اہلِ ظلم و ستم دہل جائیں
افتخار راغبؔ
اہلِ ظلم و ستم دہل جائیں
یوں شجر ہاے صبر پھل جائیں
…
برف ہو جائیں اپنی ٹھنڈک سے
اور تری آنچ سے پگھل جائیں
…
رہنے دیجیے تسلّیاں اپنی
دل نہیں ہیں کہ ہم بہل جائیں
…
وہ ہٹا دیں نقاب چہرے سے
خود پہ نازاں چراغ جل جائیں
…
کیا تعجب کہ روند ڈالے جائیں
ریت کی طرح جو پھسل جائیں
…
ہر دعا آپ کی ہو بار آور
ہم مصیبت نہیں کہ ٹل جائیں
…
اس سے پہلے کہ بند ہوں آنکھیں
آنکھیں کھل جائیں اور سنبھل جائیں
…
دیدنی منظروں کی دھُن میں نہ اب
دید کے زاویے بدل جائیں
…
ہو رہائی گرفت سے اپنی
ہم بھی اب جان سی نکل جائیں
…
خواب پورا کبھی تو ہو راغبؔ
اُن کی آنکھوں میں سر کے بل جائیں
تبصرے بند ہیں۔