اک جھلک اور دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
افتخار راغبؔ
فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو
اک جھلک اور دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
حوض ہیں چشم تو رُخ پر ہے بہت آب و تاب
پیاس آنکھوں کی بجھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
طائرِ ربط میں سرخاب کے پر لگ جائیں
دستِ صد ناز بڑھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
چاہتا ہوں کہ نہ ہو درد کی شدت میں کمی
دل کو ہر روز دُکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
اور کب تک رہے دیوار جھجک کی حائل
اب یہ دیوار گراؤ نہ اگر ممکن ہو
…
ایسا لگتا ہے کہ ہو جاؤں گا پتھر شاید
اک ذرا چھو کے دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
دیکھو کس طرح پڑا ہوں میں تمھارے در پر
دستِ الفت سے اٹھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
کچھ تو اعجاز دکھاؤ لبِ شیریں کا مجھے
میرا اک شعر سناؤ نہ اگر ممکن ہو
…
ہے سنورنے کا ارادہ تو تکلف کیسا
مجھ کو آئینہ بناؤ نہ اگر ممکن ہو
…
ایک دو گھونٹ بھی مل جائے تو خوش بختی ہے
شربتِ دید پلاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
اور کب تک یوں ہی ڈھاؤ گے ستم رہ کر دور
دو بدو ہوکے ستاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
میں کہ تالاب کے مانند ہوں تم شوخ پری
ایک کنکر ہی چلاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
آس کے دیپ میں رکھتا ہوں ہمیشہ جگ مگ
تم کوئی آس بندھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
یوں ہی کب تک رہوں آخر میں حدِ رغبت میں
مجھ کو راغبؔ سے بڑھاؤ نہ اگر ممکن ہو
تبصرے بند ہیں۔