لطفِ نگاہِ یار کا مطلب بدل گیا

شازیب شہاب

لطفِ نگاہِ یار کا مطلب بدل گیا
یعنی کہ دل نثار کا مطلب بدل گیا

اپنے وجود پر بھی نہیں میرا کوئی حق
لگتا ہے اختیار کا مطلب بدل گیا

وہ دور تھا تو چشمِ محبت تھی مضطرب
آیا تو انتظار کا مطلب بدل گیا

ہرشخص کہہ رہا ہے یہاں  خود کو معتبر
کیا  لفظ اعتبار کا مطلب  بدل گیا

چاہت کے نام پر یہ خرافات کس لئے
کیا اس صدی  میں پیار کا مطلب بدل گیا

ہم جیت کر بھی کوئی تغیر نہ لا سکے
وہ ہار کر بھی ہار کا مطلب بدل گیا

فرہنگ اور لغات میں ویسی ہی ہے بہار
گلشن میں کیوں بہار کا مطلب بدل گیا

اب چاند بھی بتانے لگا خود کی روشنی
کیا عکسِ مستعار کا مطلب بدل گیا

جگنو سمٹ رہے ہیں قبائے شرر میں کیوں
کیا طرزِ انتشار کا مطلب بدل گیا

آیا وہ پھیلنے پہ تو کم پڑگئی حیات
سمٹا تو اختصار کا مطلب بدل گیا

راضی تھا تو شہابؔ تھا ہر آن اک نشہ
روٹھا تو وہ خمار کا مطلب بدل گیا

تبصرے بند ہیں۔