اپنے بھی غیروں کے جیسے غیر بھی اپنے لگتے ہیں

افتخار راغبؔ

  اپنے بھی غیروں کے جیسے غیر بھی اپنے لگتے ہیں

تیرے دکھ کو قید کروں تو لفظ تڑپنے لگتے ہیں

 اچھے دن کے خواب نہیں یہ پھر بھی جانے کیوں اکثر

کنکر کے جیسے آنکھوں پر وصل کے سپنے لگے ہیں

 غیر شعوری طور پہ جانے یوں ہی کیا ہو جاتا ہے

گم صم ہو کر تیرے نام کی مالا جپنے لگتے ہیں

 آنکھوں میں بارش کا موسم دل میں بلا کی زرخیزی

آپ ہی تیرے درد کے پودے دل میں پنپنے لگتے ہیں

ممکن ہو تو ڈوب کے اک دن دیکھ مری آنکھوں میں تو
کتنے حسین مری آنکھوں میں تیرے سپنے لگتے ہیں

 رنجیدہ کیا ہونا راغبؔ کیا رکھنا رنجش اُن سے

تپنے دو جو ہم کو ہنستا دیکھ کے تپنے لگتے ہیں

1 تبصرہ
  1. شیراز احمد کہتے ہیں

    بہت اعلی شخصیت کے حامل ھیں افتخار راغب صاحب
    ply stor سے میں انکی کتب ڈھونڈی ھیں مجھے ملی نہیں ھیں

تبصرے بند ہیں۔