اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا

کاشف لاشاری

 اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا

سینے سے گویا دل مِرا مفرور ہو گیا

جینے کی آس دی، نہ کہ جینے دیا کبھی

تیرے غموں سے دل مِرا معمور ہو گیا !

اُس کی طلب بڑھی تو بہت دور تک گئے

اظہارِ عشق سُن کے وہ مغرور ہو گیا

وحشت اِسی لیے مِرے دل سے نہیں گئی

تیری کمی کا سوچ کے رنجور ہو گیا

اُن کی گلی میں بیٹھ گیا ہوں مَیں آج، دوست!

جی کو جلانا اُن کا تو دستور ہو گیا

کاشف! مُجھے دیا تھا جو چاہت میں تحفتاً

ہر ایک زخم دیکھ ابھی ناسور ہو گیا

تبصرے بند ہیں۔