اویسی بول رہا ہے

احمؔد صدیقی

دلت مسلم کے دل کا پیار
جگا دو بڑھ کے اب بھی یار
گرا دو نفرت کی دیوار
بنا دو جنگل کو گلزار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

یہ فرضی سیکولر سرکار
کرے نفرت کا کاروبار
مسلماں غربت سے دوچار
دلت پر ٹوٹے اتیاچار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

اسدؔ اور اکبرؔ کی للکار
سہو مت ظلم و اتیاچار
اٹھو اور سوچو میرے یار
بنا لو پریم کو تم تلوار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

بھگایا انگریزی سرکار
نہیں ہیں دیش کے ہم غدار
ہمارے آبا تھے سردار
ہمیں سے دیش ہوا گلزار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

وطن کا اخترؔ خدمت گار
ہے تھوڑا پریم اسے درکار
وہ بندہ ہے تو بہت دلدار
اسے تم دیدو اپنا پیار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

لٹا کے دولت کا انبار
ہوا جو چوروں کا سردار
لگائے ظلم کا جو بازار
کبھی مت کرنا اس سے پیار

سمئے پٹ کھول رہا ہے
اویسی بول رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔