شام کی بیٹی

عبداللہ

اسپتال کے ڈائرکٹر ابو موسی نے ہماری دو جماعتیں بنادیں اور یہ مریضوں کی رعایت اور اسپتال میں ان کی کثرت کے سبب ایک مناسب فیصلہ تھا، مجھے سیلانی بھائی اور استاد جی کو ابو موسی ایک کمرے میں لے گئے جہاں اک نوجوان لڑکی اسکارف لئے ہوئے بڑی سی چادر میں  ملبوس بیڈ پر بیٹھی تھیں اور ایک نوجوان بیڈ کے کنارے پر کھڑا تھا۔ لڑکی کا نام نغم تھا اور بیڈ کے کنارے کھڑا لڑکا اسکا شوہر تھا_

نغم اک مونٹیسری  اسکول ٹیچر تھی، اسکی کلاس میں 25 بچے تھے وہ پڑھا رہی تھی جب اسکول پر بمباری کا آغاز ہوا اسے کلاس کی کھڑکی سے سامنے دھواں اٹھتا نظر آرہا تھا۔فیصلے کا وقت تھا۔ مگر کتنا ؟ ایک منٹ یا چند سیکنڈ یا ایک لمحہوہ تندرست و توانا تھی_اک جست میں کلاس سے نکل کر ڈور لگاتے ہوئے بمباری کے دائرے سے نکل سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ بمباری کیسے ہوتی ہے؟ اڑتے ہوئے تیز جہاز ایک دائرے کی شکل میں بمباری کرتے ہوئے نکلتے اور پھر واپس پلٹتے ہیں _اور اسکول کے اک حصے کی تباہی کا مطلب تھا کہ اب چند لمحوں کے وقفے سے باقی حصے پر بھی بم گرنے والے ہیں ۔ اور پھر سہ بارہ اور پھر. بار بار …. اسے بس چند میٹر دور جانا تھا۔ لیکن اسے بس ایک لمحہ لگا فیصلہ کرنے میں ۔

اس نے بچوں سے کہا کہ سب اپنی جگہ بیٹھے رہو، اس نے لپک کر دو بچے اٹھائے اور دوڑ لگادی، انہیں چند میٹر دور محفوظ مقام تک پہنچایا اور پھر زخمی ہرنی کی مانند مڑی اور زقند لگا کر کلاس پہنچی۔ دو بچے اور اٹھائے_باقی بچوں کو پھر اپنی جگہ رہنے کی تاکید کرتے ہوئے اس دوڑنے پر پوری توانائی لگادی۔

 کچھ بچے جو دوڑ سکتے تھے انہیں بھی ساتھ لیتی رہی۔ نغم کے جسم میں پارہ اور ٹانگوں میں کرنٹ بھر گیا تھا۔ وہ دیوانہ وار بچوں کو چند میٹر کی دوری پر پہنچارہی تھی۔

  پلے گروپ کے یہ بچے اک لائن میں تیزی سے بھاگ کر بھی جانے کے قابل نہ تھے_وہ بھاگتے تو گر جاتے،یا خوفزدہ ہو کر دائیں بائیں دوڑ پڑتے اور وہ کسی ایک کے پیچھے دوڑتی تو اتنے میں باقی بچے کہیں اور نکل چکے ہوتے۔

  اسے جو کرنا تھا، بہت جلدی، بہت تیزی سے، مگر انتہائی ہوش مندی سے کرنا تھا۔ اس نے بمباری سے بچنے اور بچانے کی کئی کلاسز پچھلے چند سالوں میں بارہا لی تھیں ۔ اور آج اسکا پریکٹیکل تھا۔

  اس نے چند منٹ میں 24 بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچادیا۔ آخری بار میں قریب ہوتے جہاز کی آواز کے ساتھ گرتے بموں کے دھماکے اسے قریب سے قریب تر سنائی دے رہے تھے۔ جب وہ آخری بچی کو کلاس سے اٹھائے باہر لپک رہی تھی،

تب اک بم اسکی کلاس کے ساتھ والے کمرے پر گرا، اور پھر وہ بے ہوش ہوتی چلی گئی_آخری بات، جو اسے یاد تھے، وہ یہ تھی کہ اس نے ایمان نامی اس ڈھائی سالہ بچی کو اپنے مہندی لگے ہاتھوں سے دبوچ کر اپنے سینے کے نیچے چھپا کر خود کو اسکی ڈھال بنا لیا تھا۔ اور آخری احساس یہ تھا کہ اسکی ٹانگوں پر کسی نے پہاڑ رکھ دیا ہے۔ دھواں ، گرد و غبار، بارود کی بو اور شدید تکلیف کے احساس کے ساتھ وہ ہوش و ہواس سے بے گانہ ہوتی چلی گئی۔ مگر اسے ایمان کی چیخیں  یاد تھیں ۔ کاش ایمان بچ جائے، یہ اسکی آخری دلی خواہش تھی۔

  جب اسے ہوش آیا تو اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے سمجھنے کی کوشش کی، لیکن شدید تکلیف کے احساس نے  اک مرتبہ پھر

اس کے ہوش و ہواس چھین لیےجب اسے صحیح طریقے سے ہوش آیا تو اس کا زندگی بھر کا ہم سفر اس کا شوہر عماد  اس کے پاس ہی کھڑا تھا۔ وہ تباہ حال اسپتال کے خستہ حال بیڈ پر تھی اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے پہلا سوال ایمان کے بارے میں کیا۔ اسے بتایا گیا کہ نہ صرف ایمان بالکل ٹھیک ہے، بلکہ اس کی ہمت نے پورے پچیس بچوں کو نئی زندگی دی ہے۔ اس کی آنکھیں خوشی سے نم ہوگئیں۔

  پھر اسے کسی کمی کا احساس ہوا، وہ اپنے نچلے دھڑ کو محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی، مگر شاید پیٹ پر موجود بیلٹ سے اسے باندھ دیا گیا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکان اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ چھت کا حصہ اس کے نچلے دھڑ پر آ گرا تھا۔

چنانچہ اس کی دونوں ٹانگیں جڑ سے کاٹ دی گئیں تھیں۔

   شدید  کرب اور اذیت سے وہ اک بار پھر حواس چھوڑ رہی تھی _ اس وقت اس کے ہم سفر نے پیار سے اس کا ہاتھ تھاما اور گال تھپتھپاتے ہوئے کہا : نغم! تم شجاعت کی ایک مثال ہو۔تم نے میرا سر فخر سے بلند کردیاہے۔ پورے اسکول میں واحد کلاس تمہاری ہے، جس کے سب بچے مکمل سلامت اور محفوظ ہیں _ تم نے سب کو جان پر کھیل کر  اور ایمان کو تو تم نے گویا اپنی جان دے کر بچایا ہے۔

میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ، ہر لمحہ ہر پل، ہم یہاں بھی ساتھ ہیں اور جنت میں بھی ساتھ ہوں گے، ان شاءاللہ۔ مجھے ہی نہیں ، بلکہ ہم سب کو تم پر فخر ہے۔

وہ بے ہوش ہوتے ہوتے پھر ہوش میں آتی چلی گئی۔

   اس کے ہم سفر عماد کے الفاظ اس کی سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے اسے اعتماد کی نئی دنیا سے روشناس کرا گئے۔

دھیرے دھیرے کمرہ بھرتا چلاگیا۔ بچے، ان کی مائیں ، اس کی کولیگز،سب آرہے تھے_سب اسے سراہ رہے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر بھی مطمئن سی مسکان پھیل گئی۔ اس کا ایمان، اس کی ایمان

اور اس کا بھرم، سب بچ گیا تھا۔ ٹانگیں تو جنت میں پھر سے مل جائیں گے، ان شاءاللہ۔

  عماد نے اپنا کہا ہر لفظ نبھایا۔

اس کا خیال رکھا۔۔ اسے اٹھائے اٹھائے ترکی لے آیا۔ شام میں علاج کی سہولیات کم تھیں اور وہاں اس کے زخم بھر رہے تھے نہ خون رک رہا تھا۔ اس لئے عماد اسے ترکی لایا تھا۔وہ پچھلے کئی مہینوں سے یہاں ابو موسی کے ہاسپٹل میں تھی۔۔ اس کے مزید دو آپریشن ہوئے، اور اب بس انتظار تھا کہ میڈیکیشن مکمل ہو اور وہ مصنوعی ٹانگوں پر بغیر سہارے کے چل سکے۔۔

   اس کی تربیت جاری تھی اور یہ سب عماد کے ساتھ سے ممکن ہوا تھا_

وہ  اسے گود میں اٹھائے گھومتا ہے۔

وہ اب بھی اس کے سرہانے کھڑا تھا۔ تب ہی وہ ہماری آمد پر کھڑی نہیں ہوئی تھی۔

کہ اس کی تو ٹانگیں شہید ہوچکی تھیں ۔ ۔

وہ سچ میں بچوں میں بہت مقبول معلمہ ہوگی۔ وہ بہت پیاری ہے، اتنا ہی پیارا اس کا لب و لہجہ۔ دھیما سا۔ مگر اس میں اعتماد اور سنجیدگی کی سختی بھی ہے۔

   نغم۔ اک نغمہ۔ اک گیت۔زندگی کا اک حسین روشن استعارہ۔ جس کے وجود کو بشار کی درندگی اور ولایت فقیہ کی سفاکیت نے کچل ڈالا۔ لیکن وہ اس کے عزم و حوصلے اور ہمت کو نہ چھین سکے۔ جو اس کا اصل اثاثہ اور خزانہ ہے۔

اس کا وجود چادر میں ڈھکا ہوا تھا  اور وہ بیڈ کے سرہانے ٹیک لگائے بیٹھی سیلانی کے سوالوں کے جوابات دے رہی تھی۔

  ترجمہ کرتے کرتے کئی بار میری زبان لڑکھڑائی اور نمکیں پانی قریب تھا کہ چھلک جائے۔ مگر استاد جی کی تنبیہانہ ہنکاروں نے روک دیا اور میں نے نغم کا دل کھٹا کرنے سے بہتر جانا کہ اپنے حلق کو نمکیں کرلوں ، میں آنسو پیتا اور رندھے ہوئے لہجے میں بولتا چلاگیا۔ سیلانی نے پوچھا۔ کوئی افسوس؟ اگر تم نکل جاتیں تو آج اس حال میں نہ ہوتیں ۔ سیلانی بہت پیارا بہت  نرم انسان ہے مگر وہ اک مکمل پیشہ ور صحافی ہے_وہ اپنے پیشے سے خیانت نہیں کرتا۔ وہ اندر تک اتر کر حقیقت ڈھونڈلاتا ہے۔

میں نے بادل نا خواستہ نغم کے سامنے یہ سوال دہرادیا۔

ارے۔ افسوس کیسا۔ میرے اللہ کا شکر ہے۔ میرا نام نغم ہے اور میں سرزمین انبیاء شام کی بیٹی ہوں ۔ یہ تو نصیب کا لکھاہے۔ اس سے مفر نہیں ۔ مگر میں اب آئینہ دیکھ سکتی ہوں ۔ مجھے آئینے سے آنکھیں نہیں چرانی پڑتیں ۔ اللہ نے مجھ سے درست فیصلہ کرایا۔ورنہ میں تو خجالت سے مر جاتی۔ اگر اس وقت ان معصوموں کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ جاتی تو سلامت بھی رہتی تو شرم سے مر جاتی۔۔ کوئی شامی لڑکی ایسا نہیں کرسکتی۔ نہ کرتی اور نہ میں نے ایسا کیا۔ مجھے جسم کے ایک حصے کی شہادت کا دکھ ہے، بے شک، لیکن اپنے وہاں رکنے کا مجھے نہ صرف یہ کہ افسوس نہیں، بلکہ یہی تو میرے زندگی بھر کا فخر ہے۔

  میں نے اس سب کا ترجمہ بہت جوش سے کیا۔ جیسے میں سیلانی کو کچھ جتا رہا ہوں ۔ سیلانی بھی طمانینت سے مسکرادیا۔ جیسے اسے معلوم تھا کہ جواب کیا آئے گا۔

کوئی خواہش۔ ؟سیلانی نے پوچھا؟

اس نے کہا۔ خواہشیں تو بہت ہیں ۔ بشار اور اس کے سرپرست اور ساتھی اپنے کیے کی، دنیا میں بھی سزا بھگتیں  اور امت کی مشکلات ختم ہوں ۔

  پھر اس نے مسکرا کر  اپنے باوفا ہم سفر کی طرف دیکھا اور کہا : سب بہنوں اور بیٹیوں کے شوہر ایسے ہی وفادار اور ساتھ دینے والے ہوں ۔ یہ میری دلی دعا ہے۔۔

یہ کائنات کی حسین جوڑی تھی۔ سامنے دیوار کے ساتھ اس کی مصنوعی ٹانگیں رکھی تھی۔ ابو موسی بھی مسکرا رہا تھا اور استاد جی کا چہرہ بتا رہا تھا۔ وہاں دکھ کے سمندر میں فخر و انبساط کی لہریں موج زن ہیں ۔

  جب نغم عربی میں جواب دیتی تو میں اس کے بجائے استاد جی کا چہرہ دیکھ رہا ہوتا تھا۔ جنہیں ترجمے کی چنداں ضرورت نہ تھیں  اور زبان کی باریکیوں اور لب و لہجے کی نزاکتوں کو وہ مجھ سے لاکھ گنا بہتر جانتے ہیں ۔ جب نغم نے کہا تھا :میں سرزمین انبیاء شام کی بیٹی ہوں ، میرا نام نغم ہے، میں زندہ اس لئے ہوں کہ میں وہاں سے جان بچاکر نہیں بھاگی۔ بھاگ جاتی تو میں مرجاتی۔ اور اگر میں بچوں کو بچاتے ہوئے مر بھی جاتی تو ہمیشہ زندہ رہتی۔

استاد جی کا چہرہ دمک رہا تھا اور چہرے کے عضلات پھڑک رہے تھے۔ میں استاد جی کو جانتا ہوں ۔ شجاعت اور اولو العزمی تو ان کی کم زوری ہے۔ مجھے لگا، شریعت کی اجازت ہوتی تو وہ اٹھ کر اپنی اس بیٹی کا ماتھا چوم لیتے۔

نغم کے جوابات، اس کے لب و لہجے، اس کے حوصلے نے استاد جی کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ ان کے جذبات میں اک طلاطم برپا تھا….

"سیلانی بتاؤ۔ اس قوم کو کوئی شکست دے سکتا ہے ؟”استاد جی نے ہمکتے  سینے، دمکتے لہجے اور گرجتی  آواز میں سیلانی سے کہا۔۔

    پھر یک دم میری طرف دیکھ کر بولے :

"مدنی! میری بیٹی سے کہو۔

تم پوری امت کا فخر ہو۔ "

پتہ نہیں ، استاد جی نے  ڈائریکٹ اس سے کیوں نہیں کہا؟

” بیٹی سے کہو۔

تم اک مثال ہو_

بیٹی سے کہو_

ہم تمہارے مجرم ہیں ۔

بیٹی سے کہو، ہمیں معاف کردے۔

مدنی! میری بیٹی سے کہو۔ ابو لبابہ شرمندہ ہے۔

مدنی! بیٹی سے کہو۔

تم نے اکیلے بشار کی ساری فوجوں کو، باطل کے سارے لشکروں کو شکست دے دی ہے۔

بیٹی سے کہو۔ فتح حق کی ہے۔

 بیٹی سے کہو۔ ہمارے لیے دعا کرے کہ اللہ پاک ہمیں غیرت دے، حوصلہ دے۔

مدنی! بیٹی سے کہو کہ اس کا باپ، اس کا بھائی اسے سلام پیش کرتا ہے۔ "

  استاد جی رک رک کر بولتے چلے گئے۔ میں ترجمہ کرتا چلا گیا _پھر استاد جی یک دم اٹھے۔ ۔ مجھے لگا وہ چلے جائیں گے۔۔ وہ باہر کے بجائے دو قدم نغم کے بیڈ کی طرف بڑھے، پھر انہوں نے عماد کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ دیئے، میری طرف گہری نظر سے دیکھا اور عماد کا ماتھا چوم لیا۔۔ میں تھرّا کر رہ گیا۔۔

” اس کا جذبہ اور اس کی ہمت اک خاص وقت کی ہے۔۔ مگراب اس کی ہمت تم ہو۔۔ اس کے لب و لہجے کا اعتماد تم ہو۔۔

اس کی شجاعت تمہارے دم قدم سے ہے۔۔ میرے بیٹے تم عظیم ہو۔۔ یہ تمہارے ساتھ جنت جانا چاھتی ہے۔۔تم جنت تک اس کے ساتھ کھڑے رہنا۔۔ تم اس کا غرور ہو، تم ہمارا فخر ہو۔۔ کاش، ہر بیٹا، ہر شوہر تم جیسا ہو جائے۔۔”

استاد جی کا ٹھہرا ہوا لہجہ۔۔ الفاظ کی فصاحت۔۔ لہجے کا ٹھراو۔۔الفاظ کا چناو۔۔ نغم کے چہرے پر روشنیاں کوند رہیں تھیں اور عماد کی آنکھیں چمک رہیں تھیں ۔ ۔

   "میرے بیٹے! تم میری بیٹی کا دھیان رکھنا۔ یہ لو میرا نمبر۔۔” استاد جی نے ایک کاغذ کا ٹکڑا اسے دیا۔۔ جانے کب لکھا تھا نمبر۔۔ وہ مانگنے پر بھی کم ہی نمبر دیتے ہیں ۔ ۔

"ہمیشہ ایسا ہی رہنا۔۔ بس۔۔ اللہ تمہاری جوڑی سلامت رکھے۔۔ میری بیٹی کی طاقت تم ہو۔۔ تمہیں سلام پیش کرتا ہوں ۔ ۔”

 اس نے استاد جی کے ہاتھ تھام لئے۔۔ کہا: "بے فکر رہیں ۔ ۔ پہلے عزم تھا۔۔ پیار تھا۔۔ اب آپ سے وعدہ بھی ہے۔۔ پیارے آقا کا فرمان یاد آگیا۔۔ سب سے بہترین پیار کرنے والوں میں میاں بیوی کا رشتہ ہے۔۔”

استاد جی نے پھر اس کا ماتھا چومااور اس نے استاد جی کے ہاتھ کی پشت۔۔

پھر ہم نے بھی اجازت چاہی۔

نغم نے کہا:” آج آپ نے باپ اور بھائیوں والا پیار دیا ہے۔۔کبھی نہیں بھولوں گی۔۔”

  ہم نے سلام کر کے قدم باہر کی طرف بڑھائیے_ابھی نہ جانے اور کیا کیا دیکھنا تھا۔

  ابو موسی تو آج بھی تاجر ہی تھا۔ درد کا تاجر۔ محبت خدمت اور اخوت کے پیغام کا تاجر۔ اس کی تجارت تو بہت بڑی ہوگئی تھی۔ اور وہ بہت نفع کما رہا تھا۔ وہ دکانیں چھوڑ آیا تھا۔ مگر اس نے سمندر اور جزیرے خرید لیے تھے۔ دکھوں کے سمندر اور ان سمندروں میں محبت۔ خدمت اور راحت کے جزیرے۔ ہاں ابو موسی کی تجارت بہت پھیل گئی تھی۔ اس نے بہت نفع کا سودا کیا تھا۔ اس نے اپنے اللہ سے تجارت کرلی تھی۔ جہاں خسارہ ہے ہی نہیں ۔

 من ذاالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ ولہ اجر کریم

تبصرے بند ہیں۔