انسان اور زمین کی حکومت (20)

رستم علی خان

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴿002:258﴾

بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔ یہ سن کر کافر حیران رہ گیا۔ اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

بعد چالیس دن کے حضرت ابراھیم علیہ السلام نمرود کی آگ سے باہر نکلے اور نمرود کے دربار میں پنہچے اور اسے حق کو قبول کر لینے کی دعوت دی کہ ابھی بھی وقت ہے اللہ سے ڈر جاو اور اس کی طرف آ جاو  تب نمرود نے پوچھا کہ تیرا رب کون ہے ؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس نے مجھے تمہیں اور تمام انسانوں جانورں چرند پرند زمین و آسمان اور ان میں موجود ہر چیز کو بنایا ہے اور وہ انہیں عنقریب مار کر پھر بنانے والا ہے- تب اس نے پوچھا اے ابراہیم بتا تو تیرا رب کیا کر سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے کہ جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے- اس نے کہا یہ کام تو میں بھی کر سکتا ہوں اور دو قیدیوں کو بلوایا جن میں سے ایک رہائی پا چکا تھا جب کہ دوسرے کو موت کی سزا ہو چکی تھی- لعین نے رہائی پانے والے کو قتل کروا دیا اور جسے موت کی سزا ہوئی تھی اسے آزاد کر دیا اور کہا کہ دیکھو زندگی اور موت تو میں بھی دے سکتا ہوں- تب حضرت ابراہیم سمجھے کہ ایسے تو یہ اور بھی خرابی کرے گا سو ایک ٹھوس دلیل دی اور فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے کہ جو سورج کو مشرق سے طلوع کر کے مغرب میں غروب کرتا ہے- سو اگر تم سچے ہو تو اس کے برعکس کر کے دکھاو کہ مغرب سے سورج کو طلوع کر کے مشرق میں غروب کرو اگر کر سکتے ہو تو- تب وہ لاجواب ہوا اور چپ ہو گیا- بعد اس کے حضرت ابراہیم وہاں سے نکلے اور لوگوں کو حق کی دعوت دینے لگے- اسی دوران آپ کا نکاح آپ کی چچا زاد حضرت سارہ سے ہو گیا-

بعد اس کے نمرود لعین نے اللہ سے جنگ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں اس رب کو جو ابراہیم کا رب ہے اور آسمانوں میں رہتا ہے نعوذ باللہ اسے قتل کر دوں گا اور ساری بادشاہت اس کی چھین لوں گا- اس کے لئیے اس نے ایک ایسی بڑی فصیل بنانے کا حکم دیا جس پر چڑھ کر وہ تیر کمان سے اللہ کو مارنے کا فیصلہ رکھتا تھا- لیکن جب وہ فصیل ایک حد سے بڑی تو اللہ کے حکم سے گر کر زمین بوس ہوئی- پھر وہ ایک ایسے بڑے پرندے پر بیٹھا جس کے بارے میں ہے کہ وہ چیل کی مانند تھا اور اس کے بڑے بڑے پر تھے اور تیر کمان ساتھ لیا اور اڑا کہ میں آسمانوں کے رب کو ماروں گا- لیکن جب پرندہ ایک حد تک اوپر گیا تو سورج کی گرمی اور تپش سے نیچے آ گیا- تب اللہ نے اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجا جس نے اسے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن وہ نہ مانا- پھر دوسری مرتبہ بھی فرشتے نے اسے دعوت دی اور اللہ کے خوف سے ڈرایا لیکن وہ سرکش نہ مانا- جب تیسری دفعہ پھر دعوت دی تو اس نے صاف کہا کہ تم اپنا لشکر تیار کرو اور میں اپنا لشکر تیار کرتا ہوں اور مجھ سے جنگ کرو- تب فرشتہ واپس ہوا-  اور اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ وہ ہجرت کر جائیں یہاں سے تب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو اور چند جو لوگ ایمان لائے تھے ساتھ لے کر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت فرما گئے-

حضرت ابراہیم نے اپنے باپ آزر کے لئیے بارگاہ ربویت میں التجا پیش کی تو حکم ہوا کہ اے ابراہیم کافروں کے بارے میں ہم سے کوئی سوال نہ کرو بیشک ان کے واسطے سخت عذاب تیار ہے- بعد اس کے نمرود اپنا لاو لشکر لے کر ایک بڑے میدان میں پنہچا اور جنگ کی تیاری کرنے لگا- تبھی آسمان کا دروازہ کھلا اور مچھروں کی ایک فوج نکلنا شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے آسمان پر بادلوں کی طرح چھا گئی اور سورج ان کے پیچھے چھپ گیا- چونکہ نمرود دعوی خدائی کا رکھتا تھا اور ایک فوج کے ساتھ اللہ سے جنگ کرنے نکلا تھا اس لئیے اللہ نے اس کے مقابلے ایک ادنی سی مخلوق کو بھیجا کہ تو ہماری اس مخلوق کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو ہمارا کیا کرے گا-

مچھروں نے چند ہی پل میں نمرود کی ساری فوج کو کھا دیا اور ان کی ہڈیاں ہی باقی بچی رہ گئیں باقی گوشت پوست سارا چٹ کر لیا- اور ایک لنگڑا مچھر نمرود کے ناک کے نتھنے میں گھس گیا- روایات میں ہے کہ اس مچھر نے جب نمرود کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کی خوایش ظاہر کی تو سب نے کہا کہ تو وہاں کیا کرے گا لیکن اس کے جذبہ ایثار کو دیکھ کر اللہ نے فرمایا کہ ہم تجھ سے ایسا کام لیں کہ سب تجھ پر رشک کریں گے اور فرمایا کہ تو نمرود کے ناک میں گھس جا اور اس کے دماغ میں پنہچ جا- پس اس نے ایسا ہی کیا اور بعد اس کے نمرود چار سو سال زندہ رہا اور اپنا سر دیواروں سے مارتا اور لوگوں سے اپنے سر میں جوتے مرواتا کہ اس سے تھوڑی دیر کو مچھر ٹک کے بیٹھ جاتا اور نمرود کو بھی سکون ملتا- بیشک جو سر اللہ کے آگے جھکتے نہیں اللہ ان کے لئیے ایسی ہی سزا تجویز کرتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کی ہٹ دھرمی، انکار اور کفر دیکھا تو نا امید ہو کر ہجرت کا ارادہ فرما لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"پس ان پر (ایک) لوط ایمان لاۓ اور (ابراہیم) کہنے لگے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، بیشک وہ غالب، حکمت والا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے جدائی اختیار کر لی اور ان کے ملک سے ہجرت فرما لی آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی البتہ ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام آپؑ کے ساتھ تھے اور بعد میں اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی نیک اولاد عطا فرمائی اور آپ کے بعد مبعوث ہونیوالا ہر نبی آپ ہی کی اولاد سے تھا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کر کے جس علاقے میں گئے وہ شام کا ملک تھا۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا سواۓ تین مواقع کے جو بظاہر کذب معلوم ہوتے ہیں لیکن اللہ پاک کی حکمت ہی تھی اور وہ تین یہ ہیں:

"میں بیمار ہوں” یعنی جب انکی قوم جشن میں گئی اور انکو بھی ساتھ چلنے کو کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی جانب دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں بیمار ہوں کیونکہ وہ نہیں جانا چاہتے تھے اور قوم کے چلے جانے کے بعد انہوں نے بت شکنی کی تھی۔
"یہ ان کے بڑے نے کیا ہو گا” بت شکنی کے بعد انہوں نے کلہاڑا سب سے بڑے بت کے ہاتھ میں تھما دیا تھا تاکہ یہ تاثر ملے کہ اس نے چھوٹے بتوں کا مار ڈالا اور قوم کے پوچھنے پر فرمایا تھا کہ اس بڑے بت سے پوچھو اس نے ہی یہ کیا ہو گا۔ مقصد قوم کو احساس دلانا تھا کہ جن بتوں کو وہ پوجتے ہیں وہ جے جان ان کے خود تراشیدہ ہیں اور بولنے کی طاقت نہیں رکھتے تو انکا نفع نقصان کیسے کر سکتے ہیں۔

تیسرے تب جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ علیہ السلام کو لیکر شہر سے نکلے راستے میں انکا گزر ایک ظالم بادشاہ کے شہر (مصر) سے ہوا جو عورتوں کی بہت خواہش رکھتا تھا اور بہت جلد اس طرف مائل ہو جاتا تھا جب اسے پتا چلا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی حسین زوجہ کے ساتھ ان کے علاقے میں ہیں تو اس نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا "یہ میری بہن ہے”۔۔۔ خیال رہے کہ اس سے مراد مومن بہن ہے کیونکہ اس دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی ایمان نہ لایا تھا اور بیوی کو بہن کہنا شریعت میں درست ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ تیسری بات تھی جو بظاہر کذب معلوم ہوئی لیکن اس میں حکمت تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جواب سن کر وہ ملعون بولا کہ اپنی بہن کو مجھے دیدو تو انہوں نے کہا وہ مرضی کی مالک ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ کے پاس آۓ اور فرمایا کہ میں نے اس آدمی کو یہ کہا ہے کہ تم میری بہن ہو تو اب تو میری بات کو نہ جھٹلانا۔

اس کے بعد ملعون کے حکم پر حضرت سارہ کو زبردستی تیار کر کے اس کے سامنے پیش کیا گیا اس نے چاہا کہ بے ادبی کے لے اور اسی وقت اللہ پاک کے حکم سے زانو تک زمین میں گھس گیا۔ تب حضرت سارہ نے کہا کہ مردود میرا خاوند اللہ پاک کا دوست ہے اور خدا کو یہ ہر گز منظور نہیں کہ وہ مجھے تجھ جیسے شیطان کے ہاتھوں رسوا کرے یہ سن کر وہ گڑگڑانے لگا اور معافی مانگی تو اللہ کے حکم سے اسکی سزا ختم ہوئی ۔ دوسری بار پھر اس نے جب نگاہِ بد کی تو اندھا ہو گیا اور کہنے لگا بی بی میرے حال پر رحم کرو اور میری مغفرت مانگو اور معافی ملنے پر ٹھیک ہو گیا لیکن اس بد بخت پر شیطان نے ایسا غلبہ کر رکھا تھا کہ اس نے پھر سے عہد شکنی کی اور اسکا پورا جسم شل ہو گیا اور وہ حضرت سارہ سے دعا کے لئے گڑ گڑانے لگا انہوں نے کہا اے ظالم یہ میری دعا نہیں بلکہ میرے شوہر کی دعا اور اللہ کا احسان ہے یہ انکا فیصلہ ہے چاہیں تو تجھے معاف کریں چاہیں یا نہ کریں۔ تب اس نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندر بلاؤ اور اس شخص کے حال پر دعا کی اور اللہ پاک نے اسکو تندرستی عطا کی اس پر اس بادشاہ نے شکر ادا کیا اور ایک نیک بخت بی بی حضرت سارہ کی خدمت میں پیش کی اور کہا کہ میں نے آپکی نے حرمتی کی کوشش کی اور غلط نگاہ کی مگر تمہارے عفو و معاف کے شکرانے میں یہ بی بی حاجرہ تممہیں دیتا ہوں ، جو گناہ مجھ سے ہوۓ معاف کر دیجئے گا۔ بی بی حاجرہ کے لئے حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ” اے آسمان کے پانی جیسی پاکباز ماؤں اور باپوں کی اولاد! (اہلِ عرب) یہ عظیم ہستی تمہاری والدہ محترمہ ہیں۔

حضرت سارہ کے ساتھ جو بھی ہوا بند کمرے میں ہونے کے باوجود اللہ پاک نے ان کے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان پردہ ہٹا دیا اور وہ سب دیکھ رہے تھے ، نماز پڑھ کر حضرت سارہ کے لئے دعائیں مانگ رہے تھی جو اللہ پاک نے پوری کیں۔
بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ اور بی بی حاجرہ کو لے کر ارض مقدس کی طرف چلے گئے۔

بعد اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کچھ عرصہ مصر میں رہے اور پھر عرض مقدس (فلسطین) کی طرف لوٹ آئے- اس وقت آپ کے ساتھ حضرت سارہ حضرت لوط حضرت حاجرہ اور بہت سے مویشی مال اور غلام تھے-

پھر حضرت لوط علیہ السلام اپنے کثیر مال کے ساتھ "غور” کے علاقے کی طرف ہجرت کر گئے کیونکہ حضرت ابراہیم کا انہیں یہی حکم تھا- وہاں آپ "سدروم” کے شہر میں اقامت پذیر ہو گئے جو اس وقت علاقے کا مرکزی شہر تھا- یہاں کے باشندے کافر بدکار اور شریر تھے-

پھر اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم پر وحی نازل فرمائی تو آپ نے اللہ کے حکم سے نظر اٹھا کر شمال جنوب اور مشرق و مغرب کی جانب دیکھا- اللہ تعالی نے آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ میں یہ زمین تجھے اور تیری اولاد کو عطا کروں گا-اور تیری اولاد کو بڑھاوں گا حتی کہ وہ ریت کے زروں کی طرح ہو جائیں گے یعنی اس طرح بڑھیں گے اور زمین میں پھیل جائیں گے-

علمائے کرام بیان فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کچھ بدمعاشوں نے حضرت لوط پر قابو پا کر انہیں قید کر لیا اور ان کا مال و مویشی سب چھین لئیے- بعد اس کے حضرت ابراہیم تین سو افراد کا لشکر ساتھ لے کر گئے اور کافروں سے جنگ کر کے حضرت لوط علیہ السلام کو آزاد کروایا اور ان کا مال و متاع بھی واپس لے لیا اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی بہت سی تعداد کو تہ تیغ کیا اور انہیں شکست دی اور ان کا تعاقب کیا یہاں تک کے دمشق کے شمال تک پنہچ گئے اور وہاں "برزہ” کے مقام پر پڑاو ڈالا- میرے خیال میں اس جگہ کو مقام ابراہیم اسی لئیے کہا جاتا ہے کہ وہاں ابراہیم کے لشکر نے پڑاو ڈالا-  پھر آپ فاتحانہ طور پر بیت المقدس واپس آئے اور وہاں کے بادشاہوں نے بڑے احترام سے آپ کا استقبال کیا اور آپ کی اطاعت قبول کی اور آپ وہیں اقامت پذیر ہو گئے-
حضرت اسماعیل کی ولادت اہل کتاب کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اللہ سے پاک باز اولاد کی دعا کی تو اللہ نے انہیں خوش خبری سنائی- جب حضرت ابراہیم کو بیت المقدس میں رہتے بیس سال ہو گئے تو حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم سے کہا:؛ اللہ نے مجھے اولاد سے محروم رکھا ہے آپ میری لونڈی حضرت حاجرہ کے پاس جائیں شائد اللہ تعالی آپ کو اس سے اولاد عطا فرما دے اور خود حضرت حاجرہ کا نکاح حضرت ابراہیم سے کروایا- جب حضرت ابراہیم بی بی حاجرہ کے پاس گئے تو اللہ نے ان کو خوشی کی نوید سنائی اور وہ امید سے ہو گئیں- اہل کتاب کہتے ہیں کہ جب وہ (حضرت حاجرہ) امید سے ہوئیں تو حضرت سارہ کو حقیر جاننے لگیں (کہ ان سے اولاد نہیں ہو سکتی اور عورت تو مکمل ہی تب ہوتی ہے جب وہ ماں بنے) حضرت سارہ کو غیرت آئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم سے شکایت کی تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم جو چاہو کرو-

تب حضرت سارہ نے عہد کیا کہ وہ حاجرہ کے جسم کا کوئی حصہ چھید دیں گی- حضرت حاجرہ ڈر کر وہاں سے بھاگیں اور ایک چشمے کے پاس پنہچیں تو وہاں انہیں ایک فرشتہ ملا اس نے ان سے کہا کہ خوف نہ کر تیرے ہاں جو بیٹا پیدا ہونے والا ہے اللہ تعالی اس میں بہت خیر و برکت فرمائے گا-اس نے انہیں واپس جانے کا حکم دیا اور خوشخبری دی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور اس کا نام اسماعیل ہو گا- اور اس کا ہاتھ سب پر ہو گا اور سب کے ہاتھ اس کے ساتھ ہوں گے اور وہ اپنے سارے بھائیوں کے ملک کا مالک ہو گا- حضرت حاجرہ نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر واپس آئیں- تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ دونوں (حضرت سارہ اور حضرت حاجرہ) کی صلح کروائی تو حضرت سارہ نے پوچھا کہ پھر میری قسم کا کیا ہو گا ؟ تب آپ نے فرمایا کہ تم حاجرہ کے کان چھید دو اور اس طرح تمہاری قسم بھی رہ جائے گی اور تب سے عورتوں کے کان چھیدنے کا طریقہ بھی چلا۔

تبصرے بند ہیں۔