شعبۂ عربی جامعہ راجوری میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی کا فکر انگیز خطاب

 ڈاکٹر شمس کمال انجم

 بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی چونکہ پیر پنجال کے دور دراز خطے میں واقع ہے اس لیے روز اول سے اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے کہ ملک وبیرون ملک سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کو یہاں بلایا جائے اور ان کے افکار وخیالات سے طلبہ کی فکر کو روشن کیا جا ئے۔عربی شعبہ بھی انہیں شعبوں میں سے ایک ہے جس میں روز اول سے اس بات کا مکمل خیال کیا گیا اور ملک وبیرون ملک سے مختلف ادباء اور علماء ومصنفین کو دعوت دی جائے اور طلبہ وطالبات کو ان کے خیالات سے مستفید کرایا جائے۔

ابھی تک عربی کے جن ادباء واہل علم مصنفین نے عربی شعبے میں آکر طلبہ کو خطاب کیا ان میں پروفیسر محمد سلیمان اشرف (مرحوم) سابق صدر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، پروفیسر زبیر احمد فاروقی سابق صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، پروفیسر شفیق احمد خان ندوی سابق صدر شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر شفیع شیخ سابق صدر شعبۂ عربی بمبئی یونیورسٹی، پروفیسر کفیل احمد قاسمی سابق صدر شعبۂ عربی علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، پروفیسر فیضان اللہ فاروقی ، سابق صدر شعبۂ عربی جے این یو، پروفیسر محمد نعمان خان صدر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، پروفیسر محمد اسلم اصلاحی سابق صدر شعبۂ عربی جے این یو،پروفیسر حبیب اللہ خان، شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسرمحمد ایوب تاج الدین ندوی صدر شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،پروفیسر عبد الماجد قاضی، شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ ، ،ڈاکٹر نسیم اختر ندوی، شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر مجیب الرحمن سابق صدر شعبۂ عربی جے این یو، پروفیسر منظور احمد خان سابق صدر شعبۂ عربی کشمیر یونیورسٹی، ڈاکٹر شاد حسین،سابق صدر شعبۂ عربی کشمیر یونیورسٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

 گذشتہ دنوں پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی شکل میں اس فہرست میں ایک اور قابل قدر اضافہ ہوا۔پروفیسر محسن عثمانی عربی اور اردو کے مایۂ ناز ادیب اور نقاد ہیں ۔ ندوۃ العلماء اور دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں ۔عالم دین، ادیب، دانشور، مفکر اور بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں ۔جس قدر عربی ادبیات ان کی گرفت میں ہیں اسی قدر اردو شعر وسخن اور ادبیات پر انہیں دسترس حاصل ہے۔ عصر حاضر میں عالم اسلام اور ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل ان کی فکرکی مخصوص جولاں گاہ ہیں ۔وہ ایک مفکر اور دانشور کی حیثیت سے مصروف کار ہیں ۔دہلی یونیورسٹی میں بحیثیت صدر شعبہ اپنے فرائض انجا م دے چکے ہیں ۔ حیدرآبار کی انگلش اینڈ فارن لینگویجز سے آپ حال ہی میں بحیثیت ڈین اور صدر شعبۂ سبکدوش ہوئے ہیں ۔

دہلی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز کے مستقل ممبر ہیں ۔کئی رسائل کے مدیر اور نائب مدیر رہ چکے ہیں ۔ مختلف اخبارات ورسائل میں آپ مستقل طور پر لکھ رہے ہیں اور شائع ہورہے ہیں ۔ آپ میرے استاد بھی ہیں ۔ 98-1997ء میں جب میں دہلی یونورسٹی میں شعبۂ عربی سے ایم اے کررہا تھا تو آپ وہاں استاد تھے۔اس کے بعدآپ حیدرآباد چلے آئے اور پھر آپ سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ میں نے آپ کواپنے یہاں ایم فل کے امتحان اورتوسیعی خطبے کے لیے مدعو کیا تو آپ نے بڑی فرحت ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے ہماری دعوت کو شرف قبولیت سے نوازا۔ حیدرآباد کی طویل مسافت طے کرکے اور سفر کی مشقتوں کو عبور کرکے ہماری یونیورسٹی میں آپ قدم رنجاں ہوئے تو ہم نے آپ کی آمد کی مناسبت سے ان کے اعزاز میں ایک توسیعی خطبے کا انعقاد کیا۔ جس میں شعبۂ عربی کے اساتذہ وطلبہ کے  علاوہ شعبۂ اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ اور طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز اعجاز احمد کی تلاوت کلام پاک سے ہوااور پھر اسلامک اسٹڈیز کے استاذ جناب گلزار بٹ نے ہدیۂ نعت پیش کیا۔ اس کے بعد احقر العباد راقم الحروف نے استاد گرامی کا تعارف پیش کرتے ہوئے انہیں خطبے کے لیے مدعو کیا۔

 آپ نے عربی زبان وادب پر مختصرا خطاب کے بعد موجودہ دور میں ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات ومسائل پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی مسلمان بڑے نازک دور سے گذر رہے ہیں ۔ بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہندوستانی مسلمان تقریبا دس فیصد تک اندلس کی شاہراہ پر چل نکلے ہیں ۔مگر پھر بھی وہ خواب خرگوش میں سرمست ہیں ۔آپ نے مسلم قیادت کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ ان کی خدمات کو سراہا بھی اور نادانستہ طور پر ان سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے بعد اب حال کی غلطیوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

آپ نے تین طلاق کے جلتے ہوئے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی اور کہاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اس مسئلے کودرست طریقے سے کورٹ کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہا۔آپ نے کہا کہ جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں کسی خاص مسلک کا وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر بورڈ یہ کہتا ہے کہ بورڈ میں غالب اکثریت کسی ایک مسلک کے لوگوں کی ہے تو یہی دلیل توبی جے پی کے پاس بھی ہے کہ چونکہ ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور ہندوتہذیب کو مسلط کرنا درست ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں بورڈ کا موقف قرین عقل وانصاف نہیں رہا۔آپ نے مولانا تقی عثمانی کی کتاب کا حوالہ دیا۔ آپ نے سید سلیمان ندوی کے حوالے سے اپنی بات کو مدلل کی۔ آپ نے فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرآبادی، سید رشید رضا، ڈاکٹر وہبہ ذہیلی، شیخ الازہرشیخ شلتوت، ڈاکٹر قرضاوی کا حوالہ دیا اور صحابہ وتابعین کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علماء کی ایک بڑی تعداد ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتی آئی ہے اس لیے اس موقف کو اپنانے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔

  آپ نے ہندوستان میں علمائے دین کی قیادت پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ ہمارے علمائے دین کی قیادت فکری جمود اور کم اندیشی سے عبارت ہے۔آپ نے فرمایا کہ آزاد ی کے بعد علمائے دین کی تمام دعوتی کوششوں کا مرکز ومحور مسلمان رہے۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ یہ سیرت طیبہ کا جزوی اور ناقص اتباع تھا۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لیے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لیے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی۔لیکن بیشتر دعوتی وتبلیغی تنظیموں کی دعوت کے دائرے میں غیر مسلم کبھی نہیں آئے۔ اس ملک میں سینکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان سے لاکھوں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا ۔جب کہ انبیاء کو’’ لسان قوم ‘‘میں ہی تبلیغ کے لیے بھیجا گیاتھا۔ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی اور ہے جو ہندو مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائیلاگ کرسکتے ہوں ۔ ان کے اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں اسلام کو سمجھا سکتے ہوں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے علماء پیدا ہوں جوہندو مذہب وتہذیب سے کما حقہ واقف ہوں ۔ جو ہندی اور انگریزی میں خطاب کرسکتے ہوں ۔ ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں ۔ ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں ۔

آپ نے فرمایا کہ اسپین میں جہاں سے مسلمانوں گو نکالاگیا وہاں مسلمانوں اور مفتوحہ غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات کے درمیان زبان کی خلیج حائل تھی۔ جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی وہی غلطی ہندوستان میں دہرائی گئی اور دہرائی جارہی ہے۔مدارس کے ذمہ داروں اور علما کی قیادت کو اپنی غلطی کا احساس ہونا چاہیے اوور اس کا سد باب کرنا چاہیے۔ برادران وطن کی زبان میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا ہوگا۔ ان کی نفسیات کو جاننا ہوگا۔اور انہیں اسلام کی صحیح تعلیم سے آشنا کرنا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے حالات میں ہندوستان میں اسلام اپنا کردار ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علمائے دین کے صحیح کردار اور صحیح انداز نظر سے ہے۔ علمائے دین کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا حساس نہیں ہے کہ بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب وتنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں ۔ جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے۔آج اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کے پاس عصری آگہی نہیں۔ غیر مسلموں کو خطاب کرنے والی زبان نہیں ۔ اور وہ آپس میں متحد نہیں ۔آج علماء کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ عصر حاضر میں مسلمانوں گو امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہوگا۔

آج ہم دینی مدارس کی تشکیل جدید کے لیے تیار نہیں ۔ آج ہم نصاب تعلیم میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ۔آج ہم اپنے اندر کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں لیکن اگر ہمیں اپنے آپ کو اور امت کو بچانا ہے تو ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی۔ کشادہ دلی پیدا کرنی ہوگی۔ دینی تقاضوں کی فہم پیدا کرنا ہوگی۔ دوربینی ودور اندیشی پیدا کرنی ہوگی۔ مستقبل کے خطرات سے آشنا ہوکر اس کا علاج کرنا ہوکا۔ انجماد سے دور ہٹنا ہوگا۔ تصلب وتعصب سے احتراز کرنا ہوگا۔ملت کی نیا کو پورے اخلاص اور پوری دانشمندی کے ساتھ ساحل آشنا کرنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Hafsa Nuzhar کہتے ہیں

    مسلمان گھرانوں میں مطابقت کے فقدان نے ہمارے معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی کمی کو اس قدر اجاگر کردیا ہے کہ پڑوسی غیر مسلم ….. اسلام کی صحیح تصویر تک پہنچ ہی نہیں پارہا … اکثر وبیشتر تو درگاہوں کے اسیر ہیں .باقی اپنی اپنی جماعتوں کے امین … ہم نے صحیح مسلم معاشرے کی تشکیل میں بہت زیادہ کوتاہی کردی ہے …..

تبصرے بند ہیں۔