ضمیر شہر نہیں مطمئن تو بیعت کیا

بتاؤں ایک  زمیں سے میں اپنی نسبت کیا
نہیں ہے میرے مقدر میں اور ہجرت کیا

جو  تیری   راہ   میں  نام ونسب  لٹا  آئے
نظر میں ان کی دل وجان کی ہے قیمت کیا

عطا   ہو  دائمی نغمہ کوئی  مجھے  یا  رب
یہ چار دن کا صلہ چار دن کی شہرت کیا

مرے سفر میں کسی موڑ  پر  پڑاؤ  نہیں
بتاؤں کیسے سکوں چیز کیا ہے راحت کیا

لرز رہے ہیں درختوں پہ خوف سے پتے
ہوا کو روکنے کی ہے کسی میں جرات کیا

امیر شہر بہت مطمئن  ہے  بیعت  پر
ضمیر شہر نہیں مطمئن  تو  بیعت  کیا

تبصرے بند ہیں۔