اولاد کی اسلامی تربیت میں والدین  کا کردار

مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

"اولاد”اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اوروالدین  کےلیےمستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے؛لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور زینت وکمال کاسبب اسی وقت بنتی ہے جب انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جاتاہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھاجاتاہے، ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجاتاہے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھانےکا اہتمام کیاجاتاہے۔ شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کےسلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں ؛لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے۔

دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزیں ہو، اگر کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع  رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس  کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے جسے قرآن مجید کی سورت البقرۃ میں ذکرکیاگیا:

حضرت یعقوب علیہ السلام جب بسترِ مرگ پر آخری سانسیں گن رہے تھے تو انہیں یہ فکر بار بار ستائے جارہی تھی کہ میری  اولاد میرے بعد کس کی عبادت کرے گی؟بالآخر انہوں نے  اپنی اولاد کو بلا کر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا؟۔ بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئےکہا کہ ہم آپ کی موجودگی جس طرح دین برحق پر قائم رہے اور اپنے آباء واجداد سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور اسحق کے پرودگار کی عبادت کرتے رہے اسی طرح آپ کے بعد بھی ہم اسی رب العالمین کی بندگی کریں گے جس کی تعلیم وتلقین ہمارے بڑوں نے فرمائی ہے۔ قرآن میں اس طرح اس کی منظر کشی کی گئی:کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ان سب نے کہا کہ ہم اسی ایک خداکی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے با پ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبودہے، اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں (البقرۃ :133)

یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ  کاسبب بن سکتی ہے، اسی لیےاللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔

تربیت کی دوقسمیں :

مولانا محمد شفیق الرحمن علوی لکھتے ہیں کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے:

(۱)ظاہری تربیت

(۲)باطنی تربیت۔

ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول، اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔ اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔

اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ (ماہ نامہ دارالعلوم، شعبان:1437)

حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)

اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی ﷺ سےمحبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کاتکفل ہوتاہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم  تو  دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔

چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریقۂ کار:

چھوٹے بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجرکی طرح  مضبوط وپائیدار ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں بیان کی گئی کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ۔ ۔ یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا؛ لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتاہے اسی طرح بچوں کے خیالات، افکار اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بہ آسانی لایاجاسکتا ہے۔ اورجب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہ سہی؛مگر مشکل ضرور ہوتی ہے اسلئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔ ۔ ۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا: سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں ) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبیہقی)

غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔

نوجوانوں کی تربیت کا لائحہ عمل:

بچپن میں لاڈ پیار اور غفلت و لاپرواہی کے سبب اولاد کی  تربیت میں کچھ کمی رہ جائےتو بڑے ہونےکےبعدبھی اس کمی کا ازالہ ممکن ہے؛مگر مثبت نتائج کےلیے عجلت کا مظاہرہ نہ کیاجائےاور تربیت میں تدریجی انداز اختیار کیاجائے۔ چنانچہ بچوں کےبڑےہوجانےکےبعد غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 1-افہام وتفہیم۔ 2-زجروتوبیخ۔ 3-مارکے علاوہ کوئی دوسری سزا مثلاً قطع تعلق وغیرہ۔ یعنی غلطی ہوجانے پرحکمت عملی کے ساتھ تربیت کا اہتمام کیا جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو نصیحت و موعظت کے مختلف انداز اختیارکیےجائیں ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ اور سب سے بڑھ کر گھر کے ماحول کو دینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے؛تاکہ وہ رفتہ رفتہ اسلامیات سے قریب ہونے کا عادی ہوجائے۔ مذکورہ بالا امور کی انجام دہی کوایک چیلنج کے طور پر لیاجائے؛کیوں کہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ ’’امت کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور نظام محمدی کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری مطمئن کر دیا جائے.‘‘ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے، جس کا خمیازہ یقینا بھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زندگی سے ناآشنائی، تزکیہ و تربیت کی کمزوری، اور ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔

اولاد کی تعلیم  کے حوالے سے والدین کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے :

1:وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف عصری علوم کے حوالے کردیتے ہیں، ان کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف یا تو بالکل توجہ نہیں کرتے یا معمولی سی توجہ کو کافی اور مفید ِمطلب سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح عصری علوم پر خاطر خواہ محنت کو ضروری سمجھیں اتناہی یا اس سے زیادہ بنیادی دینی تعلیم  یعنی عقائد و اعمال، معاشرت و اخلاق، معاملات و آداب  سے متعلق  ضروری امور ان کے قلب ودماغ میں راسخ کرادیں ؛تاکہ فتنوں کے اس دور میں الحاد وارتداد کی کوئی لپیٹ انہیں متاع ایمان سے محروم نہ کر دے۔

2:وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم کےلیے وقف کردیتے ہیں اور انہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر بنیادی عصری تعلیم سے بھی نابلد رکھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ  وہ بدلتے حالات کےپیش نظر بہ قدر ضرورت عصری علوم سے واقف کرانے کا اہتمام کریں ؛تاکہ مستقبل میں ان کی اولاد کسی بھی موقع پر دوسروں کی محتاج نہ رہے۔

3:وہ والدین جواپنی اولاد کو عصری اور دینی علوم  سے وافر حصہ عطاکرتے ہیں اور اسلامی تربیت  کےذریعہ  ان کواچھی طرح  آراستہ وپیراستہ  کرتے ہیں۔ وہ قابل صد مبارک باد ہیں، انہیں اپنے اس نظام کو فروغ دینے اور خاندان وقبیلے کے دوسرے سرپرستوں تک متعدی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔

4:وہ والدین جو معاشی مجبوری یا دیگر نامعقول اسباب کی بناء پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کرتے ہیں  اور انہیں اپنے ہی کسی پیشہ سے وابستہ کردیتےہیں۔ انہیں سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اولاد کے مستقبل کےلیے سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں، اس لیے بنیادی طور پر دینی وعصری علوم کے مکاتب واسکولس سے رجوع ہوکر بچوں کو قابل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے؛تاکہ علم کی روشنی سے سارا گھر منور ہوجائےاور دین ودنیا دونوں میں مفید و کارآمد ثابت ہوسکیں۔

مختصر یہ کہ اس وقت گرمائی تعطیلات کا زمانہ چل رہاہےجو اگرچہ بہت طویل نہیں ہوتا، مگر منظم کوششوں اور منصوبہ بند کاوشوں سے بڑی حدتک تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ جو بھی وقت ملے طلبہ کے والدین، سرپرستوں اور گرمائی کورسس کا نظم کرنے والوں کو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایک صالح اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے رخ کو دین وآخرت کی طرف موڑنا چاہیے؛ اس لیے کہ یہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔