اہانت رسولﷺکے شرم ناک واقعات اور ہماری ذمہ داریاں

عبد الرشید طلحہ نعمانیؔ

اللہ اور اس کے رسول ﷺسے وارفتگی ومحبت،ان کی فرمانبرداری واطاعت اور ان سے وفاداری وعیدنت اسلام کی اساس اور اہلِ اسلام کی شناخت ہے، ناموسِ رسالت کا تحفظ اورعظمتِ رسول کا تصور اربوں مسلمانوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے والا وہ ناقابلِ تسخیر جوہر ہے جو فدائیانِ نبوت اور شیدائیان ِرسالت کے نزدیک ایمانِ کامل کی بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے ؛ جبکہ یہی دولت ِگراں مایہ ان فریب خوردگانِ مغرب کے یہاں اک مریضانہ جذباتیت ہے ؛یہی وجہ ہے کہ آج اسلام سے عناد،تعلیماتِ اسلامی سے نفرت،مسلم ثقافت کا تمسخر، مسلمانوں کو محکوم رکھنے اور ان پر ہر طرح کی بالا دستی قائم کرنے کا جنون، مسلم ممالک کے مادی وسائل کا استحصال، مسلم نوجوانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے اور ان کو عملی ارتداد کی راہ پر ڈالنے کی شبانہ روز کوششیں ،مسلم ممالک کے سیاسی استحکام کے خلاف مکروہ سازشیں اور ان جیسے بے شمار ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے دشمنانِ اسلام،نہ صرف مسلمانوں کا جانی ومالی اتلاف کر رہے ہیں ؛بلکہ زبردست پیمانہ پر ان کے دینی اعمال،تہذیبی اقدار اور مذہبی کردار کو بھی ملیامیٹ کر رہے ہیں۔

حالیہ کچھ عرصہ سے اعداء اسلام بالخصوص ملک کی متشدد زعفرا نی تنظیموں نے اپنی یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ آزادی اظہار اور حریتِ رائے کی آڑ میں نبی اکرم ﷺکی ذات وصفات کو نشانہ بنا یا جائے، آپ کی بلند پایہ شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے نت نئی سازشوں کا جال بُنا جائے، توہین آمیز کارٹونوں ، فلموں ،تصویروں ،کتابوں اور اشتھاروں کی اک باڑ لگائی جائے اور پوری امت ِ مسلمہ کے خلاف زبردست قسم کی جارحانہ مہم چھیڑ کر انہیں ، اشتعال انگیز ی، قانون شکنی اور آزادانہ احتجاج پر مجبور کیا جائے اور نتیجۃ ً بقائے امن، تحفظ قانون اور ان جیسی دل فریب اصطلاحات کو بنیاد بنا کر خانہ جنگی،قتل وغارت گری اور قید واسیری کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا جائے ؛ تاکہ مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جائیں کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔

گذشتہ ہفتے گجرات کے شہر راجکوٹ کی ایک خاتون سونوڈنگرکی جانب سے شان رسالت میں گستاخی کا واقعہ پیش آیا؛ شان رسالت ﷺمیں گستاخی کرنے والی یہ ملعون خاتون روڈی شیٹر حیدرآباد پولیس کی ٹیم کو چکمہ دے کر فرار ہوگئی۔ چارمینار پولیس اسٹیشن کی تین رکنی پولیس ٹیم نے سونو دنگر کے مکان واقع اکشرا نگر بندھ گلی راجکوٹ گجرات پہونچ کر اُسے گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن اُنھیں معلوم ہوا کہ وہ پولیس ٹیم کی آمد سے قبل ہی وہاں سے فرار ہوگئی۔ ذرائع نے بتایا کہ گجرات کے گندی گرام مالویہ نگر، اے ڈیویژن اور بھکتی نگر پولیس اسٹیشنس میں سونو دنگر کے خلاف 10 سے زائد مقدمات درج ہیں اور کئی غیر ضمانتی وارنٹس بھی زیرالتواء ہیں ۔ شان رسالت ﷺمیں گستاخانہ ریمارکس کا سوشیل میڈیا پر ویڈیو وائرل کرنے کے بعد شہر میں علماء و مشائخین نے اس ملعون کی گرفتاری کے لئے زبردست احتجاج کیا ۔

 بتلایاجاتاہے کہ اس ملعونہ نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں انتہائی ناقابل برداشت بیان بازی کی ؛جس کے بعدسوشل میڈیا سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی، چاروں طرف احتجاجی جلسے جلوس کا تانتا بندہ گیااور مسلمانوں نے توہین رسالت کے اس بد ترین مجرم کوکیفر کردار تک پہونچانے کا حق بجانب مطالبہ کیا؛مگر کاش کہ آزاد ہندوستان کی جمہوری فضاء میں مسلم اقلیت کی یہ صداکسی حد تک موثر وپائیدار ثابت ہوتی،مجرم کے خلاف کوئی مناسب اقدام کیا جاتا اور سیکولرزم کے علم بردار اس قانونی خلاف ورزی پر آواز بلند کرتے لیکن۔۔۔۔۔۔۔

اس جزوی واقعے کے علاوہ آئے دن مختلف روزناموں ،واٹس اپ اور فیس بک وغیرہ کے ذریعہ بھی اہانت ِرسول کے واقعات پیش آئے زیادہ دن نہیں گذرے ؛ جس نے عالم ِ اسلام کے چپہ چپہ میں اضطراب وبے چینی کی لہر دوڑادی اورہر مسلمان غم واندوہ کی تصویربن کر رہ گیا اور کیوں نہ ہو ؟

عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے

عشق ہے کارِ شیشہ وآہن

 قابلِ غور بات:

 یوں تو محسن کشی کی بدترین مجرمانہ حرکتوں اور گستاخانہ کار روائیوں سے انسانیت کا دامن ہمیشہ داغ دار رہا ہے، بد نصیب لوگوں نے تو اپنے والدین تک پر ستم ڈھائے، اپنے ہمدردوں ، خیر خواہوں ، استاذوں ، اور رہنماؤوں کے ساتھ بھی دشمنوں جیسا سلوک کیا، تلاش وجستجو سے ایسی بے شمار مثالیں ہر قوم ومذہب میں مل جائیں گی، اس لحاظ سے پیغمبر ِ اسلام ﷺکی شخصیت ان ناہنجاروں اور خدا بیزاروں کا پہلا نشانہ اور اولین ہدف نہیں ہے ؛مگر اس کے باوجود‘‘ خاموشی’’ ہماری غیرت ایمانی کے خلاف ہے، ‘‘ سکوت’’ ہماری حمیت دینی کے مغائر ہے ؛کیوں کہ  گستاخ رسول کی سزا ایک ایسا امر ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل موجود ہیں ۔ اور اگر ان دلائل کو ایک انسان مدنظر رکھے تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ کم علمی کے سبب بعض لوگوں کے ذہن میں بعض اشکالات اور اعتراضات پیدا ہوجاتے ہیں ؛اس لیے بعض اوقات وہ مخالفت پر بھی اُ تر آتے ہیں ۔حالاں کہ امام ابو بکر الفارسی شافعی نے حضور اکرم ﷺکی گستاخی کرنے والے کے قتل پرامت کااجماع نقل کیاہے : قد حکیٰ ابو بکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی القتل کما ان حد من سب غیرہ الجلد وھذا لا جماع الذی حکاہ محمول علی الصدر الاول من الصاحبۃ والتابعین اوانہ ارادا جماعھم علی ان ساب النبی یجب قتلہ اذا کان مسلما (الصار م المسلول 3)

 ’’امام ابو بکر فارسی جو اصحاب شافعی میں سے ہیں انہوں نے امت مسلمہ کا ا س بات پر اجماع بیان کیا ہے کہ جس شخص نے حضور ﷺکو گالی دی تو اس کی سزا حد اً قتل ہے جس طرح کہ کسی غیر نبی کو گالی دینے والے کی سزا (حد )کوڑے لگانا ہے یہ اجماع صدر اول کے یعنی صحابہ وتابعین کے اجماع پر محمول ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺکو گالی دینے والا اگر مسلمان ہے تو اس کے وجوب قتل پر اجماع ہے ‘‘۔

 کرنے کے تین اہم کام:

1. آئے دن پیش آنے والے ان د ل آزار، جاں فرسا اور تکلفپ دہ واقعات کا سد باب کرنے کے لئے اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ عالمی سطح پرقومی ومذہبی شخصیات بالخصوص انبیاء علیہم السلام کی توہین وتضحیک کو سخت جرم قرار دیا جائے، جس کے لئے سیاسی، سفارتی اور قانونی سطح پر ایسے انتظامات کئے جائیں کہ آزادی اظہار کا استعمال بھی بھر پور ذمہ داری اور انسانی تہذیبی دائرہ کا ر میں رہ کر ہو نیز تحفظ ِناموس ِ رسالت کے لئے ایک عالم گیر تحریک چلائی جائے جس میں بالعموم تمام مسلمانانِ عالم اور بالخصوص عالم ِ اسلام کے حکمرانوں کے ذریعہ باہمی اتفاق کے ساتھ’’ یو  ان  او‘‘ کو ایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں توہینِ رسالت کو ناقابلِ معافی جرم قرار دے کر گستاخِ رسول کو تختہ دار تک پہونچا یا جاسکے ۔

2. اسلام کی دعوت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کا بھر پور اہتمام کیا جائے جس کے لئے خود مسلمان آگے آئیں اور عملی طور پر مکمل پختگی کے ساتھ دینِ اسلام سے اپنی وابستگی کو یقینی بنائیں جس کے لئے غیر اسلامی افکار ونظریات، خیالات وعادات، تہذیب وتمدن اور معاشرت ومعیشت سے کلی اجتناب کریں ، عشق نبی کے نام نہاد دعووں اور بے بنیاد رسوم وبدعات کو چھوڑ کر خالص صحابہ و سلف صالحین کے جادہ مستقیم سے جا لگیں ،بالخصوص مغرب زدہ مادی افکار کو پوری جرأت وہمت کے ساتھ خیر باد کہہ کر نبوت والی سادہ زندگی کو اپنا اسوہ ونمونہ بنالیں ۔

 3. اسلام کی پوری عمارت ہی انسانیت نوازی، پر امن بقائے باہمی، اخوت ومحبت اور ہمدردی ورواداری پر کھڑی ہے، اس لئے مخالف حالات میں بھی صبر وضبط، حکمت واستقامت، دور اندیشی وعاقبت بینی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ؛ بلکہ اس شدید جذباتی اذیت کے باوجود اسلام کے بتلائے ہوئے روشن خطوط پر گامزن رہ کر جائز حدود میں اپنے حقوق کا پُر زور مطالبہ کریں۔ تب کہیں جاکر کسی حد تک ان اندوہ ناک واقعات کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور اہانت ِرسول کا یہ طوفان ِبلاخیز تھم سکتا ہے۔

ہم نے ہر دور میں تقدیسِ رسالت کے لئے

وقت کی تیز ہواؤوں سے بغاوت کی ہے

توڑ کر سلسلۂ رسمِ سیاست کا طلسم

اک فقط نامِ محمد سے محبت کی ہے

تبصرے بند ہیں۔