اپنی تربیت کیسے کریں؟

تحریر: خرم مرادؒ ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(دوسری قسط)
تربیت کا مقصود، جنت: ہماری نگاہ و دل کیلئے کون سا مقصد سب سے بڑھ کر محبوب ہونا چاہئے کہ جس کے حصول میں کامیابی پر ہماری اپنی تربیت کی ساری کوشش مرکوز ہو؟
پہلے ہی قدم پر یہ فیصلہ کرنا اس لئے اہم اور ضروری ہے کہ جیسا مقصد ہوگا اس کے حصول میں کامیابی کے تقاضوں کے مطابق ویسی ہی اپنی شخصیت ہمیں بنانا ہوگی اور اسی کے مطابق طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ اگر کسی کا مقصد حصول علم ہے تو کامیابی کیلئے وہ درس گاہوں میں جائے گا، اہل علم سے علم حاصل کرے گا، کتاب و قلم سے رشتہ جوڑے گا، تجزیہ اور اظہار وبیان کی قدرت حاصل کرے گا۔ اگر کسی کا مقصد روحانی ترقی ہے تو وہ کامیابی کیلئے خانقاہوں اور مشائخ کا رخ کرے گا، مجاہدہ و ریاضت کرے گا، ذکر و مراقبے سے شغل رکھے گا۔ اگر اسے جنگ لڑکر جیتنا ہے تو وہ کتاب و قلم او ذکر و نفس کشی چھوڑ کر اسلحہ کا استعمال سیکھے گا اور قوت فراہم کرے گا۔
یہ بات ظاہر ہے کہ ہماری زندگی کا سب سے محبوب مقصد، موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں جنت اور اللہ کی رضاو خوش نودی کا حاصل کرنا ہے۔ اللہ کے غضب اور اس کی آگ سے بچنا، رضائے الٰہی کے مقصد کی دوسری تعبیر ہے۔ آگ سے بچائے جائیں گے، اللہ کے غضب سے بچیں گے، جنت میں داخل ہوں گے اور رضائے الٰہی نصیب ہوگی۔ رضائے الٰہی جنت سے زیادہ بڑی چیز ہے وَ رِضْوانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُط (توبہ:72)؛ لیکن دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جنت کی آرزو، رضائے الٰہی کی طلب ہی کا تقاضا ہے۔ اللہ راضی ہوگا تو وہ آگے سے بچائے گا اور جنت میں داخل کرکے اپنی رضا پر سرفراز کرے گا۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں صرف اللہ کی رضا چاہئے، ہمیں جنت سے کوئی سروکار نہیں‘‘ وہ لوگ رضائے الٰہی کے مفہوم سے واقف نہیں۔ دیکھو؛ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ ’’وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کیلئے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں‘‘ (البقرہ:207)۔ اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ ’’اللہ نے مومنین سے ان کے جان و مال خرید لئے ہیں، اس عوض میں کہ ان کو جنت ملے گی‘‘ (التوبہ: 111)۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بات کھول کر تاکید کے ساتھ بار بار ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ زندگی کی ساری تگ و دو کا مقصد اصل زندگی، باقی رہنے والی زندگی، موت کے بعد کی زندگی میں، جنت کے حصول میں کامیابی ہونا چاہئے۔ یہاں کی یا وہاں کی زندگیوں میں سے ایک کو منتخب کرلو: وَفِیْ الاْٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانٌ ط (الحدید: 20)۔
اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوش نودی ہے۔
دنیا کی جس چیز کو بھی محبوب و مطلوب بناؤگے، وہ دھوکے کا پردہ ہے اور محض نظر کا فریب ہے، اس لئے کہ آخری سانس نکلتے ہی وہ ساتھ چھوڑ جائے گی۔ اس زمین پر ہر چیز ہی فنا اور ختم ہوجانے والی ہے۔ باقی رہنے والی چیز صرف اللہ جلیل و کریم کی ذات اور اس کی خوش نودی ہے۔ دنیا کی یہ تمام چمکتی دمکتی چیزیں، چاند، سورج کی طرح ڈوبنے والی ہیں۔ ان کو زندگی کا محبوب بنایا تو ان کے ساتھ ساری زندگی کی دوڑ دھوپ اور ساری شخصیت بھی ڈوب جائے گی، اس لئے فرمایا: ’’دوڑو؛ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف، جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘ (الحدید:21)۔
ایک دوسری جگہ فرمایا: سَارِعُوْا (آل عمران:133)۔ دوڑ کر چلو جنت کی راہ پر، تم کو زندگی بھر جنت کی طرف ہی دوڑ لگانا ہے۔ نہ اِدھر دیکھنا، نہ اُدھر دیکھنا، نہ ٹھہرنا، نہ سستانا۔۔۔ مطلب یہ کہ ساری تربیت اس دوڑ کو جیتنے کیلئے ہی ہونی چاہئے۔
زندگی میں رنگ اور مزا، مقاصد میں کامیابی کے دم سے ہے۔ سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ تم جنت میں پہنچ جاؤ : ’’اور تم سب اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب در اصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے‘‘ (آل عمران:185)۔
کامیابی بھی کیسی کامیابی! بہت بڑی کامیابی (اَلْفَوْزُ الْکَبِیْرُ)، نمایاں کامیابی (اَلْفَوْزُ الْمُبِیْنُ)، عظیم الشان کامیابی( اَلْفَوْزُ الْعَظِیْمُ)! سولہ مقام پر اللہ تعالیٰ جنت میں داخلے اور وہاں کی نعمتوں کو بیان کرکے فرماتے ہیں: وَ ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ ایک سو سے زیادہ مقامات پر جنت کی نعمتوں کو بیان کیا ہے۔ بعض جگہ تو ایک چیز کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا لالچ دیا ہے۔ انہی کو حاصل کرنے میں کامیابی کو زندگی بھر کا مقصد و مطلوب بنانے کی ترغیب دی ہے۔ کہا ہے کہ لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ (الصافات:61)۔ یقیناًیہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کیلئے کام کرنے والوں کو کام کرنا چاہئے۔ اور فرمایا ہے:
’’جولوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘ (المطفّفین:26)۔
اس طرح شوق اور ولولہ پیدا کیا ہے، امنگ اور آرزو ڈالی ہے اور کارنامہ زندگی کے اختتام پر اسی انجام کو دل و نگاہ کا محبوب بنایا ہے:
’’اے نفس مطمئن؛ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنی کامیابی سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے، شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘ (الفجر:27-30)۔
یک سوئی کا فیصلہ: تربیت کی راہ میں پہلا قدم یہی ہے کہ تم جنت کے بارے میں یکسو ہو جاؤ اور فیصلہ کرلو کہ یہی مقصود زندگی ہے، اسی کے حصول میں کامیابی مطلوب ہے۔ ساری تربیت کا مقصود یہی کامیابی حاصل کرنے کے لائق بننا ہے۔
یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بات بہت اہم ہے۔ یہ زندگی بھر کا فیصلہ ہے۔ اسے ایک دفعہ سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔ اگر چہ بعد میں بار بار دہرانا بھی ضروری ہے۔ تم دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر کہیں بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیشہ ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے رہوگے، ساحل ہاتھ نہ آئے گا۔بدقسمتی سے آج ہمارے تربیت کے اکثر مسائل اس دوغلے پن کی وجہ سے ہیں۔ تم ایک دفعہ جست لگاکر جنت کی کشتی میں سوار ہوجاؤ۔ ذہنی، قلبی اور نفسیاتی طور پر مکمل یکسوئی کے ساتھ، عملاً پہلا قدم راہ پر رکھ دو، پھر دیکھو کیا کیا نہیں ہوسکتا۔
اس مقصد کیلئے مفید ہوگا اگر تم وضو کرو، دو رکعت نماز پڑھو، اپنی بساط بھر پورے خشوع و خضوع سے پڑھو۔ پھر دوزخ کے سارے عذاب اور جنت کی ساری نعمتیں یاد کرو اور اس وقت کا تصور کرو جب ملک الموت آکر کہے گا کہ ’’وقت ختم، اب میرے ساتھ چلو‘‘۔ اور اس وقت کا تصور کرو جب اللہ کے روبرو کھڑے ہوگے اور زندگی بھر کا فیصلہ ہورہا ہوگا اور بس پھر فیصلہ کرلو کہ مجھے اپنی بساط بھر جنت کیلئے پوری پوری کوشش کرنا ہے۔ پھر اللہ سے روکر، گڑگڑا کر دعا کرو۔ اس کے بعد جب اور جتنی بار چاہو، مانگتے رہو اور جن الفاظ میں چاہو مانگو:
’’اے اللہ؛ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں، اور ہر اس قول اور عمل سے جو مجھے آگ سے قریب کرے‘‘ (ابن ماجہ) ۔
’’اے اللہ؛ میں تجھ سے ایمان مانگتا ہوں جو کبھی نہ چھینا جائے، اور وہ نعمت جو کبھی نہ مٹے، وہ لذت جو کبھی نہ ختم ہو، اور ہمیشہ کی جنت کے بلند ترین درجات میں، میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت مانگتا ہوں‘‘ (ابن ابی شیبہ) ۔
عادات و اعمال کی اصلاح و تعمیر اور سیرت و کردار کی تعمیر، زندگی بھر کا کام ہے، جو بتدریج ہوگا، ہوتا رہے گا؛ لیکن کسی چیز سے محبت ہوجانا، اس کی طلب پیدا ہوجانا، اس کو حاصل کرنے کیلئے تڑپ اٹھنا اور اس میں لگ جانا، یہ لمحہ بھر کا کام ہے۔ محبت پہلی نظر میں بھی ہوجاتی ہے۔ طمع و خواہش کے غالب آتے ہی آدمی جست لگالیتا ہے۔
برکات و ثمرات: یہ فیصلہ ناگزیر ہے، اس لئے کہ اسی سے ہی تمہاری تربیت کے نقوش و خطوط، طریقے اور تدابیر کا تعین ہوگا۔
یہی تمہارے لئے کسوٹی کا کام کرے گا۔ کیا بات کرو، کیا نہ کرو، کس طرح کرو، کیا کام کرو، کیا نہ کرو، کیا صفت پیدا کرو، کیا نکالنے کی کوشش کرو وغیرہ۔ یہ فیصلہ اس طرح کرو کہ کیا چیز جنت کے قریب لے جائے گی اور کیا چیز اس سے دور اور جہنم سے قریب۔ کیا چیز اللہ کو خوش کرے گی، اور کیا چیز اسے ناراض۔ قانونی مسائل کے صحیح علم میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ یہ باتیں تو سب کو معلوم ہیں، چنانچہ جیسا ہم نے کہا یہ فیصلہ تمہارا سب سے بڑا رہنما اور معلم بن جائے گا۔
یہ فیصلہ تمہیں وہ ساری قوت اور جذبہ اور تحریک فراہم کرے گا جو تمہیں تربیت کی راہ میں درکار ہوگی۔ سچی بات ہے کہ اگر تمہارے دل کو لگ جائے کہ تمہیں کسی منزل پر پہنچنا ہے، کچھ بننا ہے، کچھ حاصل کرنا ہے، تو پھر یہ فیصلہ بھی تمہاری تربیت کیلئے کافی ہوسکتا ہے۔ یہ تم کو آگے بڑھائے گا اور تمہاری سمت بھی درست کرے گا، بغیر اس کے کہ کوئی خارجی ذریعہ یہ کام کرے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں کہ مکہ میں لوگ آئے، ایمان لائے، جنت کا سودا کیا، چند سورتیں سیکھیں، واپس چلے گئے، جیسے طفیل بن عمرو دوسیؓ اور ابوذر غفاریؓ۔ پھر اس وقت آئے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچ چکے تھے، لیکن یہ اپنے ایمان اور اسلام پر قائم بھی رہے اور ترقی بھی کرتے رہے۔
فیصلہ کروگے تو یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ جنت کے علاوہ ہر چیز جو بظاہر مقصود و مطلوب ہے اور جس کے حصول میں کامیابی تمہیں محبوب ہے، وہ فی الواقع مقصود حقیقی نہیں۔تربیت بھی خود مقصد نہیں، نیک سیرت بھی خود مقصد نہیں، حسن اخلاق بھی خود مقصد نہیں، دعوت و جہاد بھی خود مقصد نہیں، غلبہ اسلام اور اقامت دین بھی خود مقصد نہیں۔ ہر چیز جنت کے حصول کا ذریعہ ہے، جس حد تک وہ صالح ہو، اور آخرت باقی رہ جائے، ورنہ ان میں سے بھی ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔
اگر تم اس بات کو اچھی طرح جان لوگے اور اچھی طرح یاد رکھوگے تو تربیت کی راہ کی بہت سی مشکلات دور ہوجائیں گی، بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے اور بہت سے فتنوں کی جڑ کٹ جائے گی۔ تربیت کی راہ آسان اور صاف ہوجائے گی۔ تربیت ہی کی نہیں، پورے دین پر عمل کی راہ بھی ان برکتوں سے معمور ہوجائے گی۔ دین کی ہر تعلیم اور ہر حکم پر عمل بھی تربیت کا ذریعہ ہی تو ہے۔ دین کی راہ در اصل تربیت ہی کی راہ ہے۔
پھر تم کچھ کرنا چاہوگے اور نہ کرسکوگے، کچھ چھوڑنا چاہوگے اور نہ چھوڑ سکوگے، کچھ بننا چاہوگے اور نہ بن سکوگے، تو نہ ہمت ہاروگے اور نہ مایوس ہوگے۔ ان میں سے کوئی چیز مقصود نہیں، مقصود صرف جنت ہے۔ ہر کوشش کا اجر جنت ہے۔ ہر گناہ کے بعد استغفار کا موقع ہے اور مغفرت جنت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پھر کوئی تمہاری دعوت قبول نہ کرے، کوئی تمہاری انا اور نفس کو ٹھیس پہنچائے، تم کو برسوں کام کر کے بھی دین کی راہ میں پیش رفت نصیب نہ ہو، تو بھی اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ چلتے رہوگے ، اس لئے کہ تم ان میں سے کسی کی طرف نہیں دوڑ رہے تھے، تم جنت کی طرف دوڑ رہے تھے۔
پھر تمہیں نہ خود اپنے اندر کمال کی طلب ہوگی، نہ دوسروں میں اور نہ دوسروں کے نقائص کی وجہ سے تم اپنا کام ادھورا چھوڑ کر اپنی جنت کی منزل کھوٹی کرنا چاہوگے۔ اس لئے کہ مکمل کمال صرف اللہ کو حاصل ہے، اور تمہارا مطلوب کمال فرشتوں کو حاصل ہے جو گناہ کر ہی نہیں سکتے؛ لیکن فرشتوں کیلئے جنت کی منزل نہیں۔ جہاں تمہیں اپنے کمال میں زوال یا نقص نظر آئے گا وہیں تم اللہ کی پناہ لوگے، استغفار کروگے اور مغفرت و جنت کی طرف چلنا شروع کروگے۔
جامعیت: یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جنت اور صرف جنت کو مقصود بنالینے سے دیگر تربیتوں کا محرک یا ضرورت ختم ہوجائے گی۔ کسی اور چیز کو تربیت کا مقصد بناؤگے تو جنت خارج ہوجائے گی۔ جنت کو مقصد بناؤگے تو یہ اتنا جامع مقصد ہے کہ ہر نوع کی تربیت اس میں شامل ہوجائے گی۔
کیا دیانت داری جنت میں نہیں لے جائے گی؟ پھر کیا اپنے فرائض کو دیانت داری اور بہ حسن کمال انجام دینا جنت میں نہیں لے جائے گا؟ پھر کیا اس مقصد کیلئے حاصل کردہ تربیت بھی جنت میں داخل ہونے کیلئے تربیت میں شامل نہ ہوگی؟ کیا زراعت و تجارت کرکے لوگوں کی ضروریات پوری کرنا جنت سے قریب نہیں کرے گا؟ کیا ان کاموں کو دیانت اور حسن و خوبی سے انجام دینے پر جنت نہیں ملے گی؟ پھر ان کیلئے تربیت جنت کیلئے تربیت کے دائرہ سے باہر کیوں ہو۔ کیا لایعنی چیزوں کو ترک کر دینا اسلام کا حسن نہیں؟ کیا وقت کے صحیح استعمال کی تربیت جنت میں جانے کیلئے ضروری نہ ہوگی؟ کیا نماز کا وقت پر پڑھنا جنت میں لے جانے میں مدد نہیں کرے گا؟ پھر کیا زندگی کے سب کام وعدوں کے مطابق وقت پر انجام دینے کی تربیت جنت کا مستحق نہیں بنائے گی؟ بلکہ وعدوں کی پابندی تو ان اعلیٰ نیکیوں میں شامل ہے، جن پر وضاحت سے جنت کا وعدہ ہے۔ غرض جس پہلو سے غور کرو، ہر تربیت، جو ناجائز مقاصد کیلئے نہ ہو اور جنت کی نیت سے ہو، جنت کی تربیت ہے۔ یہ مقصد انتہائی جامع مقصد ہے۔
پہلا قدم: تربیت کی راہ پر پہلا قدم یہی ہے کہ تم جنت اور صرف جنت کو اپنی زندگی کا محبوب و مطلوب بنالو۔ جنت ہی پر اپنی نگاہیں جمالو۔ دل کو اسی کی آرزو، طمع اور امید سے بھر لو۔ چلو تو اس کی طرف چلو، دوڑو تو اس کی طرف دوڑو۔
یہ تمہارا سوچا سمجھا فیصلہ ہو، اس پر تمہارا دل پوری طرح مطمئن ہو۔ یہ تمہارے دل پر نقش ہو، یہ ہمیشہ تمہاری آنکھوں کے سامنے رہے۔ تم اسے بار بار یاد کرتے رہو، اور تمہاری زبان پر بھی ا س کا چرچا ہو۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔