پنڈت جی می لارڈ!

ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانشؔ

مرد وزن سے ہے تصوّر خانہِ آباد کا

یہ ثقافت کے لئے پتّھر رہا بنیاد کا

عدلیہ کہتی ہے اب ایسی رکاوٹ کس لئے

دور ہے دنیا میں یہ آزادئِ افراد کا

شادیاں دو مرد بھی آپس میں کر سکتے ہیں اب

ہے عبث، شیریں کوئی رستہ تکے فرہاد کا!

اور آبادی جو بڑھتی جا رہی ہے اسقدر

نسخئہِ کاری بھی ہے یہ اس کے انسِداد کا

الجھنیں لیکن نئی ہیں یور آنر دیکھئے

ہو رہا ہے کیسے پالن، آپ کے ارشاد کا

دے دیا اک ماں نے بیٹے کی خوشی کے واسطے

اشتہار اخبار میں، ’اک چاہیئے داماد‘ کا

کون منگل سوتر پہنے، مانگ ہو کس کی بھری

یہ بھی ’پنڈت جی‘ بتا دیں، شکریہ ’پرساد‘ کا

دیکھ کر اپنی بہو کو ساس یوں گویا  ہوئیں

زلف کچھ چھوٹی ہے لیکن، قد تو ہے شمشاد کا

جب سسُر نے دی دعا، دودھوں نہا، پوتوں پھلے

کچھ بہو سمجھی نہیں مطلب، ستم ایجاد کا

بے حیائی، ’ بے وفائی‘ سب جنہیں منظور ہے

مواخذہ کرتے ہیں بیگم کی مری،  تعداد کا !!

برہمن کو چاہئیے بہرِ پرستش بتکدہ

مسجدیں حصٌہ نہیں، اسلام کی بنیاد کا!

سرنگوں اہلِ حَکَم کے سامنے ہے عدلیہ

کیا اثر ہوگا یہاں کمزور کی فریاد کا؟

چشمِ عبرت میں ھلاکت پھرگئی ’سودوم‘ کی

ہم پہ بھی سایہ نہ ہو اس خطٌہِ برباد کا

سودوم ۔ سرزمینِ قومِ لوط

تبصرے بند ہیں۔