انسان سازی کی ابتدا!

عالم نقوی

اگر ہم اپنے بچوں کو انسان بنانا چاہتے ہیں تو اِس کی ابتدا اَیاَّمِ رِضاعَت ( دودھ پینے کی عمر )ہی سے ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر ضیا الہدیٰ لکھتے ہیں کہ رضاعت کی عمر کو تعلیم کے پہلو سے ہرگز نہ ضایع کرنا چاہیے کیونکہ بچوں کے انسان بننے کی  نیو اِن  ہی دو ڈھائی برسوں میں پڑتی ہے۔ اس مرحلے میں بچے کو آس پاس کی اشیا اور ان کے ناموں کا علم حاصل کرادینا چاہیے۔ (بچہ مستقبل میں ’انسان ‘ بننے والا ہے یا ’مشین ‘ یا محض ایک مادّی حیوان یا حیوانی مشین اس کا فیصلہ ڈھائی سے چھے سال کی عمر میں ہو جاتا ہے) اس دوران جب بچے کے اندر سچ اور جھوٹ صحیح اور غلط میں امتیاز کی اِستِعداد پیدا ہونے لگے تو اسی وقت سے بچوں میں درج ذیل صلاحیتوں کی مشق کرائی جانی چاہیے۔

(الف  )صحیح اور غلط یا سچ اور جھوٹ کی پہچان (ب)غلط کے مقابلے میں ہمیشہ صحیح کے انتخاب کی عادت اور اس کی حوصلہ افزائی  (ج)کوئی بھی کام کرنے میں اس کے ظاہری مقررہ ضابطے FORMکی پابندی کی اہمیت کا شعور۔ اور (د)نظم و ضبط یعنی ڈسپلن کی پابندی۔

اسی دوران یعنی دو سے چھے سال کی عمر کے درمیان ہی انہیں والدین بالخصوص ماں اور استاد کا احترام کرنا سکھا دیجیے۔ اور یہ ذہن نشین کرا دیجیے کہ گالی بکنا، گالی دینا ایک قابل نفرت کام ہے جسے نہ تو وہ  انسان پسند کرتا ہے جسے گالی دی جا رہی ہے اور نہ اس کا ہمارا اور ہمارے جیسے تمام  انسانوں کا خالق، مالک اور پالنے والا اللہ ْ۔۔ جو بچے والدین کے سامنے گالیاں بکتے ہیں اور جو اپنے کم سن بچوں کی توتلی زبان سے گالیاں سن کر خوش ہوتے ہیں وہ اللہ کی نا خوشی تو خرید ہی رہے ہوتے ہیں اپنے بچوں کو بھی گلیَر، گالی باز اور گالیاں بکنے والا بنا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بڑے ہونے کے بعد پھر یہ سمجھانا جوئے شیر لانے جیسا ہوتا ہے کہ گالی کوئی بری چیز ہے یا گالی نہ بکنا چاہیے یا گالیاں اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب بن جاتی ہیں۔

پھر چھے سال سےتیرہ چودہ سال تک کا زمانہ جس میں بچے کی اسکولنگ ہوتی ہے یہ تقریباً فیصل ہوجاتا ہے کہ اس بچے کو آگے چل کر کیا بننا ہے۔ ’جاب زدہ مشین ‘، ’ کریر گزیدہ حیوان ‘یا پھر’دانش و حکمت کا حامل انسان ‘جو نہ صرف اپنے مقصد ِ وجود سے آشنا ہو بلکہ یہ بھی جانتا ہو کہ اُسے یہ دنیا جس حالت میں ملی ہے، اپنے بعد والوں کے لیے اس سے بھی زیادہ اچھی حالت میں چھوڑ کر اُسے جانا چاہیے۔

امریکہ کے سابق مقتول  صدر  ابراہم لنکن (۶۵۔۱۸۶۱ )(پیدائش ۱۸۰۹ موت ۹ اپریل ۱۸۶۵)نے جب اپنے بیٹے کو پہلی بار اسکول بھیجا تو اس کے ٹیچر کو ایک یادگار خط لکھا کہ:

’’۔ ۔میں جانتا ہوں کہ وہ اب یہ سیکھے گا کہ دنیا کے تمام انسان عادل اور حق گو نہیں ہوتے لیکن آپ اُسے یہ بھی سکھائیے گا کہ ’ہر فرعونے را موسیٰ ‘۔ جہاں دنیا میں بدمعاش ہوتے ہیں وہیں ایک ’ہیرو‘ بھی ضرور ہوتا ہے۔ جہاں خود غرض سیاست داں ہوتے ہیں وہیں ایک بے لوث رہنما بھی ضرور ہوتا ہے۔ اور آپ اسے یہ بھی سکھائیے گا کہ دنیا میں صرف دشمن ہی نہیں ہوتے دوست بھی ہوتے ہیں۔ ہو سکے تو آپ اسے حسد کے مرض سے بچائیے گا۔ اور جہاں آپ اُسے کتابوں کے عجائبات سے متعارف کرائیے گا وہیں آپ اس کو آسمانوں میں چڑیوں کے شور، دھوپ میں شہد کی مکھیوں کی محنت اور ہمہمے(شہد کے چھتے سے مکھیوں کی موجودگی میں نکلنے والی مخصوص آواز )، اور پہاڑوں کی ہری بھری وادیوں میں پھولوں کے خاموش نغموں سے بھی ضرور روشناس کرائیے گا۔ آپ اسکول میں اسے سکھائیے گا کہ عزت سے فیل ہوجانا نقل کر کے پاس ہوجانے کی ذلت سے بہتر ہے۔ آپ اسے شریفوں کے ساتھ نرمی اور ظالموں کے ساتھ سختی کرنا سکھائیے گا۔ آپ اسے رہبری کرنا سکھائیے گا، بھیڑ، ہجوم کی پیروی نہیں۔ آپ اسے سکھائیے گا کہ وہ توجہ کے ساتھ ہر ایک کی بات سنے لیکن اسے سچ کی چھلنی سے بھی گزارے اور جو اَحسن (اچھی)چیز بچ رہے صرف اُس کی پیروی کرے۔ اگر ممکن ہو تو آپ اسے یہ بھی سکھائیے گا کہ غم کو چھپا کر کیسے مسکراتے ہیں۔ اُسے ضرورت سے زیادہ تعریف اور خوشامد سے محفوظ رہنے کا ہنر ضرور سکھائیے گا۔ اسے بتائیے گا کہ وہ اپنی محنت اور دماغ سوزی کی اعلیٰ ترین قیمت ضرور حاصل کرے لیکن اپنے قلب اور اپنی روح کا سودا کسی قیمت پر نہ کرے۔ اسے بتائیے گا کہ وہ بھیڑ کے شور کی طرف سے ہمیشہ اپنے کان بند رکھے اور جو سچ ہو صرف اسی کی پیروی کرے اور اسے یہ ضرور سکھائیے گا کہ سونا آگ میں تپ کر ہی کُندَن بنتا ہے۔ ‘‘

بات دراصل وہی ہے جو امتیاز عبد ا لقادر نے غلام قادر لون کی کتاب ’قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے سائنسی کارنامے ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھی ہے کہ ’’تعلیم کا عمل اپنی اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے نہایت ہی مؤثر معاشرتی عمل ہے۔ اور اسی وجہ سے ہر دور کے مفکرین اسی عمل کو زیادہ جامع اور مفید نتائج کا حامل بنانے کے لیے صائب اور موزوں افکار پیش کرتے  رہے ہیں۔ کیونکہ یہ عمل انسان کی ذہنی و اخلاقی ترقی کی  تدریج کا عمل ہے۔ اور اس کے پیدا کردہ نتائج ہی انسان کی ترقی کا پیمانہ قرار پاتے ہیں۔ عصر حاضر مختلف نظریاتی لہروں اور فکری سمتوں کی باہمی آویزش اور اور ٹکراؤ کا دور ہے۔ طاقتور اَقوام کی طرف سے ہونے والی  تمدُّنی علمی اور تہذیبی یلغار بھر پور حملے کا رنگ اختیار کر چکی ہے۔‘‘ لہٰذا تعلیم اور ترقی دونوں کے لیے بنیادی پیمانہ، قرآن اور اُسوَہِ رَسول  ﷺ کے سوا اور کچھ نہیں۔ اسی لیے اولاد کی تربیت کے لیے والدین کی تربیت PARENTINGبھی  لازمی ہے۔

پروفیسر رشید کوثر فاروقی نے لکھا ہے کہ ماں باپ کی تربیت صالحہ یوں تو ہر بچے کے لیے ضروری ہے لیکن ذہین و فطین بچے کے لیے تو اور بھی ضروری ہے۔

1 تبصرہ
  1. محمد رضا (ایلیاؔ )مبارکپوری کہتے ہیں

    آپ کو مضمون حقیقت پر مبنی ہے لوگوں کے اندر کمی اس بات کی ہے کہ وہ پڑھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اگر پڑھنےکے بعد عمل کریں تو زندگی جنت بن جائے گی ۔ بہت عمدہ مضمون لکھاہے آپ نے خدا آپ سلامت رکھے ۔

تبصرے بند ہیں۔