انسان کی اصل اور اس کے تقاضے

ابو محمد حمزہ

’’اندھیرا ہمیشہ رہنے والا نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے، کیو ں کہ یہ سنت الٰہی ہی کے خلاف ہے۔جہاں اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں کچھ لمحات گزرنے کے بعد روشنی کی پو پھوٹتی ہے اور روشنی بھی اس قدر پھیل جاتی ہے کہ جیسے اس سے قبل اندھیرا ہی نہیں تھا۔ ‘‘

ہر کام کی ابتدا اصل سے ہوتی ہے لیکن اصل میں جب غلط یا ملاوٹ مل جاتا ہے تو اس کے اثرات بھی معدوم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں جب کبھی بھی کوئی صالح اور صحیح تبدیلی رونما ہوئی یا ہو رہی ہے اس کے پیچھے بھی یہی بات کارفرما ہے۔ صالح لوگوں کی محنت سے صالحیت ہی وجود میں آنے کا امکان ہوتا ہے البتہ جب صالح اور صحیح علم سے بنی نوع انسان بے خبر ہو تو سماج میں سالحیت کے بدلے جہالت جنم لیتی ہے اور یہ جہالت ایسی مہلک بیماری ہے کہ جس شخص وقوم کو لگ جائے، اسے چھوڑنا پھر مشکل ہو جاتا ہے۔

بنی نوع انسان اگر چاہے تو دنیا کی موجودہ صورت حال کا ایسا خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب امن کی ہی فضا چھا جائے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بنی نوع انسان اپنی اصل پر کھڑا ہو جائے، اور اس کی اصل یہ ہے کہ وہ اپنی اصلیت اور حقیقت جان لے، انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں اس کی یہ ٹھاٹھ بھاٹھ کی زندگی چند روزہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایک ایسا ماحول قائم کیا جائے گا جس جیسا ماحول نہ ہی آج تک وجود میں آچکا ہے اور نہ ہی اس جیسا ماحول کوئی اور قائم کر سکتا ہے۔ ہر شخص کو جب اس ماحول کی تبدیلی پر یقین ہو جائے گا تو اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ یہاں اس عارضی دنیا میں اپنے آپ کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خیر خواہ بن کر سوے گاکہ کس طرح دنیا کی اس عارضی گزر بسر میں امن وسکون اور اطمینان قلب نصیب ہو جائے۔ گویا یہ سب کچھ انسان کی سوچ پر منحصر ہے، وہ سوچ صحیح رکھتا ہو تو اس کے ہاتھوں اور پورے جسم سے ہونے والے اعمال بھی صحیح ہونے کا احتمال ہے وگرنہ انسان صحیح سوچ کا حامل نہ ہو تو دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہی اس کا چلنا پھرنا، اس کا اٹھنا بیٹھا اور اس کی زندگی کا ہر لمحہ بنی نوع انسان کے لیے فتنہ سے کم نہیں ہو گا۔

مذکورہ بالا قول جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اندھیرا ہمیشہ رہنے والا نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے۔‘‘ بس اگر اندھیرے کے ان لمحات میں بنی نوع انسان کو پریشانی اور بے اطمینانی کیفیت پیدا کرے تو اس کے سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ صحیح راہ پر نہیں ہے کیوں کہ صحیح راہ پر آزمائشیں اور آلام ومصائب تو آنا ممکن ہے لیکن اس راہ پر چلنے سے دل کی کیفیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر ہی انسان اپنی اَنا اور جہالت پر قائم رہ کر اندھیروں میں ہی رہنا پسند کرتا ہو تو اس کی نہ صرف یہ زندگی تباہ وبرباد ہو جانے کا خدشہ ہے بلکہ اس کی وہ زندگی بھی جو یہاں سے کوچ کرنے کے بعد ملنے والی ہے،خسارے کی ہی نذر ہو جائے گی۔

بنی نوع انسان اگر چاہے تو اسے روشنی مل سکتی ہے اور اگر چاہے تو روشنی کے بدلے اس کی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں اندھیرا بھی چھاسکتا ہے۔ یہ اندھیرا پن باری تعالیٰ کی طرف سے ناانصافی نہیں ہو گی بلکہ اس میں ’’عدل وقسط‘‘ ہو گا، اسی عدل وقسط کی بنیاد پر اسے وہ کچھ حاصل ہو گا جس کا وہ حقدار ہے۔
گویا بنی نوع انسان کو عموماً اور ملت اسلامیہ سے وابستہ مسلمانوں کو خصوصاً اس بات پر پورا یقین واعتماد ہونا چاہیے کہ

ہماری زندگی یہی پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس عارضی دنیا کے بعد بھی ایک ابدی زندگی کا قائم ہونا ابھی باقی ہے، جس دن جس نے جو بھویا ہو گا وہ اس کا پھل کاٹے گا۔

دنیائے حاضر میں مسلمانوں کی رجسٹری میں اپنا نام درج ہے، لیکن اگر ہماری وہ رجسٹر جس پر ابدی کامیابی اور کامرانی کا دارومدار ہے پر ہمیں درج نہ کیا گیا ہو گا تو ہماری یہ زندگی بھی ضائع اور اخروی زندگی بھی خسارے کی شکار ہو کر تباہی وبربادی کا سبب بن جائے گی۔ اللہ اس سے محفوظ رکھے۔

تبصرے بند ہیں۔