اک جھلک اور دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

افتخار راغبؔ

فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو

اک جھلک اور دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

حوض ہیں چشم تو رُخ پر ہے بہت آب و تاب

پیاس آنکھوں کی بجھاؤ نہ اگر ممکن ہو

طائرِ ربط میں سرخاب کے پر لگ جائیں

دستِ صد ناز بڑھاؤ نہ اگر ممکن ہو

چاہتا ہوں کہ نہ ہو درد کی شدت میں کمی

دل کو ہر روز دُکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

اور کب تک رہے دیوار جھجک کی حائل

اب یہ دیوار گراؤ نہ اگر ممکن ہو

ایسا لگتا ہے کہ ہو جاؤں گا پتھر شاید

اک ذرا چھو کے دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

دیکھو کس طرح پڑا ہوں میں تمھارے در پر

دستِ الفت سے اٹھاؤ نہ اگر ممکن ہو

کچھ تو اعجاز دکھاؤ لبِ شیریں کا مجھے

میرا اک شعر سناؤ نہ اگر ممکن ہو

ہے سنورنے کا ارادہ تو تکلف کیسا

مجھ کو آئینہ بناؤ نہ اگر ممکن ہو

ایک دو گھونٹ بھی مل جائے تو خوش بختی ہے

شربتِ دید پلاؤ نہ اگر ممکن ہو

اور کب تک یوں ہی ڈھاؤ گے ستم رہ کر دور

دو بدو ہوکے ستاؤ نہ اگر ممکن ہو

میں کہ تالاب کے مانند ہوں تم شوخ پری

ایک کنکر ہی چلاؤ نہ اگر ممکن ہو

آس کے دیپ میں رکھتا ہوں ہمیشہ جگ مگ

تم کوئی آس بندھاؤ نہ اگر ممکن ہو

یوں ہی کب تک رہوں آخر میں حدِ رغبت میں

مجھ کو راغبؔ سے بڑھاؤ نہ اگر ممکن ہو

تبصرے بند ہیں۔