آتش رفتہ کا سراغ

مبصر:ساجد انصاری ندوی

مولف: ڈاکٹر حسن رضا

صفحات: 256

قیمت:  300؍روپے صرف

ناشر:  ادارۂ ادب اسلامی ہند، نئی دہلی، D321ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی

موبائل:          8709108154

ادارۂ ادب اسلامی ہند کو ابتداسے ہی باوقار افراد کی صدارت حاصل رہی ہے۔ جنہوں نے اپنے خون جگر سے ادارے کی آبیاری کی۔ ان میں ایک معتبر نام ڈاکٹر حسن رضا کا ہے۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند کو ان کی چار سالہ صدارت اور اس کے ترجمان ماہنامہ’’ پیش رفت‘‘ کو ادارت کا شرف ملا۔ ’’ آتش رفتہ کا سراغ‘‘ان ہی اداریوں کا مجموعہ ہے جو دسمبر 2013ء سے مئی 2017ء تک مستقل شائع ہوتے رہے۔ اس میں 38؍ اداریوں کے علاوہ ایک مضمو ن اور دو انٹرویو بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اداریے بنیادی طور پر 3؍ موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، جس کی طرف اداریہ نویس نے اپنے ایک اداریے ’’میری اداریہ نگاری کے چار برس ‘‘ میں کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے:

1۔  ادب اسلامی کا پس منظر،مسائل اور حل

2۔ ادبی تخلیقات اور تحریک اسلامی کا رشتہ

3۔ مختلف اصناف ادب اور نمائندہ شخصیات

اسی لیے جمع و ترتیب میں اس کو میں نے اول نمبر پر رکھا ہے تاکہ اداریہ نگار کی طرف سے دیباچے کا بدل بن جائے۔

یوں تو اردو زبان و ادب میں اداریہ نگاری کی روایت بہت قدیم ہے۔ اور اس دوران اردو کے افق پر متعدد اداریہ نگار ابھرکر سامنے آئے ہیں۔ لیکن قارئین سے یہ امر مخفی نہیں کہ کتنے اداریے واقعی اداریہ کہلانے کے مستحق ہیں اور کتنے پیش ناموں کے صفحات محض رسمی اور خانہ پرُی کی غرض سے سیاہ کیے جاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسن رضا کے اداریے اس حوالے سے ممتاز ہیں کہ انہیں خوب سوچ سمجھ کر سپرد ِقلم کیا گیا ہے اور ان کے ذریعے ایک ادبی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موصوف نے ایک جگہ خود ہی وضاحت کردی ہے کہ:

’’…میرے لیے افکاروخیال کی آوارہ گردی کو چاند کے غاروں میں نظر بندکرنے سے زیادہ مشکل اسے ہر ماہ اداریے کی شکل میں پابند قلم وقرطاس کرنا لگتا رہا۔ تاہم جو کچھ میں نے لکھا الحمد للہ خوب سوچ سمجھ کر لکھا۔‘‘

           لہٰذا ان اداریوں کی اسی معنویت، ادبی اہمیت، قارئین کے حسن تاثرات اور احباب کی خواہش پر انہیں مرتب کرکے کتابی شکل دی جارہی ہے تاکہ ادب اسلامی کی بحث کو نئے سرے سے آگے بڑھا یا جاسکے۔

          ڈاکٹر حسن رضا ادب اسلامی کے حلقوں میں ایک نمایاں نام ہے۔ فی الوقت وہ اسلامی اکیڈمی دہلی کے چیرمین ہیں اور اس کے تحت چلنے والے ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائرکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے تین دہائی شعبہ اردو رانچی یونی ورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیے ہیں۔ یوں تو بسیار نویسی آپ کا مزاج نہیں ہے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک اداریے میں کچھ یوں کیا ہے:

’’…لکھنے کے لیے مجھے اپنی طبیعت کو صرف آمادہ ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو منانا بھی پڑتاہے۔ کبھی کھلونے دے کر بہلانا پھسلانا اور کبھی ڈرا دھمکا کر کام لینا پڑتا ہے۔ شعور اور لاشعورکی رَو کو ایسا پابند رکھنا کہ دیوار پر ٹنگے ہوئے کلینڈر کے اوراق کے پلٹنے کی صدا پر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اٹھ جائے اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھ جائے مرے لیے جوئے شیرلانے سے کم نہیں ‘‘۔

          اس کے باوجود گاہ گاہ نوکِ قلم کو حرکت دیتے رہے ہیں۔ ’’ شین مظفر پوری ؛شخصیت اور فن‘‘ ان کے پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے جو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ اس وقت شین شناسی کے لیے یہ کتاب حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح شخصی کوائف کو انہوں نے خاکوں کے کینوس میں اتارنے کی فن کارانہ کوشش کی ہے جنہیں 2017ء میں ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ کے نام سے خان یاسر صاحب نے مرتب کیا ہے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں پر علمی، تحریکی اور ادبی مضامین ملک و بیرون ملک اردو رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں جنہیں اگر ترتیب دیا جائے تو یقینا کئی کتابیں منظر عام پر آسکتی ہیں۔

           ڈاکٹر صاحب کو جاننے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ ان کے قرطاسِ حیات کی ہر سطر، اشہبِ قلم کا ہر لفظ، ان کی نشست و برخواست کی ہر ادا، ذہن و دماغ سے ہوکر تشکیل پانے والے افکارو خیالات کی ہر پرچھائی، جذبہ دروں اور شیشہ دل سے عکس پانے والی ہر تصویر تحریک اسلامی ہی کے دم سے ہے۔ اور یہ مضامین بھی تحریک اسلامی کا علمی و ادبی سرمایہ ہیں جو نسل نو کی فکری و ادبی آبیاری کا کام انجام دیں گے۔

          اس کتاب کے ذریعے ادب اسلامی کی شناخت، مسائل، اس کے اپروچ اور تخلیقی و فنی قالب میں فکرا سلامی کے جمالیاتی اظہار پر زور دیا گیا ہے۔ نوخیز ذہنوں میں ادب اسلامی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کو چھیڑا گیا ہے اور ان کے جوابات دیے گئے ہیں۔ ادب اسلامی کی تعریف، اس کے حدود اربعہ، اس کی تاریخ، اس کے سفر میں دھوپ چھاؤں اور اتار چڑھاؤ کا بے لاگ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر حسن رضا ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنوں کی ادنی سی کاوش پر پھولے نہ سمائیں اور اغیار کی ہر لغزشِ پا آنکھ کا کانٹا بن کر چبھتی رہے۔ بلکہ آپ محسوس کریں گے کہ ترقی پسندی، نسائیت، جدیدیت و ما بعد جدیدیت جیسے ادب اسلامی کے مقابل ادبی تحریکات کے ذکر میں بھی ایک توازن اور فنی رچاؤ پایا جاتا ہے۔ جب کہ وابستگانِ ادب اسلامی کے احتساب اور ان کی تنقید سے ذرا چشم پوشی نہیں کرتے۔ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کے آپ نقیب ہیں۔ یہ اداریے اسی کے ترجمان ہیں۔ ان اداریوں کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ یہ اسلامی زاویہ نظر سے لکھے گئے ہیں اور انہوں نے زاویہ نظر کو مخصوص اسلوب دید بھی بخشا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کے تصور حسن کے دیکھنے کے لیے وہ حسن نظر کے قائل ہی نہیں اس پر زور بھی دیتے ہیں۔

          اس مجموعے کے مشمولات بہ ظاہر الگ الگ مضامین ہیں لیکن نزولی ترتیب کے بجائے ان میں ربط معانی کی تلاش کی گئی ہے جس سے ان میں ایک داخلی وحدت قائم ہوگئی ہے۔

          احوال و سرور کی الگ الگ کیفیتوں میں حیطہ ٔ تحریر میں آنے کی وجہ سے ان اداریوں میں بعض باتوں کی تکرارتھی جن کی وقتی افادیت اپنی جگہ لیکن کتابی شکل دینے میں انہیں اداریہ نگار کی اجازت سے قلم زد کردیا گیا ہے۔ سچ ہے کہ موصوف کی طبیعت نے شعر و شاعری کا قصرِ شامخ تعمیر کرنے سے ابا کر دیالیکن ان کی شعری طبیعت نے نثرکی ردا تھام لی، چناں چہ ان کی عبارت بہت ٹکسالی اور نغمگی سے بھر پورہوتی ہے۔حذف کرنے میں اس خصوصیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مضامین کے درمیان استعمال ہونے والے اشعار کو مستند حوالوں سے ملایا گیاہے۔ اسی طرح آیات قرآنی و احادیث نبوی کا ترجمہ اور ان کے حوالے بھی درج کر دیے گئے ہیں۔ اس کی پروف ریڈنگ میں بڑی محنت کی گئی ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ یہ مجموعہ معمولی اغلاط سے بھی پاک ہو۔ اسی طرح ٹائپنگ میں تصحیح کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔

          بہرحال مرتب کے کسی بھی قول و عمل میں سہو و خطا سے برأت کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں بھی غلطیاں رہ گئی ہوں گی جنہیں قارئین کے توجہ دلانے پر ان شاء اللہ آئندہ ایڈیشن میں درست کر دیا جائے گا۔

          اب جب کہ یہ مجموعہ باذوق قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے وہ خود فیصلہ کریں۔ اگر ان مضامین کے ذریعے کسی کوبھی تحریک ملتی ہے اور وہ ادب اسلامی کا سپاہی بن کر اسی طرح جدید چیلنجز کا مقابلہ کرتا ہے جیسا دور اول میں ادب اسلامی نے ترقی پسند ادب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں تو یہی اس کی افادیت اور معنویت ہوگی۔

          میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس کی جمع وترتیب میں تعاون کیا اور اسے منظر عام پر لانے میں مدد کی۔

تبصرے بند ہیں۔