حسد کی ہولناکی اور اس سے بچاؤ کا طریقہ

جمشید عالم عبد السلام سلفی

الحمد لله رب العالمین والصلوٰة والسلام علیٰ خیر خلقه محمد وعلیٰ آله وصحبه اجمعین امابعد :

      اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

     قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۞ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۞ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ۞ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ۞ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ۞

 ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والیوں (یا والوں) کے شر سے،  اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرے۔‘‘ [سورۃ الفلق]

     یہ سورہ تمام عالم کے شرور سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے اور وہ چار استعاذہ کے کلمات اپنے اندر رکھتی ہے۔ پہلے میں مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے، دوسرے میں شب تاریک کے شب سے پناہ طلب کی گئی ہے، تیسرے اور چوتھے میں ساحر اور حاسد کے شر سے استعاذہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں کا شر نفس خبیثہ کی شرارت کا نتیجہ ہے جن میں اول الذکر یعنی ساحر شیطان سے مدد کا خواہاں اور اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ [تفسیر معوذتین، ص: ۱۴۱]

حسد کی تعریف

     کسی کی نعمت کےزائل ہونے کی تمنا کرنا یا کسی کے نعمت کو زائل ہونے کی تمنا کرتے ہوئے اسے پانے کی کوشش و آرزو کرنے کو حسد کہتے ہیں اور حاسد پوری کوشش کے ساتھ محسود کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور اس کے لیے پوری طرح کوشاں رہتا ہے۔ اسی لیے شریعت میں حسد کرنا حرام ہے اور غبطہ یعنی رشک کرنا جائز ہے۔ حاسد کے اندر عاین یعنی نظر بد کرنے والا بھی داخل ہے کیوں کہ شریر الطبع اور خبیث النفس حاسد ہی سے نظر بد کا صدور ہوتا ہے۔ نظر بد کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

اِسْتَعِیْذُوْا بِاللهِ تَعَالیٰ مِنَ الْعَیْنِ، فَإِنَّ الْعَیْنَ حَقٌّ‘‘ ترجمہ: ’’نظر بد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو یقیناً نظر کا لگنا برحق ہے۔‘‘ [ابن ماجہ کتاب الطب باب العین رقم الحدیث: ۳۵۰۸، شیخ البانی نے حاکم اور ذہبی کی موافقت کرتے ہوئے اسے صحیح قرار دیا ہے (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم: ۷۳۸)، شیخ زبیر علی زئی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (انوار الصحیفۃ، ضعیف سنن ابن ماجہ ص: ۵۰۳)]

     اور ’’إِذَا حَسَدَ‘‘ کی تقیید کا مفہوم یہ ہے کہ جب حاسد اپنے دل میں پنپنے والے حسد کا عملی اظہار کرے اور محسود کو اپنے آتشِ حسد کے شراروں کی لپیٹ میں لے لے یا حسد کے تقاضے کے مطابق محسود کی نعمت چھن جانے کی خواہش و تمنا رکھے تو اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے۔ چناں چہ حقیقت یہ ہے کہ حاسد کا شر اسی وقت اثر انداز ہوتا ہے جب وہ بالفعل آتشِ حسد کو بھڑکاتا ہے۔

     چوں کہ عام طور پر جادو کا صدور عورتوں سے سرزد ہوتا ہے اور حسد عموماً مردوں کی جانب سے ہوتا ہے، اور کبھی ہر دو قسم یعنی مرد و عورت سے سرزد ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید میں الفاظ بھی اسی مناسبت سے ذکر ہوئے ہیں۔ [دیکھئے: تفسیر معوذتین، ص: ۱۸]

حسد اور رشک کی حقیقت

      اللہ تعالیٰ نے بندوں میں سے کسی کو جو دینی یا دنیاوی نعمت عطا کر رکھی ہے اس نعمت کے زوال اور چھن جانے کی تمنا و آرزو کرنا حسد کہلاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے کسی کو مالی، علمی اور فضل و کرامت کی حیثیت سے کمزور بنایا ہے تو اس کے متعلق یہ خواہش و تمنا رکھنا کہ اس کی حالت نہ بدلے، یا آدمی کسی تگ و دو میں لگا ہوا ہے اور اس کے بارے میں یہ آرزو کرنا کہ اسے کامیابی نہ ملے وغیرہ بھی حسد میں داخل ہیں۔ پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل و موجود نعمت پر حسد کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں متوقع نعمت پر حسد کی جاتی ہے، اور حسد کی یہ دونوں صورتیں انتہائی مذموم و مبغوض ہیں۔ نیز کسی کی نعمت کے سلب کی تمنا نہ رکھنا بلکہ صرف یہ خواہش رکھنا کہ بعینہٖ وہی نعمت مجھے مل جائے یہ بھی حسد ہی ہے جو کہ جائز و درست نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَتَمَنَّوۡاْ مَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بِهِۦ بَعۡضَكُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٖۚ﴾ [النساء: ۳۲]

ترجمہ: ’’اور اس چیز کی تمنا نہ کروجس چیز کی وجہ سے اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

     یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں جو زیادہ عطا فرمایا ہے اس کی ہوس و تمنا نہ کرو۔ علامہ عبدالرحمان سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

     ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اس چیز کی تمنا نہ کریں جو اس نے اپنے فضل و کرم سے دوسروں کو عطا کی ہے، خواہ یہ ممکن امور ہوں یا غیر ممکن۔ چناں چہ عورتیں مردوں کے خصائص کی تمنا نہ کریں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ نہ صاحبِ فقر اور صاحبِ نقص، مالداری اور کاملیت کی مجرد تمنا کریں کیوں کہ ایسی مجرد تمنا حسد کے زمرے میں شمار ہوتی ہے یعنی دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر اس سے اس کے سلب ہونے اور خود کو حاصل ہونے کی تمنا کرنا، نیز یہ تمنا اس امر کی مقتضی ہے کہ تمنا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ کاہلی اور جھوٹی تمناؤں میں گرفتار ہے جو عمل اور محنت سے عاری ہوتی ہیں، البتہ صرف دو امور محمود ہیں: (۱) بندہ اپنی استطاعت اور مقدرت بھر اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول کے لیے کوشش اور جد و جہد کرے۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرے، اپنے نفس پر بھروسہ کرے نہ اپنے رب کے سوا کسی اور پر۔‘‘ [تفسیر سعدی ص: ۵۰۸]

     حسد کی ایک صورت رشک و غبطہ کی ہے جسے مجازاً حسد کہہ دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے کسی کو کوئی نعمت عطا کر رکھی ہے تو اس نعمت کے زوال کی خواہش نہ رکھتے ہوئے صرف یہ آرزو و تمنا کرنا کہ اللہ مجھے بھی اسی طرح کی نعمت سے نواز دے جس طرح فلاں پر اپنی نعمتیں نچھاور کی ہیں تاکہ میں بھی اسی طرح کے اچھے اچھے کام کروں وغیرہ، یعنی اسی کے مثل نعمت کی خواہش و آرزو کرنا جائز و مستحسن اور پسندیدہ امر ہے بس شرط یہ ہے کہ وہ مباح چیزوں میں ہو۔ اسی کو رشک یا غبطہ کہتے ہیں جو جائز ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا‘‘

     ترجمہ: ’’حسد (رشک) جائز نہیں ہے مگر دو شخصوں کے بارے میں: ایک وہ جسے اللہ نے مال سے نوازا اور وہ راہ حق میں اسے خرچ کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ دوسرے وہ جسے اللہ نے حکمت سے نوازا اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘ [بخاری کتاب العلم باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ، رقم: ۷۳، مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ، رقم: ۸۱۶، ابن ماجہ کتاب الزہد باب الحسد، رقم: ۴۲۰۸]

     اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ؛ رَجُلٍ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ، فَقَالَ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ، فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ. وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ، فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ‘‘

     ترجمہ: ’’حسد (رشک) روا نہیں ہے مگر دو آدمیوں پر: ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات و دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے، پس اس کا پڑوسی اس کی تلاوت سن کر کہے: کاش مجھے بھی دیا گیا ہوتا جس طرح فلاں کو عطا کیا گیا ہے تو میں بھی اس کی طرح عمل کرتا۔ اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال عطا کیااور وہ اسے راہِ حق میں خرچ کرتا ہے۔ پس اسے دیکھ کر آدمی کہے: کاش میں بھی اسی طرح عطا کیا گیا ہوتا جس طرح فلاں کو دیا گیا ہے تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا۔‘‘ [بخاری کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب القرآن، رقم: ۵۰۲۶]

     مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں حسد سے مراد غبطہ یعنی رشک ہے۔ اور ان دونوں حدیثوں سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ رشک ایسی چیزوں میں جائز و مستحب ہے جو مہتم بالشان ہوں مثلاً سخاوت اور تعلیمِ قرآن و حدیث وغیرہ۔ امام نووی رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

     ’’علماء کہتے ہیں کہ حسد کی دو قسمیں ہیں : ’’ایک حقیقی حسد اور دوسرے مجازی حسد۔ جسے نعمت دی گئی ہے اس سے نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنے کو حقیقی حسد کہتے ہیں، نصوصِ صحیحہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔ اور مجازی حسد کو غبطہ کہتے ہیں اور غبطہ صاحبِ نعمت کی نعمت کے زوال کی تمنا کئے بغیر اس جیسی نعمت کی آرزو کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر یہ دنیوی امور سے متعلق ہے تو مباح ہے اور اگر یہ اطاعت و فرماں برداری سے متعلق ہے تو مستحب ہے۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غبطہ صرف دو خصلتوں اور ان دونوں جیسی خصلتوں میں محبوب ہے۔‘‘ [المنہاج فی شرح صحیح مسلم للنووی ص: ۵۴۱]

نظر بد بھی حسد ہی کا ایک حصہ ہے

     نظرِ بد کی تاثیر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اور حسد و نظرِ بد دونوں کی تاثیر مشترک ہوتی ہے، بس فرق اتنا ہے کی حسد موجود و غیر موجود اور وقوع پذیر و غیر وقوع پذیر ہر ایک نعمت میں ہوتی ہے اور اس کا مقام دل ہوتا ہے جب کہ نظر بد صرف سامنے کی موجود چیزوں میں ہوتی ہے اور عائن اکثر اپنے دلی حسد کی بنا پر اپنی آنکھوں کے ذریعہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نظر بد لگانے والا حاسد ہوتا ہے جب کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر حاسد نظر بد لگانے والا بھی ہو۔ لہٰذا سورہ فلق میں جو حاسد کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے اس میں عائن بھی داخل ہے۔ علامہ ابن القيم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

     ’’نظر بد لگانے والا بھی ایک قسم کا حاسد ہے، لیکن عام حاسدوں سے وہ زیادہ مضر ہے۔ اور غالباً اسی نکتہ کے لیے سورۂ فلق میں حاسد کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے کیوں کہ عام کے ضمن میں خاص داخل ہوتا ہے یعنی ہر ایک نظر بد لگانے والا حاسد ہے لیکن بالعکس نہیں، اس لیے جب حاسد کے شر سے پناہ مانگ لی گئی تو نظر بد سے بھی پناہ لی گئی۔‘‘ [تفسیر معوذتین، ص: ۱۳۷]

نیکی کے کاموں میں منافست حسد نہیں ہے

     رشک و غبطہ ہی سے ملتی جلتی ایک چیز منافست و مسابقت بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور اطاعت و بندگی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنا۔ دینی امور سے متعلق منافست و مسابقت جائز ہی نہیں بلکہ مستحب و پسندیدہ امر ہے، اور کتاب و سنت میں اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

     ﴿فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٰتِۚ﴾ ترجمہ: ’’پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔‘‘ [البقرۃ: ۱۴۸، المائدۃ: ۴۸]

     اور فرمایا:

     ﴿وَفِي ذَٰلِكَ فَلۡيَتَنَافَسِ ٱلۡمُتَنَٰفِسُونَ﴾ ترجمہ: ’’اور سبقت لے جانے والوں کو چاہیے کہ وہ اسی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔‘‘ [المطففین: ۲۶]

     معلوم ہوا کہ ایسے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی و رضا جوئی کا باعث نیز جنت اور اس کی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

     ﴿لِمِثْلِ هَٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾ ترجمہ: ’’ایسی ہی (نعمتوں) کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔‘‘ [الصافات: ٦١]

     دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

     ﴿سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ﴾ [الحديد: ۲۱]

     ترجمہ: ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے، جو اُن لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔‘‘

     مزید فرمایا:

     ﴿وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾ [آل عمران: ١٣٣]

     ترجمہ: ’’اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جس کا عرض زمین و آسمان کے برابر ہے، جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

صحابۂ کرام کا باہمی تنافس

     مذکورہ قرآنی ترغیب ہی کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اکثر و بیشتر خیر و بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اس معاملے میں ہمہ وقت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے اندر آپس میں کسی طرح کا بغض و حسد بھی نہیں پایا جاتا تھا بلکہ وہ دوسروں کے نیک اعمال کو دیکھ کر دلی فرحت و مسرت حاصل کرتے ہوئے خود بھی آگے بڑھنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

     ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابو بکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن سبقت لے جاؤں گا۔ چناں چہ میں اپنا آدھا مال لے کر حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: اسی کے مثل یعنی آدھا گھر چھوڑ آیا ہوں۔ کہتے ہیں کہ: ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے کہا: میں کبھی بھی آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ [ابو داؤد کتاب الزکاۃ باب فی الرخصۃ في ذلک، رقم: ۱۶۷۸، ترمذی أبواب المناقب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب، رقم: ۳۶۷۵، دارمی کتاب الزکاۃ باب الرجل یتصدق بجميع ما عندہ، رقم: ۱۷۰۱]

     سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کچھ مہاجر فقراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: بلند مرتبے اور دائمی نعمت تو مالدار لوگ لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ نماز پڑھتے ہیں جس طرح کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، وہ روزہ رکھتے ہیں جس طرح کہ ہم روزہ رکھتے ہیں، وہ لوگ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کرتے، وہ لوگ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم لوگ غلام آزاد نہیں کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَيْئًا تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ، وَتَسْبِقُونَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ، وَلَا يَكُونُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ؟‘‘

      ترجمہ: ’’کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ سکھاؤں جس کے ذریعہ تم ان لوگوں کو پا لوگے جو تم سے آگے بڑھ گیے ہیں اور اس سے تم لوگ ان لوگوں سے آگے بڑھ جاؤ گے جو تمھارے بعد ہیں، اور کوئی بھی تم لوگوں سے افضل نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جو تمھاری طرح عمل کرے گا؟‘‘

     ان لوگوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! آپ نے فرمایا: ’’ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہا کرو۔‘‘ نیز ابو صالح کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ: فقرائے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پھر آئے اور عرض کیا: جو عمل ہم کر رہے تھے ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی سن لیا اور وہ لوگ بھی اسی طرح کرنے لگے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، رقم: ۵۹۵، صحیح بخاری وغیرہ میں بھی یہ روایت مختصراً موجود ہے۔]

     آج ہمارے اندر رشک و تنافس کے بجائے حسد و کینہ نے لے لیا ہے، کسی کی عبادت کو دیکھ کر ہم صحابۂ کرام کی طرح خود تو عبادت نہیں کرتے بلکہ قابیل کا طرزِ فکر اپناتے ہیں، خود تو توفیق نہیں ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی کے کام کریں بلکہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ نیک لوگوں کا مذاق اڑائیں اور ان کی عبادت اور نیک کاموں میں کیڑے نکالیں۔ ہمیں حسد و بغض کی روِش ترک کرکے بڑھ چڑھ کر خیر و بھلائی کے کام انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

      واضح رہے کہ کسی طرح کا کوئی شرعی ضرورت ہو، انسان کا دل غنی ہو کہ آنے والے فقر کا متحمل ہو سکے، وہ اللہ پر مکمل بھروسہ رکھتا ہو اور پھر کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو تو ایسی صورت میں اپنا کل مال صدقہ کرنے کی رخصت و اجازت ہے۔ ورنہ عام حالات میں پورے مال کا صدقہ کرنا درست نہیں ہے بلکہ ایسا صدقہ ناپسندیدہ ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’خَيْرَ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ‘‘

     ترجمہ: ’’ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی غنی رہے (محتاج نہ ہو)۔ اور صدقہ پہلے اسے دوجس کی کفالت کے تم ذمہ دار ہو۔‘‘ [بخاری کتاب الزکاۃ باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنی، رقم: ۱۴۲۶]

دنیاوی امور میں منافست

     اور اگر مسابقت و منافست دینی امور کے بجائے دنیوی امور سے متعلق ہو تو یہ حسد کا پیش خیمہ ہوگا اور اس کی وجہ سے آدمی حسد کے مرض میں مبتلا ہو جائے گا اور پھر بغض و حسد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگا جو ہلاکت و تباہی کا باعث بنے گا، اس لیے دنیوی امور میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کر رکھا ہے اسی پر مطمئن و قانع ہو کر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد رکھتے ہوئے حصولِ رزق کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’إِذَا فُتِحَتْ عَلَيْكُمْ فَارِسُ وَالرُّومُ، أَيُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟  قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ نَقُولُ كَمَا أَمَرَنَا اللَّهُ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ، تَتَنَافَسُونَ،ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ، ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ، ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، ثُمَّ تَنْطَلِقُونَ فِي مَسَاكِينِ الْمُهَاجِرِينَ، فَتَجْعَلُونَ بَعْضَهُمْ عَلَى رِقَابِ بَعْضٍ‘‘

     ترجمہ: ’’جب تم پر فارس اور روم کے خزانے کھول دیئے جائیں گے تو تم کس طرح کی قوم ہوگے؟ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم اس کے برعکس ہوگے یا اسی طرح ہوگے؟ تم لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے پھر ایک دوسرے سے حسد کروگے پھر ایک دوسرے سے منہ موڑوگے پھر ایک دوسرے سے بغض رکھوگے۔ یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔ پھر مسکین مہاجرین کے پاس جاؤگے پھر ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں کی گردنوں پر مسلط کروگے۔‘‘ [مسلم کتاب الزھد والرقائق رقم: ۲۶۲۹، ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ المال، رقم: ۳۹۹۶]

      اسی طرح سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

     ’’فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ‘‘

     ترجمہ: ’’پس اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے اوپر اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کے دروازے اس طرح کھول دئیے جائیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کھول دئیے گئے تھے، پھر تم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگوگے جیسا وہ لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے تھے اور پھر اسی طرح ہلاک و برباد کر دئیے جاؤ گے جس طرح وہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے۔ [بخاری کتاب الجزیۃ باب الجزیۃ والموادعۃ مع اھل الحرب، رقم: ۳۱۱۵، مسلم کتاب الزھد والرقائق، رقم: ۲۹۶۱]

حسد کی ابتدا

     بہرحال حسد ایک شیطانی صفت ہے اور سب سے پہلے ابلیس لعین ہی اس بری عادت کا شکار ہوا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو جن فضائل اور خوبیوں سے نوازا تھا ابلیس نے اس پر حسد کیا اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے ہر طرح سے ان پر حاسدانہ کاروائی کی اور انھیں بہکانے پھسلانے کی کوشش کی۔ دنیا میں سب سے پہلا گناہ بھی اسی حسد ہی کی وجہ سے ہوا، سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل نے قابیل کو اپنی حسد کی بنا پر قتل جیسا گناہِ عظیم کیا، قابیل کو ہابیل سے اس بنا پر حسد و جلن پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تو قابیل کی قربانی قبول فرمالی اور میری قربانی قبول نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کے اس اولین حاسدانہ قتل کی تفصیل مندرجہ ذیل آیات میں بیان فرمائی ہے:

     ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ۞ لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ۞ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ۞ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۞﴾

     ترجمہ: ’’اور آپ ان کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ بلا کم و کاست حق کے ساتھ سنادیں جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہیں قبول کی گئی، اس نے کہا: میں تجھے قتل کر دوں گا، اس نے کہا: بے شک اللہ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اگر تو قتل کرنے کے لیے میری طرف ہاتھ پھیلائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے سر لے لےاور جہنمیوں میں شامل ہو جا، اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا اور اس نے اسے قتل کر دیا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔‘‘ [المائدہ: ۲۷ تا ۳۰]

     حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی حسد کرتے ہوئے ان پر اور ان کے گھر والوں پر ظلم جیسا گناہ کیا تھا، اور آخری نبی نبینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر جو جادو کیا گیا اس کا باعث بھی یہی حسد تھا، کفار و مشرکین اپنے باطنی حسد ہی کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کو ہمیشہ مٹانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔

اہل کتاب اور کفار و منافقین کا حسد

     مدینہ کے یہود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی بنیاد پر حسد کرتے تھے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے فضل و کرم اور نبوت و رسالت سے سرفراز کیا تھا، انھیں اس بات کا رنج تھا کہ آخری نبی بنواسرائیل میں سے کیوں نہیں ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

     ﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا ۞﴾

     ترجمہ: ’’یا یہ لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے۔ پس ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انھیں بڑی سلطنت بھی بخشی تھی۔‘‘ [النساء: ۵۴]

     اہل کتاب حق کو جاننے پہچاننے کے باوجود اپنے بغض و کینہ اور حسد کی بنا پر مومنین کو کفر کی طرف پھیرنا چاہتے تھے۔ یہ محض ان کے جی کا حسد تھا ورنہ ان لوگوں پر حق واضح تھا اور اپنے اسی حسد ہی کی بنا پروہ لوگوں کو بہکاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

     ﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۞﴾

     ترجمہ: ’’ان اہل کتاب کے اکثر لوگ حق واضح ہو جانے کے باوجود محض اپنے نفس کے حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں مومن سے کافر بنادیں۔ پس تم لوگ عفو و درگذر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ [البقرۃ: ۱۰۹]

     یہ یہود سلام اور آمین کی وجہ سے بھی مسلمانوں سے حسد کرتے تھے کیوں کہ انھیں یہ فضیلت حاصل نہیں تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ‘‘

     ترجمہ: ’’یہود تم سے کسی چیز پر اُتنا حسد نہیں کرتے جتنا سلام کرنے اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔‘‘ [ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب الجھر بآمین، رقم: ۸۵۶، صححہ الالبانی، السراج المنیر ۲/۸۹۹]

فرد و معاشرہ پر حسد کے اثراتِ بد

     حسد ایک ایسی دلی و نفسیاتی بیماری ہے جس کے خطرناک آثار و عواقب خود حاسد اور معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔ لوگوں کی نگاہوں میں حاسد کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں رہتی ہے، لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں آپسی عداوت و دشمنی بڑھتی ہے نیز غیبت، چغل خوری اور ظلم و سرکشی کا گراف بڑھتا ہے، اسی حسد ہی کی وجہ سے معاشرے میں قتل و خوں ریزی اور چوری و ڈاکہ زنی جیسے حادثات پیش آتے ہیں۔ چناں چہ افرادِ معاشرہ اگر حسد سے دور رہیں اور ان کے دلوں میں کسی کے خلاف حسد نہ پایا جائے تو معاشرہ میں بدامنی نہیں ہوگی، کسی طرح کا کوئی خلفشار نہیں ہوگا، لوگ امن و چین اور خیر و بھلائی میں ہوں گے، اور لوگوں پر خیر و برکت کا نزول ہوگا۔ سیدنا ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا لمْ يَتَحَاسَدُوا‘‘ ترجمہ: ’’لوگ برابر خیر و بھلائی میں رہیں گے جب تک کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرنے لگیں۔‘‘ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، رقم: ۳۳۸۶، اسنادہ جید]

نعمتوں کو حاسد سے بچائیں

     یہی وجہ ہے کہ نعمتوں کو حاسدین کے نگاہِ بد سے بچانے کی بات کہی گئی ہے ، تاکہ منعِم حاسد کی بدنگاہی کا شکار نہ ہو اور معاشرے میں کسی طرح کی بدامنی نہ پیدا ہوکیوں کہ حاسد کے حسد کی وجہ سے آپسی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور آپس میں میں عداوت و دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ’’اِسْتَعِیْنُوْا عَلیٰ اِنْجَاحِ حَوَائَجِکُمْ بِالْکِتْمَانِ، فَإِنَّ کُلَّ ذِیْ نِعْمَةٍ مَحْسُوْدٌ‘‘

      ترجمہ: ’’اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے رازداری سے کام لو، کیوں کہ ہر منعِم، جس پر نعمت کی گئی ہے، سے حسد کیا جاتا ہے۔‘‘ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، رقم: ۱۴۵۳، السراج المنیر ۲/۱۰۷۰]

حسد دین کا صفایا کرنے والی ہے

     حسد ایک ایسی بیماری ہے جو ابلیس لعین کا شیوہ، یہود و نصاریٰ کی خصلت اور کفار و مشرکین و منافقین کی عادت ہے جو کہ انتہائی مذموم و قبیح اور رذالت و ذلالت سے پُر انتہائی گری ہوئی خصلت و عادت ہے، جس کسی کے اندر یہ عادت پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی و قانع نہیں ہوتا ہے، ہر طرح کی برائی اس کے اندر جنم لے لیتی ہے، غیبت، چغلی، کینہ کپٹ، بدظنی اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا یہ اس کے لیے عام بات ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ حاسد قتل جیسے گناہ کا بھی مرتکب ہو جاتا ہے، یعنی کہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے دین و ایمان کا صفایا کر دیتی ہے، اور آپسی الفت و محبت کو نفرت و دشمنی میں بدل دیتی ہے۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمُ ؛ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ، هِيَ الْحَالِقَةُ، لَا أَقُولُ: تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا يُثَبِّتُ ذَلِكَ لَكُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ‘‘

     ترجمہ: ’’تمھارے اندر پہلی امتوں کا ایک مرض در آیا ہے، اور وہ حسد اور بغض کی بیماری ہے۔ یہ مونڈنے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سر کا بال مونڈنے والی ہے، لیکن یہ دین کو مونڈنے والی ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمھیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمھارے درمیان محبت پیدا ہوجائے؟ آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘ [ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، باب، رقم: ۲۵۱۰، مسند احمد، رقم: ۱۴۱۲،شیخ زبیر علی زئی نے اس روایت کی تضعیف کی ہے [انوارالصحیفۃ، ص: ۲۶۰] جب کہ شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ السراج المنیر ۲/۹۸۵]

     نیز ایک ضعیف الاسناد حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ:

’’إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ؛ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ‘‘

     ترجمہ: ’’خبردار! تم لوگ حسد سے بچو اس لیے کہ بیشک حسد نیکیوں کو ایسے کھا لیتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے۔‘‘ [سنن أبي داود أول کتاب الأدب باب فی الحسد، رقم: ۴۹۰۳، واللفظ لہ، سنن ابن ماجه کتاب الزھد باب الحسد، رقم: ۴۲۱۰]

حسد سے پاک دل کی اہمیت

     حسد و کینہ اور بغض و نفرت سے پاک دل انتہائی پاکیزہ ہوتا ہے، اور ان صفات کا حامل شخص لالچی و تنگ دل نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسا آدمی اللہ کی تقدیر سے راضی و خوش ہوتا ہے، لوگوں کی نعمتوں کو دیکھ کر اسے جلن اور کڑھن نہیں محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے اور حسد سے پاک دل کی تعریف فرمائی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’لَا تَحَاسَدُوا، وَلَاتَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَاتَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ؛ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا – وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ؛ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ‘‘

     ترجمہ: ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤیعنی قطع تعلقی نہ کرو، تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے، اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو ذلیل کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے (اور آپ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا) آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو حرام ہے۔‘‘ [مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم ظلم المسلم، رقم: ۲۵۶۵]

     سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا: لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوقِ اللِّسَانِ‘‘ ’’ہر مخموم القلب اور سچی زبان والا‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ’’صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟‘‘ ’’زبان کے سچے کو تو ہم جانتے ہیں مگر مخموم القلب کیا ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لَا إِثْمَ فِيهِ، وَلَا بَغْيَ، وَلَا غِلَّ، وَلَا حَسَدَ‘‘ ’’وہ پرہیز گار صاف ستھرا (دل)، جس میں کوئی گناہ نہ ہو،  کوئی ظلم و زیادتی نہ ہو، کوئی خیانت نہ ہو اور نہ کسی طرح کا حسد ہو۔‘‘ [ابن ماجہ کتاب الزہد باب الورع والتقویٰ، رقم: ۴۲۱۶، صححہ الالبانی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : ۵۷۰]

مومن کامل حاسد نہیں ہوتا

     ہمیں اپنے دل کا جائزہ لینا چاہیئے کہ کہیں ہم حسد تو نہیں کر رہے ہیں، اگر ہمارے دلوں میں کسی طرح کا حسد پایا جا رہا ہے تو گویا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے اور ہم خالص مومن نہیں ہیں کیوں کہ مومن کامل حاسد نہیں ہوتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’لَا يَجْتَمِعَانِ فِي النَّارِ مُسْلِمٌ قَتَلَ كَافِرًا، ثُمَّ سَدَّدَ وَقَارَبَ، وَلَا يَجْتَمِعَانِ فِي جَوْفِ مُؤْمِنٍ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفَيْحُ جَهَنَّمَ، وَلَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ الْإِيمَانُ وَالْحَسَدُ‘‘

     ترجمہ: ’’جس کسی مسلمان نے کسی کافر کو قتل کردیا اور پھر وہ راہِ صواب پر قائم رہے اور میانہ روی اختیار کرے تو وہ دونوں یعنی مومن قاتل اور کافر مقتول جہنم میں اکٹھا نہیں ہو سکتے، اور مومن کے پیٹ میں اللہ کے راستے کا گرد و غبار اور جہنم کی حرارت اکٹھا نہیں ہو سکتی، اور کسی بندے کے دل میں ایمان و حسد جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘ [نسائی کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علیٰ قدمہٖ، رقم: ۳۱۰۹، صححہ الالبانی السراج المنیر ۱/۵۵۰]

دلوں کو حسد سے پاک رکھنے والوں کی تعریف

     اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جہاں بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان خوبیوں کی وجہ سے ان کی تعریف فرمائی ہے، وہیں مدینہ کے انصاریوں کی ایک خوبی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے سینوں میں کسی کی نعمت پر کوئی حسد نہیں رکھتے ہیں اور اللہ رب العزت نے اس خوبی کی تعریف فرمائی ہے اور اس طرح کی خوبیوں سے متصف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو فلاح یاب قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

     ﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۞﴾ [الحشر: ۹]

     ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ان سے پہلے ہی اس گھر (یعنی دارالہجرت مدینہ) میں اور ایمان میں جگہ بنالی، یہ لوگ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی مہاجرین کو دے دیا جائے اس سے وہ اپنے سینوں میں کوئی حاجت (تنگی وحسد) محسوس نہیں کرتے، اور انھیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں گرچہ کہ وہ اس کے سخت ضرورت مند ہوں۔ اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور لالچ سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

     یہاں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمۡ حَاجَةٗ﴾ ’’وہ اپنے سینوں میں کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے‘‘ کا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے سینوں میں حسد نہیں رکھتے۔ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مہاجرین صحابہ کو جو کچھ عنایت فرماتے تھے یا مہاجرین کی جو قدر و منزلت تھی اس پر مدینہ کے انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم حسد نہیں کرتے تھے۔ علامہ عبدالرحمٰن سعدی رحمہ اللہ آیتِ کریمہ کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

     ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا ہے اور ان کو جن فضائل و مناقب سے مختص کیا ہے، جن کے وہ اہل ہیں، وہ ان پر حسد نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ ان کے سینے کی سلامتی، ان میں بغض، کینہ اور حسد کے عدمِ وجود پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ آیتِ کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہےکہ مہاجرین، انصار سے افضل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو مقدم رکھا ہے، نیز آگاہ فرمایا کہ مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا گیا انصار اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد نہیں محسوس کرتے۔ یہ آیتِ کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو وہ فضائل عطا کیے جو انصار اور دیگر لوگوں کو عطا نہیں کیے کیوں کہ انھوں نے نصرتِ دین اور ہجرت کو جمع کیا۔‘‘ [تفسیر سعدی، ص: ۲۷۳۷]

     اسی سلسلے کا ایک واقعہ بھی حدیث میں بیان کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تئیں اپنے دلوں حسد و کینہ نہ رکھنا بہت بڑی کامیابی کی دلیل ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔‘‘ پس ایک انصاری آدمی آئے اور وضو کی وجہ سے ان کی داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے لٹکائے ہوئے تھے۔ دوسرے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی آدمی اسی پہلے والی کیفیت کے ساتھ آئے۔پھر  جب تیسرا دن آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی شخص اپنی سابقہ حالت میں آئے۔

     جب نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ وسلم (گھر جانے کے لیے) کھڑے ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اس آدمی کے پیچھے چل پڑے اور ان سے کہا:

     میرا میرے والد سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں نے ان کے پاس تین دن نہ جانے کی قسم اٹھا لی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر آپ مجھے اپنے یہاں رہنے کی اجازت دے دیں تو یہ مدت پوری ہو جائے۔انھوں نے کہا: جی ہاں، تشریف لائیے۔

     سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے بیان کیا کہ انھوں نے اس آدمی کے ساتھ تین راتیں گزاریں، انھوں نے دیکھا کہ وہ رات کو بالکل قیام نہیں کرتے تھے البتہ جب بھی وہ جاگتے اور اپنے بستر پر پہلو بدلتے تو وہ اللہ کا ذکر کرتے اور تکبیر پڑھتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے اٹھتے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس کے علاوہ میں نے ان سے خیر و بھلائی کی بات سنی، پھر جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میں ان کے عمل کو معمولی سمجھوں میں نے ان سے کہا:

     اے اللہ کے بندے! میرے اور میرے والد کے بیچ کوئی غصے والی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی قطعِ تعلقی ہوئی تھی لیکن تین مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’يَطْلُعُ عَلَيْكُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘ ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔‘‘ اور پھر تینوں مرتبہ آپ ہی نمودار ہوئے اس لیے میری خواہش ہوئی کہ میں آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کا عمل دیکھوں اور پھر اس کی پیروی کروں۔ لیکن میں نے آپ کو بہت زیادہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اس لیے آپ ہی بتائیے کہ کس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے بارے میں اس طرح کی بات فرمائی؟ انھوں نے جواباً کہا: میں وہی کچھ کرتا ہوں جو آپ نے دیکھا۔ کہتے ہیں: جب میں پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو انھوں نے مجھے بلایا اور کہا:

     ’’مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ، غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا، وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ‘‘ ’’میرا عمل تو وہی ہے جو آپ نے دیکھا، اس کے علاوہ یہ بات ہے کہ میرے نفس میں کسی مسلمان کے خلاف کوئی دھوکہ نہیں ہے اور جس کسی مسلمان کو اللہ نے جو خیر و بھلائی عطا فرمائی ہے میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا۔‘‘

     سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بس یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو  اس مقام و مرتبہ پر فائز کر دیا ہے، اور یہی وہ عمل ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ [مسند احمد، رقم: ۱۲۶۹۷، شیخ البانی کہتے ہیں: ’’وإسناده صحيح على شرط الشيخين؛ كما قال المنذري، ورواه غيرهم كما في ’’الترغيب‘‘ (٤/١٣)‘‘ دیکھیے: سلسلة الأحاديث الضعيفة ۱/۲۶]

حسد ترک کرنے کے وسائل

      جب حسددین و ایمان کا صفایا کرنے والی انتہائی مذموم صفت و عادت ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم حسد جیسی بیماری کو نہ پالیں۔ اگر ہم اس مخرب اخلاق مذموم بیماری کے شکار ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور روئیں گڑگڑائیں توبہ و استغفار کریں اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اس بیماری سے نجات پانے کا سوال کریں۔ سطور ذیل میں چند وسائل ذکر کیے جا رہے ہیں جنھیں اپنا کر ہم حسد سے نجات حاصل کر سکتے ہیں إن شاء الله:

(1) اپنا رشتہ اللہ سے جوڑیں اسی سے اپنا رشتہ و تعلق اُستوار کریں، اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالیں۔ اور  لوگوں سے الفت و محبت یا بغض و نفرت صرف اور صرف اللہ کے لیے رکھیں، نعمتوں کا سوال اللہ سے کریں کسی اور سے امید نہ رکھیں نہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

(2) جو رزق اور مال و دولت اللہ نے عطا کر رکھی ہے اس پر قناعت کرتے ہوئے اللہ کا شکر بجا لائیں، دنیوی ساز و سامان اور اس کی کشادگیوں سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ آپ کے حق میں کر دیا ہے اس پر اپنی رضا و خوشی کا اظہار کریں، اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر پر پختہ یقین و اعتماد رکھیں اور حصولِ رزق کے لیے غیر شرعی راہوں کو اپنانے کے بجائے اس بات پر مکمل یقین و بھروسہ رکھیں کہ اللہ نے جتنی روزی آپ کی قسمت میں لکھ رکھی ہے وہ آپ کو مل کر رہے گی۔ اللہ نے فرمایا: ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ’’ہم نے ان کی معیشت کو دنیوی زندگی میں ان کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔‘‘ [الزخرف: ۳۲]

(3) اعمالِ صالحہ کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور دینی معاملات میں منافست و مسابقت اختیار کریں یعنی اللہ کو راضی و خوش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں البتہ دنیوی امور و معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش اور مسابقت و مسارعت کی روش سے اجتناب و پرہیز کریں۔

(4) کوئی محبوب و پسندیدہ چیز دیکھیں تو اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار دلی فرحت و مسرت کے ساتھ کرتے ہوئے ما شاء الله، سبحان الله، لا حول ولا قوة إلا بالله اور بارك الله وغیرہ جیسے کلماتِ خیر کہنے کے عادی و خوگر بنیں۔ کسی مسلمان بھائی کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھیں تو پورے انشراحِ صدر کے ساتھ اس کی سیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دعائیہ کلمات سے نوازیں نیز کسی کی فلاح و کامیابی اور خود کی ناکامی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا سیکھیں۔

(5) حسد کے عبرت ناک انجام اور خطرناک پہلو پر دھیان دیتے ہوئے سوچیں کہ اگر ہم حسد کریں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا۔ اپنے دل کی قساوت و تنگی پر توجہ دیں کہ دوسروں کے لیے اس میں کس قدر نفرت بھری ہوئی ہے یہ صرف آپ کی تکلیف کا باعث ہے۔ معاشرے میں اپنی قدر و منزلت اور عزت و حیثیت کا اندازہ لگائیں کہ حسد کی وجہ سے آپ کو کن نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اُخروی انجام کے بارے میں سوچیں کہ حسد تو ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال کا بھی صفایا کر دے گا پھر ہمارا انجام کیا ہوگا؟ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کہتے ہیں:

     ’’حسد کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ حسد کا نقصان دین و دنیا میں حسد کرنے والے ہی کو ہے، محسود کو کوئی نقصان نہیں، نہ دنیا میں نہ دین میں، بلکہ اسے دین و دنیا میں حاسد کے حسد سے فائدہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ دین میں فائدہ یہ ہے کہ وہ مظلوم ہے، خصوصاً جب حاسد قول یا عمل سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، تو قیامت کو اسے ظلم کا بدلہ ملے گا اور ظالم حاسد نیکیوں سے مفلس رہ جائے گا اور دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے دشمن غم و فکر اور عذاب میں مبتلا رہیں اور حاسد جس عذاب اور مصیبت میں گرفتار ہے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے؟ وہ ہر وقت حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور اطمینان اور دلی سکون سے محروم ہوتا ہے۔‘‘ [تفسیر القرآن الکریم جلد چہارم ص: ۱۰۲۶]

(6) بروں کی صحبت و ہمنشینی ترک کر کے نیکوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں اور ان کی مجلسوں میں شریک ہوں۔ بدگمانی سے بچیں اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگیں بلکہ خود نیکیوں کے حریص و خوگر بنیں۔

حاسدین کے شر کو دفع کرنے والے اسباب

     یہ تو حسد جیسی مذموم صفت کو ترک کرنے اور اس سے دوری اختیار کرنے کے وسائل ہوئے، آئیے ان عوامل و اسباب کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں جن کے ذریعہ ہم حاسدین کے شر و حسد کو ہم دفع کر سکتے ہیں۔

     حاسدیں کے حسد اور ان کے نظرِ بد سے بچاؤ کا سب سے عمدہ ذریعہ و علاج یہ ہے کہ حاسدین کے شر و حسد اور نظرِ بد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے، اور اس کے لیے تعوذ کے وِرد کے ساتھ ساتھ معوذتین، سورۂ فاتحہ اور آیۃ الکرسی وغیرہ کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اور اگر کوئی کسی کی نظرِ بد کا شکار ہو جائے تو اس پر مذکورہ قرآنی آیات اور دیگر نبوی دعائیں پڑھ کر دم کرنی چاہیے، بطور خاص درج ذیل دعا پڑھ کر اس کے اوپر دم کریں:

     ’’بِاسْمِ اللَّهِ يُبْرِيكَ وَمِنْ كُلِّ دَاءٍ يَشْفِيكَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ كُلِّ ذِي عَيْنٍ‘‘ ترجمہ: ’’اللہ کے نام سے وہ آپ کو بچائے، ہر بیماری سے شفا دے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر نظر لگانے والی آنکھ کے شر سے (آپ کو محفوظ رکھے)۔‘‘ [مسلم کتاب السلام باب الطب والمرض والرقیٰ، رقم: ۲۱۸۵]

  • شرعی دم کے علاوہ نظر بد کا ایک علاج یہ ہے کہ نظر بد لگانے والے کو وضو کا حکم دیا جائے اور اس کے وضو کے پانی سے نظر زدہ آدمی غسل کرلے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

’’كَانَ يُؤْمَرُ الْعَائِنُ فَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ الْمَعِينُ‘‘

     ترجمہ: ’’نظر بد لگانے والے آدمی کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور پھر نظر زدہ شخص اس سے غسل کرتا۔‘‘ [ابوداؤد کتاب الطب باب ما جاء فی العین، رقم: ۳۸۸۰، صححہ الالبانی الصحیحۃ: ۲۵۲۲، و ضعفہ الحافظ الزبیر]

  • نظر بد کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر بد لگانے والے سے غسل کروا کر پانی ایک برتن میں جمع کیا جائے پھر وہی پانی نظر زدہ شخص کے سر اور پشت پر ڈال دیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے لیے سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو غسل کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے ان کے لیے غسل کیا اور پھر پیچھے کی طرف سے ان کے سر اور پشت پر وہ پانی ڈالا گیا۔ [مسند احمد رقم: ۱۵۹۸۰،حدیث صحیح] اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

     ’’الْعَيْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا‘‘

     ترجمہ: ’’نظر کا لگنا برحق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے غسل کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کرو۔‘‘ [مسلم کتاب السلام باب الطب والمرض والرقی، رقم: ۲۱۸۸، ترمذی أبواب الطب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب ما جاء أن العین حق والغسل لھا، رقم: ۲۰۶۲]

     علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے حاسد کے شر کو دفع کرنے کے لیے درج ذیل دس اسباب ذکر کئے ہیں جنھیں اپنا کر ہم حاسدین  کے شر کو دفع کر سکتے ہیں:

(1) حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں۔

(2) اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے اس کے اوامر و نواہی کا مکمل اہتمام کریں۔

(3) حاسد کے حسد پر صبر کریں اور اسے ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کا خیال تک ذہن میں نہ لائیں کیوں کہ صبر اور توکل علی اللہ کا ثمرہ ہمیشہ دشمن پر فتح اور کامیابی کی صورت میں ہوتا ہے۔

(4) اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں کیوں کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ اسے تمام قسم کی مہمات سے بے فکر کر دیتا ہے۔

(5) اپنے دل کو حسد سے پاک رکھیں اور اپنے دل کو حاسد کے ساتھ مشغول رکھنے اور اس کے بارے میں کچھ سوچنے سے بچائیں اور اگر اس قسم کا کوئی خطرہ دل میں پیدا ہو تو اسے مٹانے کی فکر میں لگ جائیں اور اس کی طرف توجہ تک نہ دیں۔ یہ حاسد کے شر کو دفع کرنے کا زبردست علاج ہے۔

(6) اپنی توجہ کو نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے پر مرکوز رکھیں اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اخلاص سے اس حد تک معمور کر دیں کہ جہاں پر خواطر نفسانی اور وساوس شیطانی کا گزر ہوا کرتا تھا وہاں پر اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے لیے اخلاص اور اس کی خوشنودی کی طلب لبالب بھری ہو۔

(7) اپنی گناہوں سے توبہ کریں کیوں کہ دشمن کے مسلط ہونے کا سب سے بڑا سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔

(8) ممکن حد تک صدقہ دیں اور نیکی کریں کیوں کہ بلا، مصیبت، نظر بد اور حسد کے شر کو دفع کرنے میں اس کا اثر حیرت انگیز ہوتا ہے۔ ہر دور میں لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور یہ بات اب مسلم ہو چکی ہے کہ صدقہ دینے والے اور نیکی کرنے والے اشخاص نظر بد اور حسد کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اور اگر ان کو اس سے کوئی مصیبت پہنچ بھی جائے تو اس کی عاقبت محمود ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی تائید ان کے شاملِ حال رہتی ہے۔

(9) حاسد کی آتشِ حسد کے شراروں کو اس کے ساتھ احسان کرکے بجھائیں اور جس قدر وہ ظلم و زیادتی کرے اتنا ہی اس کے ساتھ زیادہ احسان کریں اور اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ہر طرح سے اس کی اعانت کریں، مگر بہت کم خوش نصیب اور سعادت مند لوگوں کو ایسا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

(10) تمام ظاہری اسباب کو نظر انداز کرکے مسبب الاسباب خالق حقیقی کو نفع و ضرر کا مالک سمجھیں اور اس بات کا یقیں رکھیں کہ تمام علل اور اسباب خالق تعالیٰ کے ارادے اور اس کی قدرت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس کی اِذن کے بغیر کچھ بھی ضرر یا نفع نہیں پہنچا سکتے یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے توحید کو خالص کریں۔ حاسد کے حسد کو دفع کرنے کا یہ سبب باقی تمام اسباب کی جامع ہے اور تمام اسباب کا دار و مدار اسی دسویں سبب پر ہے۔ [دیکھیے: تفسیر معوذتین ص: ۱۴۹، اور اس کے بعد کے صفحات اختصار اور معمولی تبدیلی کے ساتھ]

     مذکورہ بالا وسائل و اسباب کو بروئے کار لا کر حاسدین اور نظر بد لگانے والوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اور ان کے شر و فتنہ کو دفع کرکے ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اللہ ہمیں مذکورہ اسباب کو اپنانے کی توفیق دے اور جملہ شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔