انساں کو کسی حال میں راحت نہیں ملتی

دل اس سے ملے جس سے طبیعت نہیں ملتی
یوں ساتھ تو ملتا ہے رفاقت نہیں ملتی

بکنے لگے نقلی بھی جہاں اصل کی قیمت
اس شہر میں اخلاص کی قیمت نہیں ملتی

جو چھوٹ گئی چھوڑ دے خواهش کے مخالف
ہر راہ کی منزل سے مسافت نہیں ملتی

دلدادہ شہرت کو بھلا کیا ہے برا کیا
یونہی تو جہاں میں کوئی شہرت نہیں ملتی

کہہ دینا بھی حق بات کا اک فن ہے ہنر ہے
اس فن کے ہنرمند کو ذلت نہیں ملتی

کیا فکر جدائی ہو کہ اس بار بچھڑ کر
اس دل کو تری یاد سے فرصت نہیں ملتی

تھوڑے پہ یہ مجبور ہے زیادہ پہ ہے مغرور
انساں کو کسی حال میں راحت نہیں ملتی

وہ شاہى شبستاں ہو کہ ہو شہر خموشاں
حالات کے ماروں کو کہیں چھت نہیں ملتی

مٹی كا بنا جسم تو مٹی میں ملے گا
مٹی کی کسی اور سے نسبت نہیں ملتی

اس دور ترقی میں ترقی ہی پہ اکثر
تحقیر تو ملتی ہے حمایت نہیں ملتی

دنیا میں بہت ملتے ہیں دولت کے پجاری
پوجا سے مگر دنیا کی دولت نہیں ملتی

اشعار تو عمدہ ہیں ترے ابن چمن پر
شعراء دگر سے تری خصلت نہیں ملتی

تبصرے بند ہیں۔