پر لائے جائیں تو صوتی گرہ زیادہ کامیابی سے لگائی جاسکتی ہے۔ بہ مقابلہ اس کے کہ یہ دریف کا پہلا جز وہوں۔ ‘‘ ۴۶؎

 مسعود حسین خان نے نمونے کے طور غالب ؔکے کچھ غزلوں کے اشعار پیش کیے ہیں جویہ ہیں :

ہوس کوہے نشاط ِکارکیا کیا

لازم تھا کہ دیکھومرارشتہ کوئی دن اور

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

 دل ِنادان تجھے ہوا کیا ہے

اسلوبیاتی تنقید پر مسعود حسین خان نے بیش قیمتی تحریر یں قلم بند کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا پہلا مضمون ’’مطالعہ شعر:صوتیاتی نقطہ نظر سے ‘‘کے نام سے منظر عام پر آیا ہے جوان کے مجموعہ مضامین ’’شعروزبان ‘‘میں موجود ہے۔ یہ مجموعہ حیدآباد سے  ۱۹۶۶ ؁ء میں شائع ہوا تھا۔ اسلوبیاتی تنقید پر ان کے چند مضامین ’’مقالاتِ مسعود‘‘(نئی دہلی ۱۹۸۹ ؁ء)اور ’’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘‘ (۱۹۸۳ ؁ء)میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف نے مختلف رسائل وجرا ئد میں بھی اس موضوع کے حوالے سے شعروادب کا جائز ہ لے کر بے شمار مضامین شائع کیے ہیں جن میں چند نمائندہ مضامین کے نام ذیل میں درج کررہا ہوں :

شاعری کے زمرے میں مسعودصاحب کے حسب ذیل مضامین اہمیت کے حامل ہیں۔

۱۔     مطالعہ شعر:  صوتیاتی نقط نظر سے

۲۔    کلامِ غالبؔ کے قوافی وردیف کا صوتی آہنگ

۳۔    کلامِ غالبؔ کے صوتی آہنگ کا ایک پہلو

۴۔     فانی ؔ کا صوتی آہنگ : ایک غزل کا لسانیاتی تجزیہ

۵۔     اقبال ؔ کاصوتی آہنگ

۶۔     محمد قلی کی زبان

نثری اسلوب کے مطالعے اور تجزیے کے ضمن میں مسعو د حسین خان کے مندرجہ ذیل مضامین نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

۱۔      غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت

۲۔     خواجہ حسن نظامی :زبان اور اسلوب

۳۔    نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش

اس کے علاوہ مسعود حسین صاحب نے ذیل کے ان مضامین میں بھی اسلوبیاتی تنقید کے مختلف پہلوں کو زیر بحث لایا ہیں۔

۱۔      تخلیقی زبان

۲۔     ادب میں اسلوب کی اہمیت

۳۔     لسانیاتی اسلوبیات اور شعر

 مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہے کہ پروفیسر مسعود حسین خان نے اردو میں باضابطہ طور پر اسلوبیاتی تنقید کی عمارت قائم کی۔ موصوف نے نہ صرف اردو میں اسلوبیاتی و لسانیتی نظرئیے کو متعارف کیا بلکہ اس تصور کا ایسا چراغ روشن کیا جس نے اپنی روشنی سے پورے اردو ادب خاص کو تنقیدکی دنیا کو منور کیا ہے۔ اس سلسلے میں مسعود حسین خان کی خدمات  مشعل راہ کی حیثیت اختیار کرگیا جس نے اس راستے پر چلنے والوں کی رہنمائی و رہبری کی۔

حوالہ جاتی

(۱)۔ ’’معاصر تنقیدی زاوئیے‘‘، ابوالکلام قاسمی، سرسبز، بدرباغ، جیل روڈ، علی گڑھ، ۲۰۰۷ ؁ء، ص۔ ۱۵۶

(۲)۔ ’’تفہیم وتجزیہ ‘‘، سیدہ جعفر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۲۰۰۸ ؁ء، ص۔ ۱۵۲

(۳)۔ بحوالہ مسعود حسین خان (مقالات مسعود)، نئی دہلی ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۹ ؁ء، ص۔ ۱۷۹

(۴)۔ بحوالہ مسعود حسین خان، ’’ورودِمسعود ‘‘، (پٹہ: خدابخش اُور ینٹل پبلک لا ئبریری) ص۔ ۱۸۹

(۵)۔  ایضاً، ص۔ ۱۸۲

(۶)۔ ’’شعرو زبان ‘‘، مسعود حسین خان، حیدر آباد شعٔبہ اردو عشمانیہ یونیورسٹی، ۱۹۶۶ ؁ء، ص۔ ۱۶

(۷)۔ ایضاً، ص۔ ۱۸

(۸)۔ ’’اسلوبیاتی تنقید :نظری بنیادیں اور تجزیے‘‘، پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی   دہلی، ۲۰۱۴ ؁ء، ص۔ ۱۷۴

(۹)۔ بحوالہ’’ لسانی اسلوبیات اور شعر ‘‘، مسعود حسین خان، مطبوعہ ’’آج کل ‘‘، (نئی دہلی )جلد ۴۹، شمارہ۱۱، جون  ۱۹۹۱ ؁ء، ص۔ ۴

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔