اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا
کاشف لاشاری
اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا
سینے سے گویا دل مِرا مفرور ہو گیا
…
جینے کی آس دی، نہ کہ جینے دیا کبھی
تیرے غموں سے دل مِرا معمور ہو گیا !
…
اُس کی طلب بڑھی تو بہت دور تک گئے
اظہارِ عشق سُن کے وہ مغرور ہو گیا
…
وحشت اِسی لیے مِرے دل سے نہیں گئی
تیری کمی کا سوچ کے رنجور ہو گیا
…
اُن کی گلی میں بیٹھ گیا ہوں مَیں آج، دوست!
جی کو جلانا اُن کا تو دستور ہو گیا
…
کاشف! مُجھے دیا تھا جو چاہت میں تحفتاً
ہر ایک زخم دیکھ ابھی ناسور ہو گیا
تبصرے بند ہیں۔