لطفِ نگاہِ یار کا مطلب بدل گیا
شازیب شہاب
لطفِ نگاہِ یار کا مطلب بدل گیا
یعنی کہ دل نثار کا مطلب بدل گیا
…
اپنے وجود پر بھی نہیں میرا کوئی حق
لگتا ہے اختیار کا مطلب بدل گیا
…
وہ دور تھا تو چشمِ محبت تھی مضطرب
آیا تو انتظار کا مطلب بدل گیا
…
ہرشخص کہہ رہا ہے یہاں خود کو معتبر
کیا لفظ اعتبار کا مطلب بدل گیا
…
چاہت کے نام پر یہ خرافات کس لئے
کیا اس صدی میں پیار کا مطلب بدل گیا
…
ہم جیت کر بھی کوئی تغیر نہ لا سکے
وہ ہار کر بھی ہار کا مطلب بدل گیا
…
فرہنگ اور لغات میں ویسی ہی ہے بہار
گلشن میں کیوں بہار کا مطلب بدل گیا
…
اب چاند بھی بتانے لگا خود کی روشنی
کیا عکسِ مستعار کا مطلب بدل گیا
…
جگنو سمٹ رہے ہیں قبائے شرر میں کیوں
کیا طرزِ انتشار کا مطلب بدل گیا
…
آیا وہ پھیلنے پہ تو کم پڑگئی حیات
سمٹا تو اختصار کا مطلب بدل گیا
…
راضی تھا تو شہابؔ تھا ہر آن اک نشہ
روٹھا تو وہ خمار کا مطلب بدل گیا
تبصرے بند ہیں۔