آتش ِ باغ ِ عدن

ادریس آزاد

جُہل کے تخم سے نکلا ہوا

اُمّید ِ سیہ فام کا پیڑ

شاخ در شاخ پروتا ہوا

نفرت کے ثمر

اپنی تابانی کو آپہنچا ہے

زہر پی پی کے جواں ہوتے ہوئے

نِیم کے پودوں کا غضب

شہر پہ قہر ِ قیامت کی طرح اُترا ہے

شُتر آوارہ ہوئے پھرتے ہیں اور

دستۂ شاہ کے تیور میں بھی تلوار نظر آتی ہیں

گھڑسواروں کے تکبّر سے

زمیں ہلتی ہے تو

دوگھڑی کو یہ خیال آتاہے

یہ صدا وہ تو نہیں

وہ جو کہی جاتی ہےکہ

"آئے گی”

ایک دن آئے گی اور

کذب و رعونت کے پہاڑ

اِن فضاؤں میں بکھر جائیں گے جب

روئی کے گالوں کی طرح

یہ وہ چنگھاڑ نہ ہو
وہ جسے یوم ِقیامت بھی کہا جاتاہے

یہ مناظر

یہ خس و خاک سے الجھے ہوئے

شعلوں کے نقیب

اتنا ساماں تو کریں

کون سی روشنی منزل کی طرف جاتی ہے؟

یہ صداکار، یہ آذاں، یہ نمازی سارے

مسجدوں کو بھی تو ڈھاسکتےہیں

کانچ کے بُت ہیں تو پھر

یہ کڑی دُھوپ میں آسکتے ہیں

یہ ہمیں کچھ تو بتا سکتے ہیں

یہ کسی کے ہی سہی خواب بچا سکتے ہیں

مشعلیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں اندھیروں کو کہیں

رستے آوارہ ہوئے جاتے ہیں

سمت در سمت گلی بھاگ رہی ہے

کسی بدکار طوائف کی طرح

وہ جو دلّال ہیں خاموش رہینگے کیسے؟

وہ تو خوش ہیں کہ محبت کو زوال آجائے

ان کو اتنا بھی غنیمت ہے کہ مال آجائے

چور کو چور پکڑنے کا خیال آجائے

بے سُروساز کھڑا ہوں کسی مُردے کی طرح

سوچتا ہوں کہ

یہی وقت ہے قربانی کا

سوچتاہوں میں یہاں

قتل بھی ہونے کے لیے آیا تھا

قتل ہوجاؤں تو بچ سکتاہوں

اس سے پہلے کہ

اس ہنگامے میں

خوابوں کی وہ گھٹڑی جو

یہاں لایا تھا

کُھل کے بکھرے

تو کہانی ہی بکھر جائے گی

آخری، غم کی نشانی ہی بکھر جائے گی

آخری، غم کی نشانی یہ جہان ِ تگ وتاز

اب بھلا اور سنبھالونگا اِسے؟

سانس دو سانس کی بس دیر ہے

اور پھر تو اِسے

آتش ِ باغ ِ عدن ہوں میں جلاڈالونگا

تبصرے بند ہیں۔