آہ! بھائی انضمام

محمد اویس سنبھلی

۲۵؍مئی ۲۰۱۸ء بروز جمعہ کی  شب تراویح سے فارغ ہونے کے بعد میں سونے کی تیاری کررہا تھا، لائٹس بھی آف کرچکا تھا۔نہ جانے کیوں ذہن میں یہ خیال آیا کہ دہلی میں مقیم اپنے ایک عزیز بھائی محمدزید کو فون کیا جائے۔فون ملایا، میں نے سلام کیا تو جواب اتنی دھیمی آواز میں ملا کہ جیسے طبیعت خراب ہو۔میں نے دریافت کیا کیا حال ہے؟ سب خیریت تو! جواب میں جو کچھ سننے کو ملا۔ ۔۔۔۔۔۔۔میرے ہوش اُڑ گئے اور اس کا طبیعت پر بڑا اثر ہوا، زبان سے اناللہ وانا الیہ راجعون کہا اور پھر مزید تفصیل جاننا چاہی لیکن زید اس حال میں نہ تھے لہذا سحری میں اس کی مزید تفصیل معلوم کی۔

زندگی کی کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہرتو ہم بھول چکے ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ اچانک پرچھائیاں بن کر دماغ کے کسی گوشہ میں چپک کر بیٹھ جاتی ہیں اور کبھی بھی، کسی بھی وقت جانے کس طرح چھم سے سامنے آجاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے ذمہ داران نے میری ایک درخواست پر غور کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں مشاعرہ منعقد کرانے کا فیصلہ لیا تھا اور اس مشاعرہ کے لئے کنوینر اس نااہل کو مقرر کیا تھا۔ مشاعرہ اپنی تیاریوں کے عروج پر تھا کہ وزیر اعظم مودی جی نے ۸؍نومبر ۲۰۱۶ء کو بازار میں چلنے والے ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹوں کی منسوخی کا اعلان کردیا، یہ خبر پورے ملک کے عوام کی طرح مجھ پر بھی بجلی بن کر گری۔ ۱۰؍نومبر کو فخرالدین علی احمد کمیٹی کی طرف سے چیک جاری کیا گیا، اور مشاعرہ ۱۹؍نومبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہونا تھا۔بینکوں میں زبردست بھیڑ کے باوجود چیک توکسی طرح بینک میں جمع ہوگیا لیکن بینکوں میں نئے نوٹوں کا انتظام ہی کہاں تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم دے سکتے۔شاعروں کا اعزازیہ تو بذریعہ چیک دیا جاسکتا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اخراجات تھے کہ اس کے لئے کیش کی سخت ضرورت تھی۔زید جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم بی اے کر رہے تھے اور اس مشاعرہ کی تیاری میں وہی اپنے دوستوں کے ساتھ پیش پیش تھے۔ ان میں زید کے علاوہ محمد انس نعیم، ریّان علی، محمد ارسلان اور انضمام الحق نے بہت محنت کی تھی۔ ان سب سے بھی کیش کی قلت کے بارے میں بتایا گیا، سب نے اپنے اپنے طور پر کوششیں شروع کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن کیش کا انتظام میری ایک بہن زیبا نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر اتنا کردیا کہ اس کے بعد کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی البتہ میرے دوست اقبال اشہر نے بھی ۲۵۰۰۰؍کا انتظام کردیاتھا۔ مشاعرہ بہت شاندار ہوا، لوگوں نے اسے بہت پسند کیا، زی سلام نے مسلسل ایک ماہ تک اس مشاعرہ کا ٹیلیکاسٹ کیا۔اس مشاعرہ کی کامیابی میں سب سے اہم رول زید، انس، ریان، ارسلان، زیبا اور انضمام نے ہی ادا کیا تھا۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا لکھتے لکھتے۔ ۔۔۔۔ کہاں پہنچ گیا۔

دراصل یہی تووہ یادیں ہیں جو میرے دماغ کے کسی گوشہ میں چپکی ہوئی تھی اور کل رات عزیزم زید کے فون کے بعد چھم سے سامنے آگئیں ۔کل رات فون پر اچانک زید نے جو اطلاع دی تھی وہ یہ تھی کہ بھائی حال کہاں ٹھیک ہیں ؟ انضمام کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ سن کر مجھے شاک لگا کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی، وہ محض ۲۵؍برس کا ایک توانا، ہر دم مسکراتے رہنے والا انسان تھا۔ میری جب بھی اس سے ملاقات ہوئی بہت محبت سے ملا، بے تکلفی بھی اس مشاعرہ کے بعد سے ہوگئی تھی، حالانکہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا تھا۔ ایک بہت پیارا دوست ایک اچھا انسان کل اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ رمضان المبارک کے ۹؍روزہ مکمل کئے۔ فیلڈ کی جاب تھی، کل بھی آفس سے واپسی کے بعد روزہ کھولا، اس کے کچھ دیر بعد غفور نگر (دہلی)میں اپنے مکان کے باہر گلی میں ٹہلنا شروع کیا اور فون پر اپنے ایک دوست سے بات کرتے کرتے یہ کہا کہ طبیعت اچھی نہیں ہورہی، دن بھر کی دوڑ دھوپ سے روزہ میں حالت خراب ہوجاتی ہے، اس وقت بھی چکر سا آرہا ہے، یہ کہتے کہتے فون کٹ گیا، اس دوست نے دوبارہ ملانا شروع کیا لیکن کال جب رسیو نہیں ہوئی تو اس نے انس نعیم کو فون کیا، انس دوڑتا بھاگتا انضمام کے گھر پہنچا تو دیکھا وہ بیڈ پر لیٹا ہوا ہے، اسے اُٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جب کامیابی نہیں ملی تو اسپتال لے کربھاگے۔ ڈاکٹر نے چیک اپ بعد کہا کہ کافی دیر پہلے ان کا انتقال ہوچکا ہے۔

زندگی اور موت کا سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ کسی کا اس دنیا میں آنا کچھ افراد کے لئے باعث مسرت ہوتا ہے تو کسی کی موت کچھ افراد کو غمزدہ کردیتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی اور موت اپنے طے شدہ وقت پر آتی ہیں۔ انضمام بھی اپنا وقت پورا کر چکا تھا لیکن بوڑھے ماں باپ پر کیا گزگئی اس کا اندازہ کرنا بھی ہمارے لئے ناممکن ہے۔ اللہ بخشے انضمام میں بڑی خوبیاں تھیں ۔صاف گوئی، محنت اورجفاکشی، خلوص و صداقت اس کے مزاج کی خوبیاں تھیں۔ اس کا دمکتا اور مسکراتا چہرہ، سرمگیں آنکھیں گہری سانولی رنگت ہونے کے باوجود کشش اور جاذبیت رکھتی تھیں۔ افسوس! انضمام اب ہمارے درمیان نہیں لیکن اس کی نہ بھولنے والی باغ و بہار شخصیت اس کے دوستوں اور میرے دل و دماغ میں ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ اس کی زندگی کا سفر پوراہوگیا لیکن اس کی زندہ دلی، خوش مزاجی اور دوست نوازی کے چرچے ہم لوگوں کے درمیان ہمیشہ ترو تازہ رہیں گے۔

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوسکتی

جسم مر جانے سے انسان نہیں مرسکتے

اللہ تعالیٰ اس کی خطائوں کو معاف فرمائے اور اسے اس کی حسنات کی خلد بریں میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین یاب العالمین۔قارئین کرام سے اپنے خصوصی تعلق کے واسطے سے بھی مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔