اُردو رسائل کا سیلابِ بلاخیز

محمد عارف اقبال

ہندوستان میں بلامبالغہ سینکڑوں اردو رسائل جن میں ماہنامہ، دوماہی، سہ ماہی، ششماہی اور سالنامہ سبھی شامل ہیں، گھٹتے ہوئے اردو قارئین کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک صدی یا ساٹھ ستر سال سے نکلنے والے چند رسائل اپنی پیرانہ سالی کے ضعف سے زیادہ مالی خسارے سے دوچار ہیں۔ اس لیے وہ خود کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے روز نئی نئی ترکیبیں وضع کرتے رہتے ہیں۔ کچھ معروف اردو رسائل اپنے ذمہ داران کے باہمی ٹکرائو یا ذہنی تنائو کے سبب دَم توڑ گئے لیکن اردو والوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اردو قارئین نے آنکھیں پھیر لیں۔ ان میں کئی رسائل اردو قارئین کے چہیتے تھے اور اردو زبان و ادب کی غیر محسوس آبیاری میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔

گزشتہ دس پندرہ برسوں میں جبکہ اردو زبان بے بسی و بے کسی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اردو ادب کالجز اور یونیورسٹیز میں ’حبس دم‘ میں مبتلا ہے، اردو رسائل کا تواتر کے ساتھ اجرا بلاشبہ تعجب خیز ہے۔ ان رسائل میں ادبی، نیم ادبی، مذہبی و نیم مذہبی، سماجی، طبی و حکیمی، تحقیقی، نیم تحقیقی ہر طرح کے رسائل شامل ہیں۔ ڈائجسٹ نکالنے کا ’خبط‘ ہندوستان میں اب صفر کے درجے تک پہنچ گیا ہے کیونکہ ’مانگے کا اجالا‘ کب تک؟ گزشتہ دنوں اس ’جنون‘ میں کچھ لوگ مبتلا بھی ہوئے تو انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ ہمارے ملک کی تخلیقی زمین بنجر ہوچکی ہے۔ یہاں تخلیقات پر اعزازیہ کی ادائی کا رواج اب بھی شروع نہیں ہوا ہے (چند سرکاری رسائل کو چھوڑ کر) لہٰذا تخلیق کار بھی دوچار سال میں ایک افسانہ لکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی زندگی میں یا مرنے کے بعد اگر اس کے وارثین کو توفیق ہوئی تو 17 یا 21 افسانوں پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہوجاتا ہے۔ گویا اس کی زندگی میں اردو کی کُل خدمت چند افسانوں کی سوغات ہے۔ یہی صورت حال شاعر کی ہے کہ وہ بھی اپنی چند شعری تخلیقات کا مجموعہ شائع کرکے گویا اردو زبان و ادب پر احسانِ عظیم کرتا ہے۔ جہاں تک ’اردو رسائل کے سیلاب بلاخیز‘ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات طے ہے کہ کسی بھی نکلنے والے رسالہ کے ’مدیر‘ یا ’انتظامیہ‘ کو قطعی فکر نہیں ہوتی کہ اس کا رسالہ کون خریدتا ہے۔ البتہ اسے اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ وہ فلاں رسالہ کا مدیر ہے۔ گویا وہ بھی اب ’جرنلسٹ‘ اور ’رائٹر‘ کی صف میں آگیا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ستاتی کہ اس میں مدیرانہ صلاحیت زیرو ہے یا ادارتی فن میں وہ کورا ہے۔ تاہم وہ اِس فن میں مہارت رکھتا ہے کہ وہ اپنی دولت کے سہارے کسی رسالہ کے ’مدیر‘ کے عہدے پر فائز ہوجائے۔ کبھی کبھی اس ’مدیر‘ کو ایسے دقیانوسی لفظ سے بھی چڑ ہوتی ہے لہٰذا وہ خود کو ’ایڈیٹر‘ کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس رسالہ کی مجلس ادارت میں بھرتی کے چند مشاہیر کے نام بھی شامل ہوتے ہیں جن سے اس رسالہ کی ’وقعت‘ دوچند ہوجاتی ہے۔ بھلے ہی ان ’مشاہیر‘ سے ایڈیٹر صاحب کی کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو۔

ادبی یا مذہبی رسائل میں اب مضامین کی کوئی قلت نہیں ہے۔ نیم ادیبوں اور نیم مولویوں نے انٹرنیٹ پر دسترس حاصل کرلی ہے۔ ایک مضمون نگار کا مضمون دسیوں رسائل کی زینت اس طرح بن رہا ہے کہ خود لکھنے والے کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں کہاں چھپ رہا ہے۔ ’کالم نگاری‘ کی روایت تقریباً یہاں ختم ہوچکی ہے۔ چند اچھے مضمون نگار کی اپنی شناخت بھی گم ہوتی جارہی ہے۔ ادبی و نیم ادبی رسائل میں ’شخصیاتی گوشہ‘ کی وبا بھی عام ہے۔ اس سے رسالہ کو ’مستحکم‘ کرنے اور رکھنے میں اس کا مدیر بڑی عافیت محسوس کرتا ہے۔ بعض رسالہ کا ہر شمارہ تو ’ادبی شخصیت‘ ہی کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ وہ ایسی ایسی شخصیت کو تلاشِ بسیار کے بعد اجاگر کرتا ہے کہ رسالہ کے مدیر کی ’تحقیقی نظر‘ پر آج کے اردو قارئین بشمول اساتذہ ادب عش عش کر اٹھتے ہیں۔ برسوں سے نکلنے والے چند ادبی رسالے اپنی تعداد اشاعت کے اعتبار سے دم توڑتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان میں عام طور پر معتبر لکھنے والوں کو ہی جگہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا نئے لکھنے والوں کے لیے نئے ادبی رسالے پناہ گاہ بنتے جارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ادبی رسائل آر این آئی رجسٹرڈ نہیں ہیں لیکن ان کی پیشانی پر ISSN نمبر ضرور دکھائی دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کی سطح پر وہ رسالے جو ISSN سے لیس ہوتے ہیں ان میں شائع ہونے والے مضامین کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی کا ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کو اپنی تحقیقی، تنقیدی یا تخلیقی کاوشوں کو کتابی صورت دیتے وقت ISBN کی تلاش ہوتی ہے۔ کیونکہ آئی ایس بی این کے تحت شائع ہونے والی کتاب آج کل یونیورسٹی یا گورنمنٹ لائبریری میں بے حد اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ اس تمام بھاگ دوڑ، جدوجہد اور مساعی کا ایک ہی مقصد ہے کہ غیر معیاری چیزوں کو بھی معیاری بناکر پیش کیا جائے۔ کچھ ادیب جن کے مضامین چند موقر ادبی رسالوں میں شائع نہیں ہوئے، وہ انتقاماً خود اپنار سالہ نکال کر ایڈیٹر بن گئے۔ نئے رسالہ کے اجرا کی یہ دوڑ اور ’ادارتی چٹورپن‘ اب عام ہوتی جارہی ہے۔ اردو دنیا خاص طور سے ہمارے ملک میں رسالہ نکالنے کی وبا اب پھیلتی ہی جارہی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ادیب و شاعر اپنے ادبی رسالہ کا اجرا تزک و احتشام سے کرتا ہے اور ہزاروں خرچ کرڈالتا ہے لیکن اس کے نصیب میں چند شمارے کی اشاعت ہی ہوتی ہے، بالآخر پرچہ بند ہوجاتا ہے۔ چند برسوں کے بعد وہ پھر اجرا کے لیے ایک بڑی پارٹی ترتیب دے کر ہزاروں خرچ کرتا ہے اور اسے وہ اپنے رسالہ کی ’نشاۃ ثانیہ‘ قرار دیتا ہے۔

ادبی رسالے کی اس دوڑ میں مذہبی رسالے بھی کم نہیں ہیں بلکہ مذہبی بقا کا تصور بھی مسلکی رسالے کی اشاعت میں ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ برسوں سے نکلنے والے چند رسالوں کو چھوڑ کر نئے مذہبی رسالے عام طور پر اپنے مدرسے کے ترجمان ہوتے ہیں جو ان کے مدرسے کو تحفظ بھی مہیا کرتے ہیں۔ ان میں چند آزاد خیال ’مذہبی اسکالرز‘ کے ذریعہ نکلنے والے رسالے بھی ہیں جن کا لب و لہجہ ذرا مختلف ہوتا ہے لیکن ان میں بھی مسلکی تبلیغ کو نمایاں کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے مسالک کے ’عیوب‘ کو تلاش کرنا ان کے نزدیک ’تحقیقی کام‘ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ’اتحاد امت‘ ان کا دعویٰ ہوتا ہے۔ اسی طرح اردو میں عام سماجی اور طبّی رسائل کی اشاعت میں گزشتہ دس برسوں سے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے اردو کے بیشتر رسائل کے مطالعے سے اندازہ کرنا اب بھی آسان نہیں کہ یہ اپنی یا اپنے ادارے کی بقا کے لیے نکالے جارہے ہیں یا اردو زبان و ادب کی حقیقی خدمت یا سماج میں علمی و شعوری بیداری ان کا مقصد ہے۔ یہ بھی اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اگر یہ ’تحقیقی‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو تحقیق سے ان کی مراد کیا ہے؟ اس معاملے میں ایک صدی سے نکلنے والا رسالہ بھی کسی سے کم نہیں ہے جو اپنی پیشکش میں اب بھی صدسالہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ سوال ہے کہ کیا ان کے تحقیقی موضوعات روئے ارض کے انسانوں کے لیے ہیں یا کوئی الگ دنیا ہے جس کے لیے وہ ’تحقیقی عمل‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کسی رسالہ کے مشمولات یا نصب العین سے اتفاق رکھتے ہوں یانہیں، لیکن جن رسائل نے سماجی، ادبی، مذہبی اعتبار سے اپنے نقوش ثبت کردیے ہیں، انہیں اردو کے قارئین آج بھی یاد کرتے ہیں۔

گزشتہ سال گیا (بہار) کے ایک ادیب ومحقق نے ملک کے ادبی رسائل کا سالانہ جائزہ پیش کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون اس لحاظ سے بڑا محققانہ تھا کہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر بستی بستی قریہ قریہ سے نکلنے والے ادبی رسائل کی گنتی کرائی تھی۔ ان میں ’اردو بک ریویو‘ کا جو مسلسل 21 برسوں سے جاری ہے کہیں بھی ذکر نہ تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ اردو بک ریویو (RNI رجسٹرڈ) کا شمارہ شاید رسالے یا جریدے میں نہیں ہے۔ یہ سوچ کر مجھے یک گو نہ طمانیت کا احساس بھی ہوا کیونکہ یہ سہ ماہی جریدہ جو کبھی ماہنامہ اور طویل عرصے تک دوماہی نکلتا رہا، اپنی دستاویزی کاوش میں الحمدللّٰہ سب سے الگ ہے، اور ہر شمارہ محنتِ شاقہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں بھرتی کے چند تازہ / باسی مضامین کو جمع نہیں کیا جاتا بلکہ انسانی سماج کے ہر طبقے کی علمی، ادبی و تحقیقی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔