اکل حلال سے روزہ مخصوص دنوں کے لئے ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔لیکن اکل حرام کاروزہ زندگی بھرکے لئے ہے!

عبدالعزیز
رمضان کے روزے ۲ ؁ھ سے فرض کئے گئے ۔روزہ کی فرضیت کاحکم قرآن مجیدکے سورہ بقرہ کی آیت 183کے ذریعہ مسلمانوں کومخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت کااعلان کیاہے ، اس کامقصدبتایاہے کہ اس سے روزہ دارمیں تقویٰ کی صفت پیداہوگی ،خداخوفی کاجذبہ بیدارہوگا، خواہشات نفس پرقابوکرنے کاگُرمعلوم ہوگا۔
’’اے لوگو! جوایمان لائے ہوتم پرروزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے کے انبیاء کے پیروؤں پرروزے فرض کئے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیداہوگی۔‘‘
اس اعلان کے بعدروزہ کے مسائل بتائے گئے ہیں اورقرآن مجیدکے نزول کے متعلق کہاگیاہے کہ اس کانزول رمضان کے مہینہ میں ہواہے ۔قرآن کے بارے میں کہاگیاہے کہ اس میں سارے انسانوں کی ہدایت ہے اوریہ واضح تعلیمات پرمشتمل ہے اورحق وباطل کوفرق کوکھول کررکھ دینے والی کتاب ہے ۔ پھراہل ایمان کواللہ کی کبریائی اوربزرگی کے اعتراف کرنے کے لئے کہاگیاہے تاکہ وہ شکرگزاربنے۔
روزہ کی فرضیت کے اعلان سے پہلے انسانی جان کی حرمت بیان کی گئی ہے اورساتھ ہی ساتھ مال کی حرمت کاذکرکیاگیاہے ۔ روزہ کے احکامات کے خاتمہ پرنارواطریقہ سے کسی کے مال کھانے کوسختی سے منع کیاگیااوررشوت خوری سے بچنے کی زبردست تاکیدکی گئی ہے۔
’’تم لوگ نہ توآپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطریقہ سے کھاؤاورنہ حاکموں کے آگے اس غرض کے لئے پیش کروکہ تمہیں دوسروں کے مال کاکوئی حصہ قصداًظالمانہ طریقے سے کھانے کاموقع مل جائے۔تمہیں اس کی بُرائی اچھی طرح معلوم ہے۔‘‘ (آیت (188)
مولاناشمس پیرزادہ ؒ نے اس آیت کی تشریح میں نہایت قیمتی بات لکھی ہے :
’’روزہ کے احکام کے متصلاًبعدنارواطریقہ سے مال نہ کھانے کی ہدایت روزہ کی روح کوبے نقاب کررہی ہے ، روزہ جائز وناجائزمیں تمیزکرنااورحدودالٰہی کی پاسداری کرناسکھاتاہے ۔لہٰذالوگوں کامال نارواطریقہ سے کھانا، کسی ایسے شخص کاکام نہیں ہوسکتاجس نے روزہ کایہ اثرقبول کیاہو۔اکل حلال سے روزہ تومخصوص دنوں کے لئے ہے، لیکن اکل حرام کاروزہ زندگی بھرکے لئے ہے۔
دوسروں کامال ہڑپ کرنے یادوسروں کی چیزوں پرناجائز قبضہ کرنے کے لئے رشوت کوذریعہ نہ بناؤ۔رشوت لوگوں کے حقوق کوپامال کرنے کاسب سے بڑاذریعہ ہے ، اس کی چاٹ جب قانون کے محافظوں کولگ جاتی ہے توپھرحقوق کی ضمانت باقی نہیں رہتی اسے پیسوں کے بل پرکوئی بھی خریدسکتاہے ۔ چنانچہ جس سماج میں رشوت عام ہوجاتی ہے ، حکام بددیانت بن جاتے ہیں اورلوگوں کوان کے واجبی حقوق بھی بغیررشوت دیئے نہیں ملتے ۔ اس لئے اسلام نے رشوت دینابھی حرام قراردیاہے اورلینابھی اوررشوت ستانی کے انسدادکے لئے حکام کوہدیہ دینے اوران کے لئے اس کوقبول کرنے کی بھی ممانعت کردی ہے ۔
تم اچھی طرح جانتے ہوکہ رشوت ایک برائی ، ایک حق تلفی اورایک گناہ کاکام ہے ۔ عقل بھی اسے گناہ تسلیم کرتی ہے اوردین وشریعت بھی اسے گناہ قراردیتے ہیں اس لئے اس کاگناہ ہوناایک بدیہی امرہے ۔ ایسی کُھلی برائی سے تمہیں لازماًبچناچاہئے۔‘‘
مولاناابوالکلام آزادنے اس آیت کی عظیم المرتبت تشریح کی ہے جس کاایک ایک لفظ یادکرنے کی ضرورت ہے :
’’اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مشقتِ نفس کی عبادتیں کچھ سودمندنہیں ہوسکتیں اگرایک شخص بندوں کے حقوق سے بے پرواہے اورمال حرام سے اپنے آپ کونہیں روک سکتا۔ نیکی صرف اسی میں نہیں ہے کہ چنددنوں کے لئے تم نے جائز غذاترک کردی نیکی کی راہ یہ ہے کہ ہمیشہ کے لئے ناجائزغذاترک کردو۔ ‘‘

تبصرے بند ہیں۔