اہلِ ظلم و ستم دہل جائیں

افتخار راغبؔ

اہلِ ظلم و ستم دہل جائیں

یوں شجر ہاے صبر پھل جائیں

برف ہو جائیں اپنی ٹھنڈک سے

اور تری آنچ سے پگھل جائیں

رہنے دیجیے تسلّیاں اپنی

دل نہیں ہیں کہ ہم بہل جائیں

وہ ہٹا دیں نقاب چہرے سے

خود پہ نازاں چراغ جل جائیں

کیا تعجب کہ روند ڈالے جائیں

ریت کی طرح جو پھسل جائیں

ہر دعا آپ کی ہو بار آور

ہم مصیبت نہیں کہ ٹل جائیں

اس سے پہلے کہ بند ہوں آنکھیں

آنکھیں کھل جائیں اور سنبھل جائیں

دیدنی منظروں کی دھُن میں نہ اب

دید کے زاویے بدل جائیں

ہو رہائی گرفت سے اپنی

ہم بھی اب جان سی نکل جائیں

خواب پورا کبھی تو ہو راغبؔ

اُن کی آنکھوں میں سر کے بل جائیں

تبصرے بند ہیں۔