قرآن کا پیغام والدین کے نام – نیک والدین کا فیض (7)

’’وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکاَنَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّھُمَا وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحاً فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَٓا اَشُدَّھُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِکَ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَالَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْراً‘‘ (الکہف:82)
ترجمہ: ’’اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے ۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کردیا ہے۔ یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے‘‘۔
پس منظر:موسیؑ اور خضرؑ کی ملاقات کی جو روداد قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے ، یہ آیت اس کا آخری حصہ ہے ۔ ملاقات کے بعد وہ دونوں سفر پر نکلے اور ایک گاؤں کے پاس سے گزرے، سامان سفر ختم ہوچکا تھا۔ ان دونوں نے گاؤں والوں سے کھانا مانگا مگر گاؤں والوں نے مہمانی سے انکار کردیا ۔ اس دوران ان کی نظر ایک دیوار پر پڑی جو گرنے والی تھی ۔ خضرؑ نے بڑھ کر اسے سیدھا کردیا۔ موسیؑ نے جب گاؤں والوں کی یہ بد سلوکی دیکھی اور خضرؑ کا یہ رویّہ دیکھا تو تعجب کرتے ہوئے فرمایا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجر لے لیتے (وہ ہمارے کام آتا ) آپ نے مفت ہی یہ خدمت انجام دے دی۔ یہ سن کر خضرؑ نے کہا ۔ اب ہمارا اور تمہارا ساتھ نہیں چل سکتا ۔ اس کے بعد خضرؑ نے راستے میں بیتے ہوئے تمام واقعات کی اصل حقیقت سے باخبر کیا۔ چنانچہ گاؤں والوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کیا۔ اس آیت میں اسی حقیقت کا بیان ہے ۔
اس پورے واقعہ سے بہت سے حقائق پر روشنی پڑتی ہے :
(1) اللہ تعالیٰ نے دو یتیم لڑکوں کے گھر کی دیوار سیدھی کرنے کا غیب سے نظم فرمایا تاکہ ان کے خزانے کا تحفظ ہوسکے اور اس کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’وَکَانَ اَبوُھْمُاَ صَالِحاً‘‘’’ اور ان دونوں کے باپ نیک تھے‘‘۔ یعنی باپ کی نیکی کا یہ فیض تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ان کی اولاد کے لئے خزانے کی حفاظت کا انتظام فرمایا تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں خزانہ محفوظ ملے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سے معلومہوا کہ اگر والدین نیک ہوں تو نہ صرف زندگی میں اولاد کو اس کا فیض پہنچتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر نیک ہوں تونہ صرف یہ کہ اولاد کے اخلاق سدھر تے ہیں ، روحانی بالیدگی ہوتی ہے بلکہ مادّی فائدہ بھی پہنچتاہے جیسا کہ محض باپ کی نیکی کی وجہ سے اللہ نے خزانے کو محفوظ فرمایا جس سے بعد میں اس کی اولاد نے فائدہ اٹھایا۔
(2) اس واقعہ کو بیان کرکے جو دوسری حقیقت سمجھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا علم محدود ہے وہ صرف ظاہر کو دیکھتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر رائے قائم کرتا ہے۔ چنانچہ وہ بسا اوقات غلط رائے قائم کرلیتا ہے کیونکہ وہ معاملات کی تہ اور اصل حقیقت تک نہیں پہنچ پاتا جیسا کہ موسیؑ کی رائے کا حال ہوا۔ اس لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے معاملات میں صحیح رہنمائی کے لئے علّام الغیوب کی ہدایات کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق زندگی گزارے تاکہ غلط رائے قائم کرنے سے محفوظ رہے اور گمراہ نہ ہو۔
(3) تیسری حقیقت یہ سمجھائی گئی ہے کہ جس کا کوئی سہارا نہ ہو اس کا سہارا اللہ ہے ۔ وہ غیب سے کس طرح مدد کرتا ہے ۔ انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ جیسا کہ دو یتیم لڑکوں کا مال خطرے میں تھا ۔ خود انہیں نہیں معلوم تھاکہ ان کے پاس مال ہے اور خطر ے میں ہے یا اس کی حفاظت کے لئے بھی کچھ کرنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے باہر سے ایسے افراد بھیج دئیے جنہوں نے ان کے مال کو محفوظ بنادیا، یہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کا سہارا ہی تو تھا۔ لہٰذا زندگی کے ہرموڑ پر مدد اورسہارے کے لئے اسی مسبب الاسباب کو پکارنا چاہئے ۔
(4) اگر کوئی بد سلوکی کرے تو گرچہ بدسلوکی سے اس کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ بدسلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیا جائے جیسا کہ گاؤں والوں نے مہمانی سے انکار کیا اس کے باوجود خضرؑ نے گرتی دیوار کو بلا اجرت کھڑی کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس حسن سلوک کا جواثر پڑا ہوگا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اللہ تعالیٰ کے پاس تو اجر یقیناًمحفوظ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے : ’’وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّءَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلیٌّ حَمِیْمٌ‘‘ (حٰمٓ السجدۃ:34)
’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہتر ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا۔
اگر ہم اپنی زندگی میں اس اصول کو اپنالیں تو کتنے مسائل پیدا ہی نہ ہوں گے اور کتنوں کے دل پھر جائیں گے (دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے واقعات اس پر گواہ ہیں)۔ اسی طرح حسن سلوک کی وجہ سے کتنی برکات کا نزول ہوتا ہے پہلے سے ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔

تبصرے بند ہیں۔