شوکت صدیقی کے ناول – ’’کمین گاہ ‘‘کا فنی جائزہ

شہناز رحمن                                                                                         

اردو فکشن میں شوکت صدیقی کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی افسا نوی تحریر یں کسی نہ کسی خاص دور کا المیہ ہوتی ہیں، جس میں خالص شخصی پیشکش اور ذاتی طور پر محسو س کی جانے والی صورتوں، حالات و کیفیات کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کے تمام تجربے اور زبان و بیان کی شگفتگی بھی موجود ہوتی ہے۔ جہا ں تک ان کے ناولوں کی بات ہے تو ؑعا م طور پر تمام اچھے ناولوںکی طرح ان کے یہاں بھی خیال کا محور انسانی زندگی اور اس کے مادی مسائل و امکانات ہی ہیں جس میں ان کی انفرا دی سوچ اور تخلیق کی انوکھی اظہا ریت بھی شامل ہے۔ ان کے ناولوں میں حالات کے بطن سے جو صو رت ابھرتی ہے وہ کسی نہ کسی مخصوص دور سے عبارت ہونے کے با وجود ہر زمانے میں ہو نے والے جرائم اور بد عنوانیوںکا جیتا جاگتا مرقع بھی ہوتی ہے اسی لیے ان کے ناولوں کو بے لاگ حقیقت اورسماجی ناولوں کے زمرے میں رکھاجا تا ہے جو کہ فنی اعتبار سے بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ان میں وہ تمام خصو صیا ت موجو د ہیںجو سما جی ناول کی تعریف میں ماہرین فن نے لکھا ہے۔

”The social novel emphasizes the influence of the social and economic conditions of an era on shaping characters and determining events;if it also embodies an implicit or explicit thesis recommending political and social reform,it is often called a sociological novel.,,(1)

اس اعتبار سے شوکت صدیقی کے ناولوں کا جا ئزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاںمختلف ادوار کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات وواقعات، انسانوں کے افعال واقوال، سوچنے اور غور و فکر کرنے کا انداز، کامرانیاں ونا کامیاںاور تہذیبی و ثقافتی سر گرمیاں ابھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ ــخدا کی بستی، جانگلوس، چار دیواری اور کمین گاہ میں ان تمام خصوصیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن موخر الذکر ناول پر  گفتگو خال خال ہی ملتی ہے یعنی اب تک  اس کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔ جب کہ فنی و موضوعاتی اعتبار سے اس دور میں لکھے جانے والے ناولوں کے ہم پلہ ہے۔ بہت طویل نہ ہونے کی وجہ سے پلاٹ میںربط وتسلسل برقرارہے ہر قصہ اور کردار مرکزی خیال سے تعلق رکھتا ہے کہیں بھی آورد یا کسی خلا کا احساس نہیں ہوتاہے۔ ناول کا پلاٹ ایک اتفاقی واقعہ پر مبنی ہے اور پھر یہی اتفاقی واقعہ ناول کے کینوس کو پھیلانے میں اصل محرک کا کام کرتا ہے۔ ناول کی ابتدا نہا یت عامیانہ انداز میںگلی کے نکڑ سے ہوتی ہے یہ گلی طوائفوں کی ہے جہاں راہو مہاراج جیسے غنڈے کا رعب و دبدبہ قائم ہے، ناول کا مرکزی کردار رام بلی ایک ٹرک کلینر ہے، لکھنئو جاتے ہوے راستے میں اس کا گزر طوائفوں کی اسی پھول والی گلی سے ہوتا ہے، بھیڑ بھاڑ دیکھ کر رام بلی بھی جائزہ لینے کی غرض سے اس طرف متوجہ ہوتا ہے، جہا ں راہو مہاراج  ایک دوکان والے لوٹن نام کے آدمی کو بے رحمی سے ماررہاہوتاہے اور لوگ خامو شی سے اس کی سر کشی کا تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں، یہ سب دیکھ کر رام بلی بالکل بپھر جاتا ہے اور پہلے تو شرافت سے روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر اپنی طاقت کے جوش میںراہو مہاراج اسے حقارت سے دھتکارنے لگتا ہے لہٰذا رام بلی بہت بری طرح اسے مات دے کر گلی والوں کے سامنے اسے رسوا کر دیتا ہے۔ اس کی بہادری سے کو ٹھے کی طوا ئفیں اور گلی کے دوسرے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں۔ دلاری طوائف احترام میں اسے سیٹھ کہنے لگتی ہے۔ رام بلی ایک جاہل و ان پڑھ شخص ہے مگر اس کے اندر انسانیت کا جذبہ موجو د ہے اور اسی جذبہ کے تحت وہ شوکت صدیقی کا ہیرو بن گیا۔ ذیلی کرداروں میں سب سے اہم کردار ترلوکی چند کا ہے جو کہ سرامک ہوزری مل کا مالک ہے حسب روایت تمام اہل دولت کی طرح رنگین مزاج عیاش اور طوائف کے کوٹھے کا عادی ہے۔ ایک بار دلاری کے کوٹھے پر اس کی موجودگی میں کچھ غنڈوں کی آمد ہوتی ہے اور وہ زور زبردستی کرتے ہیں۔ اتفاق سے رام بلی بھی اس رات کوٹھے پر موجود ہوتا ہے اور وہ غنڈوں سے مقابلہ کر کے تر لوکی چند کی جان بچا لیتا ہے، اسی وقت تر لوکی اس کی مردانگی و بہادری کو اپنے نا جائز مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا عزم کر لیتا ہے، کیوں کہ مزدوروں کی طاقت، ان کے غم و غصے اور ان کی سر کوبی کو ختم کرنے کے لیے رام بلی جیسے بہادر اور نڈر شخص کی ضرورت تھی۔

                               جس زمانے میں یہ ناول لکھا گیا وہ انتہائی کشمکش اور معا شی اعتبار سے ہیجان وانقلاب کادورتھا، کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور حکمرانوں کی من مانیوں سے تنگ آ کرملوں اور کا رخانوں میں کام کرنے پر مجبور تھے، جا گیر داری سرمایہ داری میں تبدیل ہو چکی تھی معاشیات کو وسیع پیمانے پر لانے کی کوششیں ہو رہی تھیںلہٰذا مصنف نے ترلوکی چند کو ایک ایسے نمائندے کے طور پر پیش کیا ہے جو مزدوروں کو پیدائشی غلام سمجھتے ہیں اور ان سے بلا معاوضہ کام کرانااپنا حق خیال کرتے ہیںجیسا کہ اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے۔

’’لیکن دن دوگنی رات چوگنی ترقی اور دولت کی ریل پیل کے باوجود سیٹھ ترلوکی چندمزدوروں کے معاملے میں اپنی دیرینہ روش پر قائم رہااور ان کو کوئی مراعات دینے کے حق میں نہیں تھا وہ کوئی مطالبہ کرتے تو ٹال مٹول سے کام لیتا دھونس دھمکی سے ہراساں کرنے کی کوشش کرتا۔ ‘‘(2)

تر لو کی چند کے اس رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جا گیر دارانہ نظام اگر چہ ختم ہو چکا ہے لیکن بر سر اقتدار طبقہ ہر زمانے میں استحصال کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے صرف ان کے نام اور چہرے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس ناول میںسرمایہ داروں کے استحصالی رویے اور صنعتی نظام کے نا جائز تسلط کے خلاف احتجاج کی صورتیں اور کیفیتں بڑے ہی فطری انداز میں بیان کی گئیں ہیں۔ اسی لیے لسانی سطح پر بھی اس ناول میں کوئی ابہام یا گنجلک پن نہیں ہے۔ جیسا کہ باختن کا خیال ہے کہ:۔

’’ ناول کے ڈسکورس میں سماجی تکثیریت شامل ہوتی ہے لہٰذا ناول کے ڈسکورس کو بخوبی سمجھنے کے لئے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ اس سماجی سیاق کے زیر اثرناول کا لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور فارم اور مواد کا تعین ہوتا ہے۔ ‘‘(3)

لہٰذا اس ناول سے محظوظ ہو نے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے زمانے اور پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ واحد غائب راوی ذاتی طور پر جذب کیے ہوئے واقعات کو کرداروں کی مدد سے اس طرح بیان کرتا ہے جس سے زندگی کے نشیب و فراز کی تصویریں الفاظ کے پیچھے سے ابھر تی چلی جاتی ہیں۔ اور بیان کا آہنگ، جملوں کی دروبست اوراتار چڑھائو سے اس عہد کا سماجی دبائو واضح ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ کہ روایتوں اور طبقاتی بلندی وپستی کی اظہاریت کو ایک نچلے طبقے کے فردکے ذریعہ پیش کر دیا گیا ہے۔ اور یہ شو کت صدیقی کی خصوصیت ہے کہ وہ بر سر اقتدار طبقہ کی بد عنوانیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے کسی مجرم یا نچلے طبقے کے فرد کو ہی وسیلہ بناتے ہیںدوسری اہم بات یہ کہ اس کردار کی زندگی اتفاقی حالات پر منتج ہوتی ہے۔ مگر یہ اتفاقات حقیقت سے پرے نہیں ہوتے بلکہ ناول کا کینوس انھیں حادثات کے تانے بانے میں زندگی کے مسائل اور محرومیوں کو واضح کر دیتا ہے۔

                              شوکت صدیقی کے کرداروں کا جائزہ لینے کے بعداندازہ ہو تا ہے کہ وہ اپنے اعمال وافعال سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیںان کے انجام کی کوئی صورت متعین نہیں ہوتی بلکہ سچویشن کے مطابق صورتوں کے اسیر ہوتے ہیں جس کی واضح مثال کمین گاہ میں رام بلی کے کردار سے ملتی ہے۔ ترلو کی چند اسے دلاری کے کوٹھے سے کسی طرح اپنے ساتھ لے آتا ہے اور جرائم پیشہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ رام بلی بھی بنا سوچے سمجھے اس کے احکام کا غلام بن جاتا ہے مثلاًمزدوروںکے جائز مطالبات اور محنت کا معاوضہ طلب کرنے پر ٹریڈ یونین کے دفتر کو آگ لگا دینا اورترلوکی چند کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو دھمکی اور مار پیٹ کرکے منھ بند کرا دیناایسے حرکات ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رام بلی کے لا شعوری رد عمل کے نتیجے ہیں۔ اس کی زندگی میں ہو نے والے اتار چڑھائو، نیکی بدی اور عذاب و ثواب نے اس ناول کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ مزید یہ کہ اس ناول کے ذریعہ ایک خاص دور کی معاشرتی و تہذیبی زندگی بھی سامنے آجاتی ہے۔ اس ناول کے متعلق ڈاکٹر حنیف فوق لکھتے ہیں :۔

’’کمین گاہ میں نئے قدم جماتا ہوا صنعتی معاشرہ حقیقت کی نئی صفاتیوں کو پیش کرتا ہے۔ ایسے معاشرے میں رام بلی جیسے قہرمانی صفات، رکھنے والے کردار بھی استحصالی نظام کاایک کارندہ بن جاتے ہیںکہ خود ان کا انجام شکست و ریخت اور موت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ناول بھی شوکت صدیقی کے اس تصور فن سے منسلک ہے  جو زندگی کے طلسمات کی ڈور معاشی حقیقت کے ہاتھ میں دیکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(4)

اس ناول کے متعلق اس رائے سے ثابت ہوتا ہے کہ ناول کا کینوس اگر چہ بہت وسیع نہیں مگر نئی صنعتی زندگی کے چھوٹے چھوٹے تجربات کا ٹریٹمینٹ ضرور موجود ہے۔ بیسویںصدی کی ابتدائی دہائیوں میں لکھے جانے والے ناولوں کی طرح کمین گاہ میں صرف جذبات کا کھیل نہیں بلکہ اس سے دامن چھڑاکربے حد تخمینی اور میکانکی انداز میںنفع و نقصان کا احتساب بھی موجود ہے۔ اس کا اندازہ دلاری کے اس واقعہ سے ہوتا ہے جب ترلوکی چنداسے لکھنئو سے اپنے قصبے کمہولی بلواتا ہے کیوں کہ اپنی کر توتوں کی وجہ سے لکھنو جانے میں اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے، لہٰذا دلاری کو بلوا کر اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور جسمانی اذییتں پہنچاتا ہے اسی لیے وہ تنگ آکر رام بلی سے مدد طلب کرنے جاتی ہے تا کہ وہ اسے یہاں سے باہر نکالنے کے لیے کوئی تدبیر کرے۔ چونکہ وہ رام بلی کو اپنا محسن سمجھتی ہے اس لیے وہ مشورہ دیتا ہے کہ طوائف کا پیشہ چھوڑ کر وہ عزت کی زندگی گزارے تودلاری جواب دیتی ہے کہ:۔

’’کس کے گھر بیٹھ جائوں کو ن مجھے بٹھائے گا‘‘

تیری مرضی ہو تو میں تیار ہوں

َ’’ارے سیٹھ تم تو خود ٹھاکر کے ٹکڑوں پر پل رہے ہو۔ میرا بیڑا کیا پار لگاؤ گے؟‘‘(5)

                      اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شوکت صدیقی کے اس ناول میں عشق ومحبت اور جذبات کا گزر نہ کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود قاری کی دلچسپی مسلسل برقرار رہتی ہے یہ کمال یوں ہوتا ہے کہ اس ناول کا بیا نیہ سپاٹ نہیں جو واقعات کومجہول کرداروں کی بے بس زندگی سے وابستہ کر کے محض ضخامت کے لیے پیش کر دے۔ بلکہ اس میں سما جی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی الجھنیں اور ملکی سیاست کی جھلکیوں کو بھی سمیٹا گیا ہے۔ اس کا اندازہ ناول میں اس واقعہ سے ہوتا ہے جب مزدوروں کی ٹریڈ یونین کے جلسے کوناکام کرنے کے لیے ترلوکی چنداپنے کارندوں کے ذر یعہ چھیڑ چھاڑ کروا تا ہے معاملہ اس قدر سنگین ہو جاتا ہے کہ خون خرابے کی نوبت آجاتی ہے اس افرا تفری کی فضا اور متشدد حالات میں مزدوروں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزیدمشتعل ہو جاتے ہیںاور وہ متفقہ طور پر ہڑتال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن ملک کی سیا سی ومعاشی صورتحال ابتر ہونے کی وجہ سے ان کے فیصلے کا نتیجہ ان کے بر خلاف ثابت ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس صورت حال کی بہترین تصویر سامنے آتی ہے۔

 ’’ترلوکی چند کے لیے یہ بالکل نیا تجربہ تھااب تک اس کے کسی کارخانے میں نہ کبھی ہڑتال ہوئی تھی نہ تالا بندی۔ کسی مزدور یا کاری گر کی کوئی شکایت ہوتی تو وہ اپنا مسئلہ منیجر کے سامنے پیش کرتا، منیجر جو فیصلہ کرتا عام طور پر تھوڑی حیل و حجت کے بعد قبول کر لیا جاتا یہ اس وقت تک ہوتارہا جب تک فیکٹری میں کام کم ہوتاتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جب جنگ چھڑی اور فضائی اور بحری بم باری کے باعث جہاز رانی کا نظام درہم برہم ہو گیاتو غیر ملکی اشیاء کی درآمد رفتہ رفتہ بالکل بند ہو گئی، ملکی صنعت و حرفت کے دن پھر گئے خصو صیت کے ساتھ ان صنعتوں نے خوب ترقی کی جن میں فوجی سازوسامان  تیار ہوتا تھا ان صنعتوں میں اگروال ہوزری مل بھی شامل تھاپیداوار میں اضافہ ہوا تومزدوروں اور کاریگروں کی تعداد بڑھانا پڑی۔ سیٹھ ترلوکی چند کے وارے نیارے ہو گئے۔ ‘‘(6)

اسی طرح کے کئی واقعات ایسے ہیں جن سے اس زمانے کی سیاسی فضا اور سماجی سرگر میوں کا اندازہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیانیہ میں اظہار کی باخبر اور دانشورانہ دھمک پیدا ہو گئی ہے۔

                                            شو کت صدیقی کا ایک کما ل یہ بھی ہے کہ وہ کرداروں کی داخلی و خارجی کیفیات کی پیشکش اور ہم آہنگی کے ذریعہ اثر کو تیز تر بنا دیتے ہیںکیوں کہ ان کے کر دار عا م انسانوں کے زندہ نمونے ہوتے ہیں یعنی ان میں اچھائی اور برائی کے دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں، ان کی انفرادیت یہ ہوتی ہے کہ مجر مانہ حرکتوں کے باوجود وہ حیوانیت کی سطح پر نہیں اترتے بلکہ انسانیت اور ہمدردی کا بے لاگ جذبہ موجود ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عصری صورت کی پردہ پوشی نہیں کرتے، اس کی واضح مثال رام بلی کا کردار ہے۔ بسا اوقات اپنی حقیقت کا اظہا روہ تنہائی میں یا لوگوں کے سامنے کرتا ہے۔

’’سیٹھ تو اپنا ترلوکی چند ہے، میں تو اس کا کتاہوں۔ وہ جس کی طرف ششکارتا ہے، اس پر بھونکنے لگتا ہوں، کاٹ کھانے کو جھپٹتا  ہوں۔ ۔ ۔ اس سے زیادہ اپنی اور کیا حیثیت ہے۔ ‘‘

’’ارے بات وات کچھ نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم دونوں ہی سیٹھ ترلوکی چند کے کتے ہیں۔ ‘‘(7)

رام بلی منجھا ہوا مجرم ہونے کے باوجود مذہب کے معاملے میں محتاط رہنے کی کو شش کرتا ہے اورکئی موقعوں پر شرف ا ٓدمیت کو پامال ہونے سے بچا لیتا ہے مثلاجب ایک بارترلوکی چند کارخا نے کے ایماندار اور صنعتی شعور رکھنے والے ممبر نربدا رائے کی دور اندیشی سے خائف ہو کر اسے اپنے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے جان سے مار دیتا ہے اور اس کی لاش کو دفن کرنے کی ذمہ داری رام بلی کو سونپتا ہے تو رام بلی انکار کرتے ہوئے کہتا ہے۔

’’میں سب کچھ کر لوں گا پر نربدا رائے کی لاش کو زمین کھود کر گاڑ نہیں سکتا۔ ۔ ۔ میں اپنے دھرم کا اپمان نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ سرکار میں بہت پاپی ہوں اپنے کرموں سے ڈرتا ہوں۔ ‘‘(8)

اسی طرح جب ترلوکی چند اپنی سوتیلی ماں رانی بوا کے گھر کو آگ لگانے کے لیے رام بلی کو بھیجتا ہے تو رام بلی اس جرم کو انجام دینے میں ناکام ہو جاتا ہے اور معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

’’سرکار یہ پٹرول چھڑک کر میرے شریر کو آگ لگا دیجئے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ سرکار مجھ سے عورت پر وار کرنے کے لیے ہا تھ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ‘‘(9)

                اس ناول میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مختصر ہو نے کی وجہ سے منا ظر کا بیا ن بہت اختصار  کے ساتھ مناسب پیرائے  میں اس طرح کیا گیا ہے کہ اس عہد کی مخصوص تہذیب کا ایک خاکہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

’’گرمیوں کی شام تھی چوک میں ٹریفک بند ہو چکا تھا۔ سڑک پر ابھی ابھی سقوں نے چھڑکائوکیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالا خانوں سے طبلے کی تھاپ اور گھونگروئوں کی چھنا چھن ابھر رہی تھی۔ سورج غروب ہورہا تھا۔ ۔ ۔

گلابی جاڑوں کی رات تھی۔ دسہرہ گزر چکا تھا۔ دیوالی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ۔ ۔

سردی کا زور ابھی ٹوٹا نہیں تھا۔ پھاگن کی بپھری ہوئی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہولی کی آمد آمد تھی۔ چوراہوں پر لکڑیوں کے ڈھیر لگا کرالائو روشن کر دئیے گئے تھے۔ (10)

بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر چہ اس ناول کا موضوع نیا نہیںمگر برتنے کا انداز نہایت ہی انوکھا ہے، دولت مند طبقے کا ظلم و ستم اور غریب طبقے کی تمام تر کوششوں اور انقلابی اقدام کے باوجود ان کی نا کامی اور استحصال کو بہت سے لوگوں نے بیان کیاہے لیکن شوکت صدیقی کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اس ناول میں ترلوکی چند کا مزدوروں اور مل کے ملازموں پر مالکانہ تصرف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ رام بلی کے ساتھ اس کے جس رویے کو بیان کیا ہے وہ ظالمانہ نہیں بلکہ مرعوبیت کا ہے، اسی لئے آخر میںوہ رام بلی کی طاقت اور غیض و غضب سے خائف ہو کر اسے قتل کرا دیتا ہے۔ دوسرا عنصرجو اس ناول کو اس کے ہم عصر ناولوں سے منفرد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس ناول میں صنعتی تہذیب میں ہونے والے تعمیری اور تخریبی پہلوئوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

(1)۔ page.256,glossary of literary terms:M.H Abrams

(2)   ص81، کمین گاہ، شوکت صدیقی، رکتاب پبلیکیشنزپاکستان، اشاعت جون 2009۔

(3)ص179، اے۔ آر فتیحی، ناول اور میخانل باختن کا نظریہ اصناف مشمولہ صنف کی تشکیل۔ ۔ ۔، مرتب قاضی افضال حسین۔

(4)ص21، شوکت صدیقی ایک مطالعہ، مطبوعہ ماہنامہ چارسو، راولپنڈی۔

(5) ص 164، کمین گاہ، شوکت صدیقی، اشاعت جون 2009۔

(6) ص 81، کمین گاہ، ایضاً۔

(7)ص152، کمین گاہ ایضاً۔

(8) ص59۔ 60کمین گاہ، ایضاً۔

(9)ص69، کمین گاہ ایضاً۔

(10)ص 5۔ 61، کمین گاہ، ایضاً۔

تبصرے بند ہیں۔