آخری عشرہ: جہنم سے آزادی کا ذریعہ!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 رمضا ن المبارک اللہ تعالی سے مانگنے اور لینے کا مہینہ ہے ،اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے کا مہینہ ہے،زندگی کے بہت سارے مسائل کو حل کروانے اور آخرت کی نجات وکامیابی کوپانے کے لئے التجا کرنے کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالی اس ماہ میں  جہاں  انسانوں  پر رحمتوں  کا نزول فرماتا ہے وہیں اس میں  انسانوں  بخشش ومغفرت کا پروانہ بھی عطا کرتا ہے،اور جہنم سے بچنے اور آگ سے محفوظ رہنے کا انتظام بھی فرماتا ہے ،اور جہنم سے آزادی کے مژدے بھی انسانوں  کو سناتاہے۔خوش نصیب اور سعادت مند ہے وہ مومن جو رمضان کی برکتوں  سے مالامال ہوجائے،اس کا دامن رحمتوں  سے بھرجائے ،مغفرت کا پروانہ اسے نصیب ہوجائے اور نارِ جہنم سے خلاصی وآزادی کا پیغام حاصل ہوجائے ۔

 اب جب کہ رمضان المبارک کا مہینہ بہت جلد ہم سے رخصت ہونے والا ہے اور اپنی تمام تر برکتوں  کے ساتھ واپس ہونے والا ہے،ایسے میں  ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے اس ماہ کے باقی چند دنوں  میں  ہم جہاں  دوسری بہت ساری چیزوں  کی دعاؤں  کی فکرکریں  وہیں  کثرت سے جہنم اور اس کی ہولناکیوں  سے حفاظت کے لئے پروردگارِ عالم سے دعاؤں  کا خصوصی اہتمام کریں  ۔اگر چہ لوگ شروع رمضان ہی سے جہاں  بہت ساری چیزوں  کو مانگتے ہیں  اور اس کے لئے دعاکرتے ہیں  وہیں  جہنم سے آزادی اور اس سے حفاظت کے لئے بھی دعاکا التزام کرتے ہیں ۔رمضان کے تین عشروں  کی تقسیم کے بارے میں  جو حدیث منقول میں  ہے اس میں  آخری عشرہ کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:واٰخرہ عتق من النار۔( صحیح ابن خزیمہ:1785) آپﷺ نے فرمایا کہ :اوراس کا آخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی کاہے ۔نبی کریم ﷺ سے اس حدیث میں  یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :واستکثروافیہ من اربع خصال:فاما خصلتین ترضون بھما ربکم ،وخصلتین لاغنی بکم عنھما ،فاما الخصلتان اللتان ترضون بھما ربکم :فشھادۃ ان لاالہ الااللہ ، وتستغفرونہ،واما اللتان لاغنی بکم عنھا،فستالون اللہ الجنۃ ،وتعوذون بہ من النار۔ ( صحیح ابن خزیمہ:1785) اس مہینہ میں  چار چیزوں  کی کثرت رکھا کرو جن میں  دو چیزیں  ایسی ہیں  جس کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو ،اور دو چیزیں  ایسی ہیں  جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں  ہوسکتے ،بہرحال وہ دوچیزیں  سے رب کی رضا حاصل ہوگی وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے ،اور دوسری دوچیزیں  جس سے تم بے نیاز نہیں  ہوسکتے وہ یہ ہے کہ تم اللہ سے جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔۔۔آئیے اس ذیل میں  ہم ایک نظر بطورِ تذکیر وعبرت کے لئے اس پر بھی ڈالتے ہیں  کہ نارِ جہنم کی حقیقت کیا ہے اور اس سے پناہ طلب کرنا کیوں  ضرور ی ہے اور اس کا طریقہ ٔ کار کیا ہے؟

رمضان جہنم سے آزادی کا مہینہ:

 جہنم سے پناہ طلب کرنا ہماری ایک بڑی اور اہم ذمہ داری ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں  پر اس درجہ مہربان ہے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں  اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں  ،تاکہ بندے پورے شوق واشتیاق میں  جنت کی طلب میں  لگ جائیں  اور جہنم سے بچنے کی فکر پیداہوجائے۔آپ ﷺ نے فرمایا:اذادخل شھر رمضان فتحت ابواب السماء ،وغلقت ابواب جھنم ،وسلسلت الشیاطین ۔(بخاری:1775)کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں  اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں  اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں  آپ ﷺ نے فرمایا:اذادخل رمضان فتحت ابواب الجنان کلھا فلم یغلق منھا باب الی اخر الشھروغلقت ابواب النار فلم یفتح منھا باب الی اخر الشھر۔( طبرانی:8357)کہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں  ،اور اس کا کوئی دروازہ اخیر مہینے تک بند نہیں  کیاجاتا ،اور جہنم کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں  ،اور اس کا کوئی دروزاہ اخیر مہینے تک نہیں  کھولاجاتا۔ایک حدیث میں  آپ ﷺنے فرمایا: ان للہ عتقاء فی کل یوم ولیلۃ۔(مسنداحمد:7268)کہ اللہ کے لئے رمضان کے ہر دن اور رات میں  ( بے شمار لوگ جہنم سے ) آزاد کئے جاتے ہیں ۔یہ احادیث بتارہی ہیں  کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ جہنم سے آزادی کا نظام شروع ہوجاتا ہے ،اللہ تعالی رمضان میں  جہنم کو بند کردیتے ہیں  اور بندوں  کو جہنم سے خلاصی نصیب ہوتی ہے۔

 قرآن کریم میں جہنم کی سختیوں  ،ہولناکیوں ،سزاؤں  ،غذاؤں اور مختلف قسم کے عذابوں  کو بہت سے مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور احادیث رسول میں  بھی اس کی خطرناکی کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن کریم میں  جابجا جہنم کی بہت ساری چیزوں  کا ذکر کیا اور انسانوں  کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائے اور اپنے گھروالوں  کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی پوری فکر وکوشش کرے ۔

جہنم کی آگ کی خطرناکی:

  دنیا میں  انسان معمولی گرمی اور اس کی شدت کو برداشت نہیں  کرسکتا ،تو پھر جہنم کی آگ کو اور اس کی شدت کو کیسے برادشت کرپائے گا۔جہنم کی آگ کی ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:دوزخ کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سرخ ہوگئی ،پھر ایک سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سفید ہوگئی ،پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سیاہ ہوگئی ۔چناں چہ اب دوزخ سیاہ اندھیرے والی ہے۔( ترمذی:2533)ایک حدیث میں  آپ ﷺ نے فرمایا:تمہاری یہ آگ جس کو تم جلاتے ہو دوزخ کی آگ کا سترواں  حصہ ہے،صحابہ ؓ نے عرض کیا ( جلانے کو تو یہی بہت ہے )آپ ﷺنے فرمایا( ہاں اس کے باوجود )دنیا کی آگوں  سے دوزخ کی آگ گرمی میں ۶۹ درجہ بڑھی ہوئی ہے۔( بخاری:3043)قرآن کریم میں  فرمایا گیا :انطلقوا الی ظل ذی ثلث شعب  لاظلیل و لایغنی من اللھب  انھا ترمی بشرر کالقصر  کانہ جملت صفر ۔( المرسلٰت:29۔33)چلو اس سائبان کی طرف جو تین شاخوں  والا ہے ،جس میں  نہ تو ( ٹھنڈک والا ) سایہ ہے ، اور نہ ہی وہ آگ کی لپٹ سے بچا سکتا ہے ،وہ آگ تو جیسے بڑے بڑے شعلے پھینکے گی ،ایسا لگے گا جیسے وہ زرد رنگ کے اونٹ ہوں ۔

جہنم کی حقیقت:

  جہنم کی حقیقت اور وہاں  کی خطرناک کیفیت کو بیان کرنے والی صرف یہ ایک حدیث ملاحظہ کیجیے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن دوزخیوں  میں  سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں  سب سے زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارتا تھا اور اپنے عیش و آرام سے بد مست ہوکر ظلم وجور میں  بہت بڑھا ہوا تھا ،پھر اس کو دوزخ کا ایک غوطہ دیاجائے گا یعنی دوزخ میں  ڈبویا جائے گا جس طرح کپڑا رنگ میں ڈبویا جاتا ہے اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم ! کیا تونے دنیا میں  کبھی راحت و بھلائی دیکھی تھی اور کوئی عیش و آرام اٹھایا تھا ؟وہ دوزخی دوزخ میں  ڈالے جانے کے ڈر سے اس قدر سہم جائے گا کہ دنیا کے ان تمام ناز و نعم او ران تمام آسائش وراحت کو فراموش کردے گا جو اس کو حاصل تھیں  اور ایسا ظاہر کرے گا جیسا اس کو دنیا میں  کوئی راحت و نعمت نصیب ہی نہیں  ہوئی تھی ،چناں  چہ وہ کہے گا کہ نہیں  میرے پروردگار :خداکی قسم !مجھے کوئی راحت ونعمت نصیب نہیں  ہوئی تھی، اسی طرح جنتیوں  میں  سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں  سب سے زیادہ غم و الم اور مشقت وکلفت برداشت کرنے والا تھا ،پھر اس کو جنت میں  ایک غوطہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا:اے ابن آدم ! کیا تونے کبھی کو ئی غم دنیا میں  اٹھا یا تھا اور کسی مشقت و تکلیف سے دوچار ہو اتھا؟وہ جنتی جنت کی نعمتیں  اور راحتیں  دیکھ کر  اپنے دنیا کے تمام رنج و غم اور مشقتوں  کو بھول جائے گا اور جواب دے گا کہ نہیں  میرے پروردگار :خدا کی قسم !میں  نے دنیا میں  کبھی کوئی رنج و غم نہیں  دیکھا اور کو مشقت نہیں  اٹھائی۔( مسلم :5026)

نبی کریم ﷺ اور فکر ِجہنم:

 اس خطرنا ک جہنم کے بارے میں  خود ہمارے نبی رحمت ِ دوعالم ﷺ بہت زیادہ فکر مند رہا کرتے تھے،عذاب کی آیتوں  پر آپ ﷺکی کیفیت بدل جاتی اور امت کو جہنم سے بچانے کی فکر میں  رہاکرتے،مختلف انداز میں  الگ الگ موقعوں  پر آپ ﷺ نے جہنم اور وہاں  کے حالات کو بیان کیااور نہ صرف صحابہ بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں  کو باخبر ومتنبہ فرمایا۔چناں  چہ ایک حدیث میں  ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:آج جنت اور جہنم میرے سامنے پیش کی گئی ،میں  نے بھلائی اور شر میں  آج سے بڑھ کر کوئی دن نہیں  دیکھا۔جو کچھ مین جانتا ہوں  ،اگر تم بھی جان لو تو تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ روؤ۔حضرت انسؓ  کا بیان ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے سنا تو اپنے چہروں  کو ڈھانپ لیا اور زار وقطار روئے،اور ان پر اس سے زیادہ سخت دن نہیں  آیا۔)مسلم:4358)

صحابہ کرام ؓ اور خوفِ جہنم :

  نبی کریمﷺ کی تعلیم وتربیت کا اثر تھا کہ صحابہ کرام ؓ بھی بہت زیادہ جہنم سے خوف کھایا کرتے تھے ،اور جہنم کا تذکرہ ان کی زندگیوں  کے سکون کوختم کردیتا۔بہت سے صحابہ کرام ؓ کے اس بارے میں  واقعات منقول ہیں  جن میں  سے صرف ایک دو کا یہاں  بطور نمونہ مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔حضرت عمر ؓ سورہ طور کی آیت’’ان عذاب ربک لواقع ‘‘(اور تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے) تلاوت فرمارہے تھے تو رونے لگے،بہت روئے یہاں  تک کہ بیمار پڑگئے اور لوگ آپ کی عیادت کے لئے آنے لگے۔(الجواب الکافی لابن القیم:92قاہرہ)حضرت عبادہ بن صامت ؓ ایک مرتبہ بیت المقدس کی مشرقی دیوار پر تھے ،اچانک رونے لگے،لوگوں  نے پوچھا:اے ابوالولید!کیوں  رورہے ہو؟حضرت عبادہ ؓ نے فرمایا:یہی وہ جگہ ہے جہاں  رسول اللہ ﷺ نے ہمیں  بتایاکہ میں  نے جہنم دیکھی ہے۔( صحیح ابن حبان:7624) ربیع بن خثیم ایک مرتبہ اپنے استاد حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے جارہے تھے کہ راستہ میں  لوہاروں  کے پاس سے گزر ہو ا،حضرت ربیع نے جب ان لوہاروں  کی انگیٹھیوں  کی آگ اور اس کے غیظ و غضب اور چیخ وپکار کو دیکھا تو یہ آیت پڑھی:اذا رأتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیظا وزفیرا۔( الفرقان :12)وہ دوزخ ان کو دور سے دیکھے گی تو جہنمی اس کاجوش و خروش سنیں  گے۔تو بے ہوش ہوکر گر پڑے اور اگلی صبح تک بے ہوش رہے۔( تعمیر اخلاق اردو رسالۃ المسترشدین:215)

نارِ جہنم سے حفاظت کا طریقہ:

     نبی کریمﷺ نے جہنم کی آگ اور وہاں  کی ہولناکیوں  سے بھی محفوظ رہنے کا طریقہ بتایا اور مختلف اعمال سکھائے کہ جس کے ذریعہ بندہ آخرت کی تکلیفوں  سے بچ جائے ۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح صحابہ کوقرآن کی سورتیں  سکھاتے تھے اسی طرح یہ دعا بھی سکھاتے تھے ۔اللھم انی اعوذبک من عذاب جھنم ،واعوذبک من عذاب القبر ،واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجا ل ،واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات۔( مسلم :935) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔( بخاری:5973)اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر کسی سے بات کرنے سے پہلے سات مرتبہ اللہم اجرنی من النار  کہاکرے ،اگر کوئی اس کو کہہ لے گا اور اسی رات مرجائے گا تو دوزخ سے خلاصی ہوجائے گی اورجب صبح کی نماز کے بعد اسی طرح سات مرتبہ کہنے سے اس دن مرجائے گا تو دوزخ سے خلاصی کردی جائے گی۔( ابوداؤد:4419) باقی اس کے علاوہ جن باتوں  سے روکا کیا گیا ان سے بچنا اور جن کی تعلیم دی گئی اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

آخری بات:

    قرآن کریم میں  اللہ تعالی نے فرمایا:فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔( ال عمران :185)’’پھر جس کسی کو دوزخ سے دورہٹالیا گیا اور جنت میں  داخل کردیا گیا ،وہ صحیح معنی میں  کامیاب ہوگیا،اور یہ دنیوی زندگی تو ( جنت کے مقابلے میں ) دھوکے کے سامان کے سواکچھ نہیں ۔‘‘انسان کی حقیقی نجات اور کامیابی کو قرآن میں  پیش کیاگیا کہ جو جہنم سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا ۔رمضان کا یہ مبارک مہینہ ہمیں  جہنم سے آزادی دلانے کے لئے بھی آیا ہے ،اس کے لئے ہمیں  رب سے دعاؤں  کا اہتما م کرنا چاہیے۔اعمال میں  جب غفلت اور لاپرواہی آنے لگے تو تھوڑی دیر کے لئے چشم ِ تصور میں  جہنم کی ہولناکیوں  کو لانا چاہیے تاکہ جذبہ ٔ عمل تازہ اور زندہ ہوجائے ۔ہم نے جب رمضان کا آغاز کیا تو گرمی اور دھوپ اپنے شباب پر تھی اور لوگ دھوپ کی زیادتی اور گرمی کی سختی کی وجہ سے پریشان تھے اور ناجانے کتنے لوگ بغیر کسی عذر کے صرف موسم ِ گرماکی شدت کی وجہ سے روزوں  کو تک چھوڑدیئے ،بہت سے لوگ وہ بھی ہیں  وہ جانتے بوجھتے تروایح میں  اس لئے شریک نہیں  ہوئے کہ گرمی میں  کھڑے ہوکر سننا نہیں  ہوپائے گا،جب ہم اطاعت ِ الہی کو بجالانے میں  اس قدر آرام کو تلاش کرتے ہیں  اور سکون وراحت کی امید میں  ہوتے ہیں ، توہمیں  تھوڑی دیر کے لئے آنے والی زندگی کی کلفتوں  کو بھی ذہن میں  تازہ کرنا چاہیے کہ اگر یہاں  سہولت اور راحت نہ ہونے کی وجہ سے حکم ِ خدا کو بڑی آسانی کے ساتھ چھوڑدیا جارہاہے تو کل وہاں  کی سختیوں  اور شدتوں  کو کیسے برادشت کرپائیں  گے۔اللہ ہماری جہنم سے حفاظت فرمائے اور رمضان المبارک کو ہمارے لئے جہنم سے خلاصی ونجات کا ذریعہ بنائے۔

تبصرے بند ہیں۔